تحریر: علی احمدی
حوزہ نیوز ایجنسی। اگرچہ صہیونی حکام اور غاصب صہیونی رژیم کے اہم سیاسی، فوجی اور سکیورٹی رہنما اور شخصیات ایران کے صدارتی الیکشن میں آیت اللہ ابراہیم رئیسی کی کامیابی کی پیش گوئیاں کر رہے تھے لیکن الیکشن کے حتمی نتائج کے اعلان کے بعد آیت اللہ ابراہیم رئیسی کا بطور منتخب ایرانی صدر متعارف کئے جانے نے صہیونی رژیم کے سیاسی، سکیورٹی اور فوجی حلقوں میں عجیب ہلچل مچا دی ہے۔ اس وقت یہ تمام صہیونی حلقے سر جوڑ کر بیٹھ گئے ہیں اور ایران میں اس عظیم تبدیلی کے ممکنہ نتائج کی جانچ پڑتال کرنے میں مصروف ہیں۔ سوال یہ ہے صہیونی حکام آیت اللہ ابراہیم رئیسی کی کامیابی پر اس قدر سراسیمہ کیوں ہیں اور صہیونی حلقوں کو ایران میں حالیہ صدارتی الیکشن کے نتائج سے ایسا شدید دھچکہ کیوں پہنچا ہے؟
ایران میں آیت اللہ ابراہیم رئیسی کی کامیابی سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اور صہیونی رژیم کی سربراہی میں ایران میں اسلامی نظام سرنگون کرنے کی غرض سے شروع کیا گیا پراجیکٹ حتمی شکست کا شکار ہو چکا ہے۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے خلاف "زیادہ سے زیادہ دباو" پر مبنی ڈاکٹرائن اپنانے کا اعلان کیا تھا۔ اسی طرح سابق صہیونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اس امریکی ڈاکٹرائن کے اجرا میں مرکزی کردار ادا کر رہے تھے۔ دوسری طرف امریکہ کے موجودہ صدر جو بائیڈن سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے برعکس ایران کے ساتھ جوہری معاہدے میں واپس آنے کا ارادہ ظاہر کر چکے ہیں اور ایران کے خلاف پابندیاں ختم کرنے کا اشارہ بھی دے چکے ہیں۔ اس کا مطلب سابقہ پالیسیوں کی مکمل ناکامی ہے۔
اسی طرح امریکہ نے مشرق وسطی سے فوجی انخلاء کا بھی اعلان کر رکھا ہے اور چند عرب ممالک میں موجود پیٹریاٹ اور دیگر فضائی دفاع کے میزائل ڈیفنس سسٹم بھی خطے سے واپس لے جانے کا اعلان کیا ہے۔ ان تمام اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ جو بائیڈن، ڈونلڈ ٹرمپ کے برعکس مشرق وسطی خطے سے متعلق امریکی پالیسی میں تبدیلیاں لا کر خطے میں تناو کی شدت میں کمی لانے کے درپے ہیں۔ ایسے حالات میں غاصب صہیونی رژیم کے سیاسی اور سکیورٹی حلقے پریشانی کا اظہار کر رہے ہیں اور خبردار کر رہے ہیں کہ مشرق وسطی سے متعلق موجودہ امریکی حکومت کی حکمت عملی ایران کے حق میں ہے اور اس کا سب سے زیادہ فائدہ ایران کو ہو گا۔ یوں یہ حکمت عملی درحقیقت ڈونلڈ ٹرمپ اور بنجمن نیتن یاہو کی آرزوئیں نابود کر دینے کے مترادف ہو گی۔
غاصب صہیونی رژیم کے سکیورٹی اور سیاسی حلقے اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ ایران میں آیت اللہ ابراہیم رئیسی کی کامیابی اس ملک کی جانب سے ویانا میں جاری جوہری مذاکرات میں فیصلہ کن اور دو ٹوک موقف اختیار کرنے کا آغاز ثابت ہو گی۔ اسی طرح جاری مذاکرات میں ایران کا موقف پہلے سے کہیں زیادہ دو ٹوک ہو گا۔ امریکہ کے برعکس، ایران اپنی جوہری سرگرمیوں سے متعلق معاہدے میں امریکہ کی واپسی میں کوئی خاص دلچسپی نہیں رکھتا لہذا تہران زیادہ مراعات حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ دوسری طرف ایران سے جوہری معاہدے میں واپسی امریکہ کی سیاسی ضرورت ہے جس کے باعث امریکہ اس معاہدے کی رو سے اپنے اوپر عائد تمام تر ذمہ داریاں اچھے طریقے سے ادا کرنے پر مجبور ہو گا۔
صہیونی حکام اور صہیونی رژیم کے سیاسی و سکیورٹی حلقے اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ آیت اللہ ابراہیم رئیسی انقلابی اصولوں کے پابند اور سپریم لیڈر آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے دست راست تصور کئے جاتے ہیں۔ لہذا ایران کے صدارتی الیکشن میں ان کی کامیابی درحقیقت خطے سے متعلق ایران کی انقلابی پالیسیوں کے تسلسل اور اسلامی مزاحمتی بلاک کے مزید طاقتور ہونے کے مترادف ہے۔ اگرچہ آیت اللہ ابراہیم رئیسی نے ملک کو درپیش اقتصادی مسائل کے حل پر زیادہ زور دیا ہے نیز ملکی و قومی مفادات کی روشنی میں جوہری معاہدے کو آگے بڑھانے پر تاکید کی ہے، لیکن خطے میں اسلامی مزاحمتی بلاک کی حمایت نیز شام میں ایران کی موجودگی ایسے ایشوز ہیں جن کے بارے میں ایران کا آئندہ لائحہ عمل ماضی کی نسبت زیادہ مضبوط ہو گا۔
اس وقت غاصب صہیونی رژیم یہ محسوس کر رہی ہے کہ ایران بہت زیادہ خود اعتمادی کا حامل ہے اور اس میں امریکہ کو اپنی مرضی کے فیصلے انجام دینے پر مجبور کر دینے کی بھی بھرپور صلاحیت پائی جاتی ہے۔ دوسری طرف امریکہ عالمی سطح پر اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنے کا خواہش مند ہے جس کی خاطر ایران سے جوہری معاہدے میں واپسی اس کے قومی مفادات کیلئے ایک اسٹریٹجک ضرورت کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ ایسے حالات میں صہیونی حکام خود کو ناتوان محسوس کر رہے ہیں اور دیکھ رہے ہیں کہ وہ امریکہ کو ایران کے ساتھ جوہری معاہدے میں واپسی سے روکنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ یہی احساس صہیونی حکام اور صہیونی رژیم کے سیاسی و سکیورٹی حلقوں میں شدید پریشانی اور خوف و ہراس پیدا ہونے کا باعث بن چکا ہے۔
نوٹ: اس مضمون میں دی گئی رائے مصنف کی ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔