تحریر: علی احمدی
حوزہ نیوز ایجنسی |چین کے وزیر خارجہ وانگ ای نے امریکی حکومت کو دنیا میں عدم استحکام کا سب سے بڑا سبب اور ذریعہ قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ واشنگٹن دیگر ممالک کے مفادات کو ٹھیس پہنچانے کیلئے حکومتی ہتھکنڈوں کا غلط استعمال کر رہا ہے۔ اگرچہ چین کے وزیر خارجہ چین اور امریکہ کے درمیان مفادات کے ٹکراو خاص طور پر دونوں ممالک میں جاری اقتصادی اور تجاری جنگ اور ہانگ کانگ میں جاری بدامنی کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے لیکن حقیقت یہ ہے کہ عدم استحکام پیدا کرنے میں امریکہ کا کردار صرف چین کی حد تک محدود نہیں ہے۔ عالمی سطح پر امریکہ کا تخریبی کردار اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ حتی امریکی سیاست دان، فوجی رہنما اور امریکہ کے اتحادی ممالک بھی شدید پریشانی کے عالم میں امریکی حکومت کے اس رویے پر اعتراض کر رہے ہیں۔ اگرچہ مغربی ایشیا میں امریکہ کی جارحانہ اور مداخلت پر مبنی پالیسیاں کوئی نئی چیز نہیں لیکن موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد ان پالیسیوں میں بے سابقہ شدت کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے برسراقتدار آتے ہی بعض ایسے اقدامات انجام دینا شروع کر دیے جو دنیا کے مختلف حصوں میں عدم استحکام کا باعث بنے ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے شام سے فوجی انخلاء کے سرکاری اعلان کے باوجود چند دن پہلے ایک امریکی فوجی کانوائے عراق سے شام میں داخل ہو گیا۔ یہ امریکی فوجی شام میں تیل کے ذخائر سے مالا مال علاقوں میں پڑاو ڈال چکے ہیں۔ یاد رہے کچھ ہفتے پہلے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واضح انداز میں کہا تھا کہ انہیں شام میں پائے جانے والے خام تیل کے ذخائر سے عشق ہے۔ انہوں نے تمام عالمی قوانین کو پس پشت ڈالتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں تیل کی خوشبو بہت اچھی محسوس ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا اصل ہدف شام میں تیل کے ذخائر لوٹنا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر دنیا کے کسی اور ملک یا قوت نے شام میں تیل کے ذخائر پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تو اسے امریکہ کی جانب سے شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ شام میں دریائے فرات کے مشرقی حصے میں وسیع پیمانے پر تیل کے ذخائر پائے جاتے ہیں۔ اگرچہ ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ دھمکی دیتے ہوئے کسی خاص ملک کو مخاطب قرار نہیں دیا لیکن بظاہر یوں دکھائی دیتا ہے کہ وہ روس اور شام آرمی سے مخاطب تھے۔
روس اب تک کئی بار ان آئل ٹینکرز کو ہوائی حملوں کا نشانہ بنا چکا ہے جو شام سے بڑے پیمانے پر خام تیل ترکی اسمگل کرنے میں مصروف تھے۔ اس وقت تیل سے مالا مال ان علاقوں پر تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کا قبضہ تھا۔ دوسری طرف اقوام متحدہ میں شمالی کوریا کے نمائندے نے بھی اپنے سربراہ کے بارے میں امریکی موقف کو دشمنانہ قرار دیا اور شدید غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں امریکہ سے وعدہ خلافی اور بددیانتی کے علاوہ کچھ نہیں ملا۔ انہوں نے امریکی حکام کو خبردار کیا کہ وہ موجودہ ظالمانہ صورتحال برداشت نہیں کریں گے۔ اسی طرح امریکہ کے نائب صدر مائیک پینس نے غیر قانونی طور پر عراق کا دورہ کیا ہے جس کی عراقی حکومت اور عوام نے شدید مذمت کی ہے۔ مائیک پینس نے بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے بغیر اجازت عراق میں موجود امریکی فوجی اڈے کا دورہ کیا۔ انہوں نے عراقی حکام سے ملاقات بھی نہیں کی اور عراقی وزیر خارجہ سے صرف ٹیلی فونک گفتگو پر ہی اکتفا کیا۔
امریکی نائب صدر نے عراق کے خودمختار کرد علاقے کے دارالحکومت اربیل کا بھی دورہ کیا جس پر عراقی حکومت نے شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔ عراقی حکومت کا موقف ہے کہ امریکی حکام کو ایسے دورے انہیں اعتماد میں لے کر کرنے چاہئیں۔ شام، عراق، لیبیا اور خلیج فارس میں امریکہ کا تخریبی کردار اس قدر خطے کی اقوام کے مفادات کو ٹھیس پہنچا رہا ہے کہ امریکہ عوام کی نظر میں شدید منفور ہو چکا ہے۔ حتی امریکہ کے قریبی اتحادی ممالک بھی امریکی حکام کے آمرانہ رویوں اور اقدامات سے شدید تنگ آ چکے ہیں۔ اگر ہم دنیا کے مختلف حصوں میں امریکی حکومت کی جانب سے دہشت گردانہ نیٹ ورکس کی حمایت اور سرپرستی پر نظر ڈالیں تو بخوبی واضح ہو جائے گا کہ امریکی حکومت درحقیقت حکومتی سطح پر دہشت گردی کو فروغ دینے میں مصروف ہے۔ امریکی حکام کی جانب سے عدم استحکام کا باعث بننے والے اقدامات صرف امریکہ کے مخالف ممالک تک محدود نہیں بلکہ ترکی اور عراق جیسے اس کے اتحادی ممالک بھی اس پر نالاں دکھائی دیتے ہیں۔ امریکی حکام دیگر ممالک کی خودمختاری، حق خود ارادیت اور ملکی سالمیت کو یکسر طور پر نظرانداز کر دیتے ہیں جو کسی صورت میں بھی قابل قبول واقع نہیں ہو سکتی۔
نوٹ: حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔