۱۲ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۲ شوال ۱۴۴۵ | May 1, 2024
تنخوا

حوزہ/مساجد کے امام کو تنخواہ دینے کے معاملے پر مسلم تنظیموں اور اماموں کے درمیان اتفاق رائے نہیں ہے۔ کچھ لوگ حکومت کی اس پہل پر خوش ہیں تو مسلم تنظیموں کے مطابق یہ محض ایک سیاسی چال ہے جس میں موجودہ نتیش حکومت کی تصویر کو پھر سے مسلمانوں کے درمیان بہتر بنانے کی کوشش شروع ہوئی ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق بہار میں اقلیتی ووٹوں کو خوش کرنے کے لئے حکومت نے ایک نیا داؤ کھیلا ہے۔ صوبہ کے مساجد کے امام کو تنخواہ دینے پر غور کیا جارہا ہے ساتھ ہی مساجد کو مزید مراعات دیکر خوش کرنے کی کوشش شروع ہوئ ہے۔ مانا جارہا ہےکہ مساجد کا سماج پر گہرا اثر ہوتا ہے اگر امام حکومت کے مراعات کو قبول کر لیں گے تو اس کا مثبت پیغام جائےگا۔ اس کام میں شیعہ و سنی وقف بورڈ کو لگایا گیا ہے۔ حالانکہ وقف بورڈ نے دعویٰ کیا ہے کہ مساجد کے امام کو تنخواہ دینے کی بات سے انتخابات کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ یہ سلسلہ مساجد کے امام کی معاشی حالت کو درست کرنے کے مقصد سے شروع کیا جارہا ہے۔

شیعہ وقف بورڈ کے چیئرمین و جےڈی یو لیڈر ارشاد علی آزاد نے بتایا کہ قانونی طریقہ سے جو مساجد وقف بورڈ سے رجسٹرڈ ہیں ان کے امام کو وقف بورڈ کی جانب سے تنخواہ دی جاسکتی ہے۔ اس سلسلے میں صوبہ کے مساجد کے امام کے ساتھ میٹنگ کر کے راستہ ہموار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ساتھ ہی مساجد کو وقف بورڈ سے رجسٹرڈ کرانے کا کام بھی جلد جاری کیا جائےگا۔

وقف بورڈ مساجد کے امام کو کم سے کم 15ہزار روپیہ مہینہ دینے کی بات پر غور کررہا ہے ساتھ ہی مساجد کو ایک ایسے پلیٹ فارم کے طور پر بنانے کی بات ہورہی ہے جس میں ایک پرائمری ہیلتھ سینٹر، ایک لائبریری اور دوسری مرعات شامل ہیں تاکہ مساجد کو نہ صرف عبادت کے طور پر جانا جائے بلکہ مساجد سے خدمت خلق کا کام بھی ہو اور بھائی چارہ کا فروغ بھی ہو۔ اس تعلق سے مساجد کے امام کے ساتھ میٹنگ کرکے راستہ بنایا جائےگا۔ مساجد کے امام کی تنخواہ کی رقم وقف بورڈ اپنی آمدنی اور حکومت کی جانب سے ملنے والے گرانٹ کی رقم سے پورا کرےگا۔ ممکن اس کام کے لئے حکومت کی جانب سے مزید رقم وقف بورڈ کو حاصل ہو۔

مساجد کے امام کو تنخواہ دینے کے معاملے پر مسلم تنظیموں اور اماموں کے درمیان اتفاق رائے نہیں ہے۔ کچھ لوگ حکومت کی اس پہل پر خوش ہیں تو مسلم تنظیموں کے مطابق یہ محض ایک سیاسی چال ہے جس میں موجودہ نتیش حکومت کی تصویر کو پھر سے مسلمانوں کے درمیان بہتر بنانے کی کوشش شروع ہوئی ہے۔

جبکہ کل ہند آئمہ مساجد کونسل کا کہنا ہیکہ انتخابات کے وقت مساجد کے امام کو لالی پاپ دینے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ ائمہ مساجد نے یہ بھی کہا کی اماموں کے مسئلہ پر اگر وقف بورڈ واقعی سنجیدہ ہے تو ان کے لئے مستقل تنخواہ دینے کا انتظام کیا جانا چاہئے۔ کل ہند ائمہ مساجد کونسل بہار کے صدر ڈاکٹر سجاد احمد ندوی نے کہا کی 2020 میں اسمبلی انتخاب ہونا ہے اسلئے اماموں کی یاد آرہی ہے لیکن اتنے دن سے وقف بورڈ کہا تھا جب ان سے اماموں کو تنخواہ دینے کا مطالبہ کیا جارہا تھا۔

آرجےڈی کے سینئر لیڈر و سابق وزیر عبدالباری صدیقی نے کہا کی مسلمان اب جھانسے میں نہیں آئنگے۔ ایک طرف حکومت سی اے اے میں اپنی حمایت دیکر مسلمانوں کے درمیان بےنقاب ہوچکی ہے وہیں این پی آر اور این آر سی پر اسمبلی میں قرار داد پاس کر ان سے محبت کرنے کا ٹھونگ کررہی ہے۔ اور اب اماموں کو تنخواہ دینے کے معاملے سے مسلم سماج کو لالی پاپ دیکھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ عبدالباری صدیقی کے مطابق انتخابات کے لئے لوگوں نے اپنا من بنا لیا ہے کی کس کو اقتدار میں بیٹھانا ہے اور کس کو نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .