حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امریکہ کے سابق وزیر خارجہ جان کیری نے ایک امریکی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کے جوہری مسئلے کا کوئی فوجی حل ممکن نہیں اور اگر ایران پر حملہ کیا گیا تو اس کے عالمی سطح پر سنگین نتائج سامنے آئیں گے۔
جان کیری نے امریکی نشریاتی ادارے "پی بی ایس" کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا: "یہ مسئلہ مزید بگڑ سکتا ہے، اس میں شدت آ سکتی ہے اور اس کے اثرات دنیا بھر میں محسوس کیے جائیں گے۔ کوئی بھی فوجی کارروائی اس مسئلے کا مستقل حل نہیں ہو سکتی۔"
انہوں نے امید ظاہر کی کہ حالیہ امریکی اور اسرائیلی اقدامات صرف سیاسی مقاصد کے لیے ہیں اور ایران کے جوہری مقامات پر حملے محض اندرونی دباؤ کو کم کرنے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔ ان کے بقول، امریکہ کو دوبارہ مذاکرات کی طرف لوٹنا چاہیے، کیونکہ جب صدر ٹرمپ نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے (برجام) سے علیحدگی اختیار کی، تو امریکہ نے ایران کی سرگرمیوں پر اپنی نگرانی کھو دی۔
جان کیری نے کہا: "جوہری معاہدے کے تحت ہمیں ایران کی سرگرمیوں کی مکمل خبر تھی۔ ہم نے ان کا پلوٹونیم ری ایکٹر بند کروا دیا تھا اور کئی حساس شعبوں میں ان کی پیشرفت رک گئی تھی۔"
انہوں نے مزید کہا کہ ایران ایک خوددار قوم ہے اور مذاکرات کے دوران ان کا قومی وقار نمایاں نظر آتا ہے، لیکن ساتھ ہی وہ اسرائیل کے بارے میں سخت رویہ رکھتے ہیں، جسے وہ اپنی پالیسی کا حصہ سمجھتے ہیں۔
جان کیری نے یہ بھی واضح کیا: "ایران کے جو سائنسدان اور ماہرین کئی برسوں سے اس منصوبے پر کام کر رہے ہیں، اگر رہبر انقلاب چاہیں تو وہ دوبارہ سرگرم ہو سکتے ہیں۔ آپ کسی قوم کے حافظے یا سیکھے گئے علم پر بم نہیں گرا سکتے۔"
انہوں نے خبردار کیا کہ فوجی کارروائی سے ایران مزید مضبوط ہوگا اور اس کا نقصان نہ صرف ایران بلکہ خود امریکہ اور خطے کے دیگر ممالک کو بھی ہوگا۔
یاد رہے کہ یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب حال ہی میں اسرائیل نے امریکہ کی خفیہ حمایت کے ساتھ ایران کی سرزمین پر حملہ کیا، حالانکہ ایران کئی بار اعلان کر چکا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پُرامن مقاصد کے لیے ہے اور وہ ایٹمی ہتھیار بنانے کا خواہاں نہیں۔









آپ کا تبصرہ