اتوار 7 دسمبر 2025 - 16:20
ٹرمپ حکومت کی تازہ دستاویز کے مطابق امریکہ زوال کی راہ پر گامزن ہے

حوزہ/ امریکہ کی قومی سلامتی سے متعلق تازہ دستاویز اس حقیقت کو کھل کر ظاہر کرتی ہے کہ وائٹ ہاؤس کے حکام کے دعوؤں کے برعکس، امریکہ اب دنیا میں معاشی اور فوجی برتری کھو چکا ہے اور زوال کے راستے پر گامزن ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امریکہ کی قومی سلامتی سے متعلق تازہ دستاویز اس حقیقت کو کھل کر ظاہر کرتی ہے کہ وائٹ ہاؤس کے حکام کے دعوؤں کے برعکس، امریکہ اب دنیا میں معاشی اور فوجی برتری کھو چکا ہے اور زوال کے راستے پر گامزن ہے۔

عالمی امور کے ماہرین کے مطابق، امریکہ کی قومی سلامتی کی یہ دستاویز جو ہر چار سال بعد جاری کی جاتی ہے اور جسے امریکی خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کی بنیادی دستاویز سمجھا جاتا ہے، درحقیقت عالمی نظام پر امریکہ کی کم ہوتی ہوئی حیثیت کا واضح ثبوت ہے۔

امریکہ کے لیے تلخ حقائق

معروف صحافی مسعود براتی کے مطابق، اس دستاویز کے آغاز میں ہی ٹرمپ حکومت نے ماضی کی امریکی عالمی پالیسیوں کو غلط قرار دیتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ امریکہ کی صلاحیت کو حد سے زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا تھا۔ دستاویز میں تسلیم کیا گیا ہے کہ ایک ہی وقت میں ایک وسیع رفاہی و انتظامی نظام اور عظیم فوجی، سفارتی اور انٹیلی جنس ڈھانچے کو سنبھالنا امریکہ کی طاقت سے بڑھ کر تھا۔

دستاویز میں آزاد تجارت کی پالیسی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے اور اسے امریکہ میں متوسط طبقے کی تباہی اور معاشی و فوجی برتری کے خاتمے کی بڑی وجہ قرار دیا گیا ہے۔ یہ اعتراف بذاتِ خود اس بات کی دلیل ہے کہ امریکہ اب عالمی سطح پر اپنی معاشی اور فوجی برتری برقرار رکھنے کی صلاحیت کھو چکا ہے۔

امریکی بالادستی کے دور کا خاتمہ

براتی کے مطابق، جن پالیسیوں کو یہ دستاویز غلط قرار دے رہی ہے وہ دوسری جنگ عظیم کے بعد اور خصوصاً سوویت یونین کے انہدام کے بعد امریکی تسلط کی بنیاد سمجھی جاتی تھیں۔ اب ٹرمپ حکومت کی دستاویز واضح طور پر امریکہ کو اندرونی مسائل کی طرف مرکوز کرنے کی بات کرتی ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ٹرمپ حکومت خود امریکہ کو اس قدر طاقتور نہیں سمجھتی کہ وہ پرانی عالمی حکمت عملی جاری رکھ سکے۔

مغربی ایشیا (مشرق وسطیٰ) سے متعلق پالیسی میں بھی اس بات پر خوشی کا اظہار کیا گیا ہے کہ اب یہ خطہ امریکی خارجہ پالیسی کا محور نہیں رہا، اور خطے میں جاری طویل جنگوں اور ’’قوم سازی‘‘ (Nation Building) کے منصوبوں کے خاتمے کا اعتراف کیا گیا ہے۔

صنعتی کمزوری کا اعتراف

دستاویز میں ’’صنعتی طاقت کی بحالی‘‘ کو قومی اقتصادی پالیسی کی اولین ترجیح قرار دیا گیا ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ خود ٹرمپ حکومت موجودہ صنعتی قوت کو پرامن اور جنگی حالات کے لیے ناکافی سمجھتی ہے۔

طاقت کا توازن اور نیا عالمی منظرنامہ

مسعود براتی کے مطابق، اس دستاویز کا ایک اہم پہلو دیگر عالمی طاقتوں کے ابھرنے کے ساتھ برتاؤ ہے۔ ماضی میں امریکہ کی پالیسی یہ تھی کہ وہ دوسری طاقتوں کو ہر ممکن حد تک دبانے کی کوشش کرے، لیکن اب دستاویز میں ’’توازنِ قوت‘‘ (Balance of Power) پر زور دیا گیا ہے۔

دستاویز میں یہ بھی تسلیم کیا گیا ہے کہ امریکہ تنہا کسی ملک کو مکمل تسلط حاصل کرنے سے نہیں روک سکتا، بلکہ اس کے لیے اتحادی ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنا ضروری ہے۔ یہ سوچ اس بات کی دلیل ہے کہ امریکہ نے عالمی طاقت کے توازن میں تبدیلی کو عملاً قبول کر لیا ہے۔

امریکہ کا زوال ایک طویل عرصے سے جاری ہے

بین الاقوامی امور کے ماہر ڈاکٹر فؤاد ایزدی کے مطابق، امریکہ کا زوال کوئی نئی بات نہیں بلکہ یہ ایک طویل عرصے سے جاری عمل ہے۔ اہم عالمی فورمز جیسے کہ مونیخ سیکیورٹی کانفرنس کی سالانہ رپورٹس میں بھی امریکہ کے اس زوال کی طرف براہ راست یا بالواسطہ اشارے ملتے رہے ہیں۔

انہوں نے رہبر معظم انقلاب کے بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ کا زوال ایک واقعی اور ناقابل انکار حقیقت ہے، اور انقلاب اسلامی ایران ابتدا ہی سے مشرق و مغرب کی بالادستی کا مخالف رہا ہے۔

دشمن کی فکری جنگ سے ہوشیار رہنے کی ضرورت

ڈاکٹر ایزدی کے مطابق، امریکی حکام ’’فکری جنگ‘‘ (Cognitive Warfare) کے ذریعے یہ تاثر پھیلانا چاہتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ناکام ہو چکی ہے اور نوجوان نسل کو مایوسی کی طرف دھکیلا جائے۔ ان کے بقول، ضروری ہے کہ عوام دشمن کے منظم پروپیگنڈے سے ہوشیار رہیں اور حقیقت پسندانہ تجزیہ اختیار کریں۔

اندرونی اختلافات کی واضح نشانیاں

سیاسی امور کے ماہر ڈاکٹر محمد صادق خرسند کے مطابق، امریکہ میں اب صرف زوال نہیں بلکہ ’’اندرونی انہدام‘‘ کی واضح علامات دکھائی دے رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ خود امریکی ماہرین نے بارہا سماجی بحران کی جانب اشارہ کیا ہے۔

انہوں نے اٹلانٹک کونسل کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سماجی حالات کے لحاظ سے امریکہ اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے۔

خرسند کے مطابق، آج کے عالمی نظام میں مختلف طاقتیں ابھر چکی ہیں۔ اقتصادی، ثقافتی اور سیاسی سطح پر امریکہ کو اندرونی تضادات کا سامنا ہے اور آئندہ برسوں میں سیاسی، سماجی اور ثقافتی اختلاف مزید گہری ہونے کا امکان ہے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha