۹ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 28, 2024
عزیز اعظمی

حوزہ/یہ مضمون آپ بیتی کے ساتھ ہی جگ بیتی بھی ہے،آخر تک ضرور پڑھیں۔

حوزہ نیوز ایجنسیI تعلیم سے زیادہ پیسہ اور کتاب سے زیادہ پاسپورٹ کی اہمیت رکھنے والی ہماری سوچ اور روایت کے مطابق ابا نے بھی پڑھائی چھوڑ کر پاسپورٹ بنوایا اور ریال و درہم سے گھر کی تقدیر سنوارنے کا خواب سجائے سعودی عرب چلے گئے، اس میں کوئی شک نہیں کہ ریال و درہم سے ہمارے معاشی حالات بدلے ہیں، طرز زندگی بدلی ہے، نمائش و زیبائش کا چلن بدلا ہے امیر و غریب کا معیار بدلا ہے اگر کچھ نہیں بدلا تو تعلیمی معیار اور سیاسی سوچ ، سالوں پہلے تعلیمی اور سیاسی طور پر ہم جہاں تھے آج بھی وہیں ہیں ، اعلیٰ تعلیم کے لئے آج بھی علاقے میں اگر کوئی ادارہ ڈھونڈا جائے تو نہ کوئی ٹیکنیکل کالج ہوگا ، نہ کوئی میڈیکل کالج ، نہ کوئی انجینیئرنگ کالج نہ کوئی پولیٹیکنک اور اسی پژمردگی و پسماندگی کا نتیجہ ہے کہ نہ ہم تعلیم میں ہیں نہ سیاست میں ، نہ حکومت میں ہیں نہ ریاست میں ، نہ صحافت میں ہیں نہ عدالت میں ، کسی بھی موڑ پرکسی بھی وقت کسی بھی دھرم سینا اور بھیڑ سینا کے ہاتھوں اگر ہم مار بھی دیئے جائیں تو نہ ہماری کوئی سیاسی آواز ہوگی اور نہ ہی کوئی تعلیمی و ریاستی اثر و رسوخ کہ ہماری جانوں کی قیمت نظر آئے ۔

عرب ممالک کے تپتے صحراؤں میں پسینہ نچوڑ کر وہاں سے کشید کئے گئے درہم و دینار کی بدولت گاڑی ، گھوڑے ، بنگلے ، محلات تو بنے لیکن ڈاکٹر انجینیئر، ٹیچر آئی ایس ، پی سی ایس نہیں بنے ۔ عرب ممالک پر انحصاری ، تعلیمی پستی ، سیاست اور شریعت میں آپسی رساکشی کے باعث ملک میں ہم وہ مقام حاصل نہیں کر سکے جو مقام ملک میں رہ کر تعلیم و معاش حاصل کرنے والی دوسری قوموں نے کیا ۔ جو عہدہ رتبہ مرتبہ ہمیں ملنا چاہئے تھا وہ ہمارے مقدر کا حصہ نہ بن سکا اسے کسی اور نے حاصل کر لیا ۔

قسمت سنوارنے کی خاطر ابا نے ملک چھوڑ تو دیا لیکن آج کے اس ٹکنیکل دور میں اعلی تعلیم یافتہ ، پڑھے لکھے لوگوں کے سامنے غیر تعلیم یافتہ ، غیر ہنر مند ، کم پڑھے لکھے لوگوں کی حیثیت کہاں ، سعودی عرب کے بدلتے حالات ، بدلتے قانون اور انکے اپنے شہریوں کو ترجیحی بنیاد پر نوکری کی فراہمی کے سبب جب ابا کو کوئی کام نہیں ملا تو سعودی عرب میں با آسانی مل جانے والی واحد نوکری جسے سواق خاص کہا جاتا ہے اسے سیکھ لیا اور ایک سعودی کے گھر میں ڈرائیور بن گئے ، گھر خان صاحب کہے جانے والے ابا اب سعودی میں سواق " فیملی ڈرائیور"کہے جانے لگے ، معاشرے کے اس روئیے پر قربان جاؤں کہ گھر جس کام کو کرنے میں عار محسوس ہوتی ہے سماج حقارت کی ترچھی نگاہ سے دیکھتا ہے پردیس میں وہ سارے کام کرنے میں کوئی عار کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی اپنے ملک میں سبزی و پھل فروش کے گھر رشتہ نہ کرنے والا معاشرہ دبئی میں لانڈری چلانے والوں کے گھر فخریہ انداز میں بیٹا بیچ دیتا ہے سبزی بیچ کر روپیہ کمانے والوں کی عزت تو نہیں لیکن کپڑے دھوکر ریال و درہم کمانے والوں کی عزت میں کوئی کمی نہیں-

خدا کی حکمت ، اپنی قسمت اور خلیجی حالات سے بےخبر سعودی رہنے والے غفور چاچا کے بیٹوں کے ٹھاٹ باٹ اور دنیا کی چمک و دمک دیکھ کر ابا سعودی عرب چلے تو گئے لیکن قسمت سے آگے نہیں جا سکے بڑی مشقت کے بعد کہیں کام ملتا تو تنخواہ نہیں کہیں تنخواہ ملتی تو کام نہیں مشکل سے ملنے والی ڈرائیور کی یہ نوکری بھی کچھ دنوں بعد چھوٹ گئی لیکن حسن اتفاق کہ ابا جس کفیل کے یہاں ڈرائیور تھے وہ ایک ڈاکٹر تھا اسکو ہاسپیٹل چھوڑنا اور واپس لانا یہی انکی کل ڈیوٹی تھی ڈرائیور کی اس نوکری نے ابا کو بہت پیسہ تو نہیں دیا لیکن ایک بہترین سوچ ضرور دیا ، ڈاکٹر کی صحبت نے انکے اندر یہ احساس ضرور پیدا کیا کہ کاش میں بھی پڑھا ہوتا اور یہی احساس سعوی عرب میں ابا کی کل کمائی تھی اور اسی احساس کے ساتھ انھوں نے اپنے آپ سے وعدہ کیا کہ گھر اس وقت تک نہیں جاونگا جب تک بچوں کو پڑھا نہ لوں -

 اللہ نے ابا کی قسمت میں رزق تنگ تو نہیں لیکن اس قدر مختصر لکھا تھا کہ سعودی عرب کی تپتی ریت گرم ہواؤں میں دن بھر پسینہ نچوڑنے کے بعد بھی انکی آمدنی وہیں ختم ہو جاتی جہاں سے غربت شروع ہوتی لیکن دنیا کی نظر میں ابا سعودی رہتے تھے عرب ممالک ریال و درہم کمانے والوں کے گھر میں تنگی ہوگی گاؤں ، محلہ ، پڑوس معاشرہ نہ کبھی اس بات کو ماننے کو تیار ہوتا اور نہ سمجھنے کو اپنی ہانڈی پر نظر رکھنے کے بجائے دوسروں کی ہانڈی پر نظر رکھنے والے اس معزز معاشرے میں ، اپنی عزت اور خاندانی وقارکا بھرم رکھنے کے لئے اماں ہر روز جیتیں اور ہر روز مرتیں ابا کے بھیجے گئے ہر مینے پانچ سے سات ہزار میں گھر کی عزت کو سفید کپڑوں میں ملبوس رکھنا دو دو جوان بہنوں کی شادی کا جہیز بنانا ، ہمیں اسکول بھیجنا ، آرزوں اور خواہشوں کو مار کر پڑوسیوں کے سامنے خوشی کا اظہار کرنا اماں کے لئے کس قدر مشکل تھا رات کی تنہائی میں کبھی کبھی انکی آنکھوں سے بہنے والے آنسو سب ظاہر کر دیتے انکی آنکھوں سے ٹپکے ہوئے موتی اگر غلطی سے ہمیں بیدار کر دیتے تو یہی کہتی کہ ایک حسین خواب تھا جو آنکھوں کو نم کرگیا مجبوریوں اور پریشانیوں میں بھیگا ہوا اماں کا یہ لہجہ بتاتا کہ پرییشان آنکھوں میں حسین خواب کہا ہوتے ہیں-

لیکن ماں کی ممتا ہمیں خوش رکھنے کے لئے آنسووں کے ساتھ اپنے غموں کو بھی پی جاتی لیکن کسی پریشانی کا اظہار نہ کرتی، ہم سفید پوش لوگوں کا المیہ ہے کہ بھوکے مر جائیں گے لیکن اپنی خوداری اپنی غیرت اپنے خاندانی وقار کا بھرم رکھنے کی خاطر نہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلا سکتے ہیں اور نہ ہی کسی کے سامنے اپنی حالت زار بیان کر سکتے ، اماں اسی سات ہزار میں اپنی ساری خواہشوں کا گلا گھونٹ کر جیسے تیسے ہماری ضرورتوں کو پورا کر کے دنیا کے سامنے مسکراتی رہتیں ، ہمارے اچھے مستقبل کی خاطر ابا کا سالوں سال سعودی عرب رہنا ہمیں دکھ تو دیتا ویڈو کال پر انکی محبت اور حسرت بھری نگاہیں دیکھ کر دل خون کے آنسو تو روتا اولاد کے لئے ماں باپ کی اس ایثار اور قربانی پر دکھ اور ملال تو تھا لیکن کلیجہ اس وقت پھٹ گیا جب اماں مجبور ہوکر میرے اسکول کی فیس کے لئے محض ایک ہزار ادھار مانگنے مجھے رحیم دادا کے گھر بھیج دیا ایک ہزار لینے کے لئے میں انکے گھر کے سنگ مر مر لگے منقش ستون کی آڑ میں شرمندگی چھپائے، نظریں جھکائے، مجبوری اٹھائے گھنٹوں کھڑا رہا لیکن جیسے کسی نے سنا ہی نہیں گھنٹوں کھڑے رہنے کے بعد جب مایوسی لئے واپس جانے لگا تو انکی بڑی بَہو نے کہہ دیا کہ جب دیکھو پیسے کے لئے منھ اٹھائے کھڑے رہتے ہیں جیسے یہاں پیسوں کے پیڑ لگے ہیں جب اوقات نہیں تو کیا ضرورت پڑھانے کی کھانے کو نہیں لیکن خواب نوابوں جیسے پتا نہیں کون سا تمغہ مل جائے گا پڑھا کے ۔

لفظوں کے دانت تو نہیں ہوتے لیکن جب وہ کاٹتے ہیں تو جسم کو نہیں روح کو زخمی کرجاتے ہیں اس دن ان کا طنزیہ جملہ مغروری لہجہ میرے سینے میں خنجر کی طرح اتر گیا میری غربت اور ماں کی تربیت نے میرے اندر اتنی ہمت نہیں پیدا کی کہ میں انکا جواب دے پاتا،

پیسے کی جگہ انکا نشتری لہجہ دل میں چبھائے گھر واپس آیا اور ماں کے پہلو میں بیٹھ کر پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا ، سینے سے لگائے اپنے بوسیدہ آنچل سے میرے آنسوؤں کو پوچھتے ہوئے اماں نے کہا کوئی بات نہیں بیٹا دولت سمجھنے والے تعلیم نہیں سمجھتے وقت بہت بڑا مرہم ہے یہ زخم بھی بھر دیگا دوسرے دن ابا کا فون آیا ان سے کہ دیا کہ ابا مجھے پڑھانے کا خواب چھوڑ کر سعودی عرب بلا لیں بھوک تو برداشت ہوجاتی ہے لیکن لوگوں کی تلخ باتیں اور لفظوں کی چوٹ برداشت نہیں ہوتی کسی بھی رنج و الم پر نہ پسیجنے والی ابا کی آنکھیں میری باتوں پر بے تہاشہ برس پڑیں خود کو سنبھالتے ہوئے کانپتے لہجے میں کہا بیٹا اگر تم چاہتے ہو کہ تماری اولاد اور آنے والی نسلوں کو لفظوں کے زخم نہ سہنا پڑے تو میری طرح سعودی آنے کی ضد مت کرو اس وقت پریشانی ضرور ہے تنگی ضرور ہے اپنی قسمت اور خدا کی مشیئت سمجھ کر لوگوں کی باتوں کو نظر انداز کرکے آدھی روٹی اور پھٹے کپڑے پر گزارا کرلو لیکن پڑ ھنے سے انکار مت کرو بیٹا میں تمہیں پڑھانے کے لئے اپنے خون کا آخری قطرہ سعودی عرب کی اس تپتی ریت میں نچوڑ دونگا لیکن ہار نہیں مانونگا پھر تم کیوں ہار مانتے ہو انٹر میڈیٹ کے بعد تمہیں میڈیکل کی تیاری کرنی ہے ایم بی بی ایس کا ٹیسٹ دینا ہے بیٹا میں اپنی قسمت ، اللہ کے فیصلےاور اسکے دئیے گئے رزق سے آگے تو نہیں جا سکتا لیکن تم سے وعدہ کرتا کہ اپنی آنے والی نسل کے مستقبل کی خاطر اپنی جوانی کے قیمتی سال اس صحرا میں گزار دونگا لیکن میں گھر آکر پوری زندگی لوگوں کے سامنے اپنی اولادوں کو رسوا ہوتے نہیں دیھ سکتا بیٹا میری قربانی اور جذبات کی قدر کرنا تمہاری کامیابی میری آنکھوں میں روشنی بھر دے گی عرب کی تپتی ریت میں کام کرنے کا حوصلہ دے گی ، ایک ڈاکٹر کا باپ کہلائے جانے پر میرے یہ سارے زخم بھر جائیں گے -

 ابا کا مشفقانہ انداز، جذباتی لہجہ حوصلہ بن کر مرے دل و دماغ میں اتر گیا اور میں نے بھی اپنے آپ سے وعدہ کیا کہ ، انکی اس قربانی کو رائیگا نہیں جانے دونگا انکے خوابوں کی تکمیل اپنا مقصد بنایا ، کتابوں سے پیار کیا ، نیندوں کو حرام کیا ، فیس بک واٹس کی لغویات سے اجتناب کیا اور پہلے ہی کوشش میں ایم بی بی ایس کا ٹیسٹ نکال لیا لسٹ میں نام آیا تو اماں خوشی سے جھوم اٹھیں ، ابا بہار کے پھول کی طرح کھل اٹھے انکی سوکھی ر گوں جان آگئی ، دوست زندگی کے قیمتی تحفہ ہیں انکی مدد سے فوراً پیسوں کا انتظام کیا اور ساری ضرورتوں کو روک کر میرا ایڈمیشن کرا دیا اور خود چھ سال تک جب تک میں پڑھتا رہا گھر نہیں آئے ، میرے ڈاکٹر بننے کے کچھ مہینوں بعد ابا گھر آئے میں اسوقت دلہی کے ایک ہاسپیٹل میں پریکٹس شروع کر چکا تھا اور ایم ڈی کی تیاری کر رہا تھا ابا گھر پہونچے دوسرے دن میں فلائٹ سے گھر پہونچا آٹھ سال بعد ابا کو دیکھ کر جذبات پر قابو نہ پاسکا انکی اس قربانی اور اماں کی جفاکشی کو سوچ کر آنکھیں بے تحاشہ چھلک پڑیں خدا کے علاوہ کسی اور کے سامنے اگر سجدے کی اجازت ہوتی تو آج اس عظیم ہستی کے پیروں پر گر جاتا ، ابا کے خوابوں کی تکمیل میری زندگی کی مقصد تھا ابھی اور منزلیں طے کرنی باقی تھیں اس لئے کچھ دن ابا کے ساتھ گزارنے کے بعد دہلی واپس چلا گیا دو مہینے بعد ایم ایس کاٹیسٹ ہوا اور بھی نکال لیا اور نیرو سرجن بن گیا ۔

ابا کی کوشش ، انکے حوصلے ، انکی قربانی کی بدولت آج میں شہر کا ایک بڑا ڈاکٹر ہوں کچھ سالوں بعد ابا کے نام سے جب اپنا ہاسپیٹل بنوایا تو ابا کی خواہش کے مطابق گاؤں کے لوگوں کا علاج فری رکھا ، ایک دن رات کو جیسے گھر پہونچا ہاسپیٹل سے فون آیا کہ سر ایک ایمرجنسی کیس ہے وہ بھی آپکے گاؤں کا کھانا ٹیبل پر رکھا چھوڑ کر ہاسپیٹل پہونچا دیکھا تو رحیم دادا باہر کھڑے ہیں جلدی سے گاڑی سے باہر نکلا انکو سلام کیا حال دریافت کرتے ہوئے ایمرجنسی وارڈ گیا دیکھا تو ایک عورت اسٹریچر پر زندگی اور موت کے بیچ سخت تکلیف میں ہے جلدی سے آئی سی یوICU میں داخل کیا علاج شروع کیا دوسرے دن ڈاکٹروں کی ایک ٹیم کے ساتھ آپیریشن کیا کئی ہاسپیٹل سے لاعلاج ہونے کے بعد بالآخر اللہ نے جب انھیں میرے ہاتھوں شفا دی تو ہوش میں آنے کے بعد مجھے دیکھ کر رو پڑیں شاید انکو وہ بات یاد آگئی جب میں انکے گھر اپنی اسی تعلیم کے لئے ایک ہزار ادھار مانگنے گیا تھا تو انھوں کہا تھا کہ جب اوقات نہیں تو کیا ضرورت ہے پڑھانے کی اور پڑھ کر کون سا تمغہ جیت لوگے وہ میرا ہاتھ پکڑ کر مجھ سے معافی مانگنے لگیں میں انکو اچھی صحت کی دعاء دیتے ہوئے صرف اتنا کہہ سکا کہ بھابھی دولت خوشحالی دیتی ہے اور تعلیم زندگی امیری پیسہ دیتی ہے اور تعلیم سلیقہ غربت پر طنز کریئے لیکن تعلیم پر نہیں میرے علاج و سلوک نے انکی زنگی بھی بدل دی اور انکی دنیا بھی کچھ دن بعد انھوں نے میرے نام سے ایک اسکول بنوایا جس میں غریب بچوں کی تعلیم کو فری رکھا۔

اللہ انکو جزائے خیر دے اور ہمیں والدین کی عظمت اور انکے تقدس کے احترام کی توفیق دے۔

تحریر/ عزیز اعظمی اسرولی سرائمیر

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .