۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
محمد ابراہیم صابری

حوزہ/ آج ایرانی صدر مملکت کو  فخر سے یہ کہنے کا حق پہنچتا ہے کہ ہماری امیدیں نہ امریکہ سے وابستہ ہیں اور  نہ ویانا مذاکرات سے، بلکہ ہماری اُمیدوں کا مرکز تو  خداوند کریم کی ذات ہے جس نے ہمیں استقامت اور نعمتوں کے ساتھ دشمنوں کے ساتھ مقابلہ کرنے کا عزم و حوصلہ دیا ہے۔

تحریر: محمد ابراہیم صابری

حوزہ نیوز ایجنسی دنیا میں انقلابی تحریکوں کا وجود کوئی نیا نہیں۔انقلابی تحریکیں جنم لیتی اور دم توڑتی رہتی ہیں۔ ان میں سے بعض انقلاب برپا کرنے میں کامیاب بھی ہو جاتی ہیں۔ ایران کا اسلامی انقلاب بھی ان کامیاب ہونے والی تحریکوں میں سے ایک ہے۔ پہلے دن سے ہی دشمن اسے کچلنے میں مصرف ہے۔ دشمن کی کوششوں میں سے سرفہرست صدام کی ایران پر مسلط کردہ جنگ ہے۔صدام نے بغداد میں ڈنر اور صبح کا ناشتہ تہران میں کرنے کا بھی اعلان کیا تھا۔ تاہم مجاہدین فی سبیل اللہ نے اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے اُص کے سارے خواب چکنا چور کر دئیے۔ اس وقت ایران کا اسلامی انقلاب نومولود تھا، مجاہدین دستِ خالی تھے اور مدّمقابل جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس تھا۔ پھر ہوا وہی کہ جو ایسے معرکوں میں ہوا کرتا ہے۔ مجاہدین کے جذبےنے دشمن کے اسلحے کو شکست دے دی۔

اس کے ساتھ ہی ایران کے خلاف اقتصادی جنگ بھی شروع تھی۔ وہی اقتصادی جنگ آج اقتصادی دہشت گردی میں بدل چکی ہے اور اس جنگ میں متعدد ایرانی اہم سائنسدانوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔ دنیائے باطل کے تمام تر ظالمانہ اقدامات کے باوجود ایران نے اسلامی انقلاب کے بعد مختلف شعبوں میں اتنی ترقی کی ہے کہ اب دنیا بھر کے ادارے ایران کی پیش رفت کے معترف ہیں۔ ویانا مذاکرات میں مہذب دنیا نے امریکہ کو مذاکرات سے باہر کر کے امریکہ پر ایران کی اصولی بالادستی اور موقف کی حقیقت کو تسلیم کیا ہے۔

ایران نے انقلاب اسلامی کی 43 سالگرہ سے دو دن پہلے "خیبرشکن نامی" لانگ رینج بیلسٹک میزائل " کی رونمائی بھی کی،یہ میزائل 1450 کلومیٹر تک مارنے کی اور یہ کسی بھی میزائل شکن نظام کو ناکام بنانے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے اور انہی ایام میں ایرانی اہم شخصیات کی جانب سے اقتصادی میدانوں میں اہم کامیابیوں کی بھی خبر یں سننے میں آئیں ۔

بلاشبہ آج ایرانی صدر مملکت کو فخر سے یہ کہنے کا حق پہنچتا ہے کہ ہماری امیدیں نہ امریکہ سے وابستہ ہیں اور نہ ویانا مذاکرات سے، بلکہ ہماری اُمیدوں کا مرکز تو خداوند کریم کی ذات ہے جس نے ہمیں استقامت اور نعمتوں کے ساتھ دشمنوں کے ساتھ مقابلہ کرنے کا عزم و حوصلہ دیا ہے۔

یاد رہے کہ استعماری طاقتوں اور امریکہ نے اشیائے خوردونوش سے لے کر دوائیوں تک ہر چیز پر پابندی لگا رکھی ہے۔ مقصد فقط لوگوں کو اسلامی انقلاب سے ناامید کرنا ہے۔ البتہ اُن کو ان ساری کوششوں کا نتیجہ ان کی توقعات کے برعکس مل رہا ہے۔ یہی کوئی دو دن پہلے کی بات ہے۔جب کرونا سے ساری دنیا سہمی ہوئی ہے۔ ایرانیوں نے اسلامی انقلاب سے مایوس ہونے کے بجائے بھرپور طریقے سے جشن منا کر اسلامی انقلاب کے ساتھ یکجہتی ، امید اور ایک روشن مستقبل کی امنگ کا اظہار کیا ہے۔ لوگوں نے نہ صرف یہ کہ اپنی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پر سوار ہو کر تینتالیس سالہ انقلاب اسلامی کے ساتھ تجدید عہد کیا ہے بلکہ علمی ، فکری، سیاسی اور تجزیاتی تقریبات کا انعقاد بھی کیا گیا ہے۔ اخبارات نے خصوصی اور رنگین صفحات شائع کئے، ٹی وی چینلز نے اسپیشل نشریات کا اہتمام کیا اور عوامی تنظیموں اور پارٹیوں نیز فورمز نے انقلابی شعور و آگاہی کا مختلف انداز میں جشن منایا۔

اس موقع پر لوگوں نے کرونا ایس او پیز اور موسمی سردی سے بچاو کیلئے حفاظتی تدابیر پر عمل کر کے جہاں اپنے قومی شعور کا ثبوت دیا وہیں اسلامی انقلاب سے یکجہتی کیلئے عظیم اجتماعات منعقد کر کے امریکہ و ساری استعماری طاقتوں کو بھی ہمیشہ کیلئے ناامید کر دیا ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .