حوزہ نیوز ایجنسی| عراق تیل کے ذخائر کے حوالے سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے جس پر گذشتہ 16 سال سے امریکی قبضہ ہے. اسے اقتصادی و سیاسی طور پر امریکہ نے مکمل طور پر جکڑ رکھا ہے. اور اسکے مقدر کے بڑے بڑے فیصلے امریکہ کی مرضی کے بغیر نہیں ہو سکتے. ملک کی سیکورٹی، اقتصادی و سیاسی پالیسیوں میں امریکہ اپنے تسلط اور نفوذ کے ذریعے اپنے مفادات کو ترجیح دیتا ہے. جب 25 اکتوبر 2018 کو عادل عبدالمہدی نے وزارت عظمیٰ کا قلمدان سنبھالا تو کیونکہ یہ شخص خود ماہر اقتصادیات ہے اس نے ملک کو اقتصادی طور پر مستحکم کرنے کے لئے جو روش اپنائی اس کی پالیسیوں اور اقدامات سے عراق امریکی ھاتھوں سے نکل رہا تھا. ایسے میں امریکہ نے اس کو راستے سے ہٹانے کے لئے اپنی پراکسیز میدان میں اتاریں. جنہوں نے کرپشن کے خاتمے اور عوام کی محرومیوں کا کارڈ استعمال کیا. تاکہ لوگوں کی توجہ امریکہ اور وزیراعظم عراق کے مابین حقیقی اختلاف اور اسکے محرکات و عوامل سے ہٹائی جاسکے. مقامی و بین الاقوامی میڈیا نے بھی انہیں پراکسیز کے پروپیگنڈے کو ان ناگہانی حالات کا موجب قرار دیا. اور یہ مطالبات بھی عوام کے دل کی آواز تھے اور انکے بنیادی حقوق کا تذکرہ اور کرپشن ومحرومیوں کے خاتمے کا مطالبہ ان کو سڑکوں پر لانے کا سبب بنا.
اس لئے ہم نے کوشش کی کہ قارئیں کو حقائق سے آگاہ کریں اور عراقی صحافت میں جو ابحاث حالات خراب ہونے سے پہلے چل رہی تھیں اسے انکے سامنے پیش کریں۔ اس لئے ہم نے اپنے پہلے مضمون میں سابق وزیراعظم عادل عبدالمھدی کے ان اقدامات کا تذکرہ کیا جو انھوں نے ملک کو درپیش اقتصادی بحران سے نکالنے کے لئے دلیری کے ساتھ اٹھائے اور امریکی دھمکیوں کی پرواہ کئے بغیر چین کا دورہ کیا. اور دوسرے مضمون میں تفصیل کے ساتھ لکھا کہ انہیں وطن سے وفا کرنے کے جرم کی سزا دی گئی. اور وہ بنیادی وجوھات جو حکومت کے خاتمے کا سبب بنیں ان پر روشنی ڈالی. جبکہ تیسرے مضمون میں امریکی حکومت عراق کو کس نگاہ سے دیکھتی ہے اسے امریکی صدر کے بیانات سے واضح کیا. اور عراق کے اس کرپٹ نظام کی تشکیل کے لئے کئے جانے والے امریکی اقدامات کو دلائل کے ساتھ بیان کیا.
اپنے تیسرے کالم میں ہم نے حوالے کے ساتھ بیان کیا کہ امریکی صدر کہتا ہے
1- عراق کی آرمی (سابقہ) کو جڑ سے اکھاڑ کر ختم کیا جا چکا ہے. اب انکے پاس ایک کمزور فوج ہے.
2- اور عراقی معاشرہ ایک کرپٹ معاشرہ ہے.
3- انکے لیڈر بدعنوان اور کرپٹ ہیں.
4- ایسے عراقیوں کا کوئی وجود نہیں. ( وہ کہ جس کو عراق کی فکر ہو ).
5- وہ مختلف گروہوں اور قبائل میں بٹے ہوئے ہیں.
امریکہ اس وہم میں تھا کہ اب وہ جو کچھ کرنا چاہے وہ کر سکتا ہے۔ لیکن وہ شاید بھول گیا تھا کہ عراق کی تاریخ بہت طولانی ہے اسے کوئی نہ ختم کر سکا ہے نہ ختم کر سکے گا. عراق کی تاریخ بشریت کی تاریخ کی ابتداء تک جا پہنچتی ہے .
امریکہ اس وہم میں تھا کہ اب وہ جو کچھ کرنا چاہے وہ کر سکتا ہے۔ لیکن وہ شاید بھول گیا تھا کہ عراق کی تاریخ بہت طولانی ہے اسے کوئی نہ ختم کر سکا ہے نہ ختم کر سکے گا. عراق کی تاریخ بشریت کی تاریخ کی ابتداء تک جا پہنچتی ہے . کیونکہ تاریخی طور پر ثابت ہے کہ ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام اور آدم ثانی حضرت نوح علیہ السلام اسی ملک عراق کے شہر نجف اشرف میں سردار الاولیاء امیرالمؤمنین علی ابن ابی طالب علیہما السلام کے پہلو میں دفن ہیں. اور تا قیامِ قیامت یہ ملک رہے گا. اور اسی سرزمین پر وہ حکومت بھی قائم ہو گی جو پوری دنیا کے ظلم وجور کا خاتمہ کرے گی اور اسے عدل و انصاف سے پر کر دے گی. جس کی بشارت سردار انیباء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بحکم خدا دے چکے ہیں.
امریکہ گذشتہ سالوں میں دیکھ چکا ہے کہ اب عراق وہ نہیں جو وہ بنانا چاھتا تھا. درست ہے کہ امریکہ نے عراقی فوج کو ختم کرنے کے بعد سوچا تھا کہ اب یہ ملک ایک کمزور ملک ہے. جس کے پاس کوئی دفاعی طاقت نہیں. اب اسے تقسیم کیا جا سکتا ہے اور اس پر داعش کو مسلط کیا جا سکتا ہے. اور وہاں پر مقدسات کی بیحرمتی کی جاسکتی ہے اور انہیں مٹایا جا سکتا ہے. لیکن اسے مرجعیت رشیدہ کی طاقت کا اندازہ ہی نہیں تھا کہ جس کے ایک فتویٰ سے ایسی عوامی رضا کار فورس بن سکتی ہے جو اس کے غرور و تکبر کو توڑ سکتی ہے. اور اسکے ناپاک منصوبوں کو خاک میں ملا سکتی ہے. اسے تاریخ سے عبرت لینی چاھیے تھی۔ ایک زمانہ تھا جب پورے کا پورا کفر اکٹھا ہو کر مرکز اسلام پر حملہ آور ہوا تھا اور اسلام کو نابود کرنا چاھتا تھا. تو اس وقت جس بابصیرت مجاھد سلمان فارسی کی کامیاب دفاعی پالیسی کو قبول کرتے ہوئے رسول اللہ نے شہر کے گرد خندق کھودنے کا حکم دیا تھا. کل ایمان امام نے بڑھ کر کل کفر کو شکست سے دوچار کیا تھا. آج پھر اسی سلمان کی قوم مجاھد اسلام حاج قاسم سلیمانی نے اس زمانے کے تقاضوں کے مطابق دفاعی پالیسی مرتب کی اور خود اپنے جانبازوں کے ساتھ ملکر کر میدان عمل میں اترے اور مرجعیت کے فتویٰ کی لاج رکھی. جس کے نتیجے میں بہادر عراقی سپہ سالاروں اور مجاھدین نے حشد الشعبی تشکیل دیکر اس زمانے کے کلِ کفر کی بنائی ہوئی داعش کے ناپاک وجود سے سرزمین عراق کو پاک کیا. اور عراق کی تقسیم اور علحیدہ ملک کردستان کے قیام کا خواب چکنہ چور کیا. اس وقت عراق اور خطے میں شکست خوردہ امریکہ اپنے سامنے سے بڑی بڑی دفاعی لائنز کو ہٹانا ضروری سمجھتا ہے تاکہ اسکا استعماری تسلط قائم رکھ سکے۔ عراق میں امریکہ کے سامنے بنیادی دفاعی لائنز یہ ہیں۔
1- حشد الشعبی
2- مرجعیت رشیدہ کا نفوذ
3- عراقی و ایرانی ایمانی ر
شتہ اور باھمی تعاون.
4- محب وطن سیاسی لیڈرشپ.
اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے امریکہ جن قوتوں کو استعمال کر رہا ہے؟ ان کا اور اس حوالے سے پارلیمانی اتحادوں اور پارٹیوں کے کردار اور موقف کا تذکرہ ہم اپنے اگلے کالم میں کریں گے۔(جاری ہے)
تحریر: علامہ ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی