حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، خالد بطیش نے جمعرات کی رات کو افغانستان کے لشکر فاطمیون کی طرف سے پہلی بین الاقوامی کانفرنس جو کہ حرم مطہر امام رضا علیہ السلام مشہد میں حفظان صحت کے اصولوں کی پابندی اور پروٹوکول کے مطابق منعقد ہوئی، اس کانفرنس سے غزہ سے براہ راست خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مقاومتی نوجوان مجاہدین ہر میدان میں خستہ ناپذیر ہیں،غاصب صیہونی دشمن اور امریکہ کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں یہ نوجوان عہد نبوی کی سرزمین کو واپس لینے کے درپے ہیں اور افغانستان کے نوجوان بھی اس میدان میں موجود ہیں۔
انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ مزاحمت و مقاومت کے جوان مجاہدین حاج قاسم سلیمانی اور عماد مغنیہ کے آثار ہیں کہا کہ امریکہ اور اسرائیل دنیائے اسلام کے سرمایہ کو لوٹ رہے ہیں افسوس کی بات ہے کہ کچھ اسلامی ممالک نے امریکہ اور اسرائیل کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں اور ان کے ساتھ امن و سلامتی اور سیاسی معاہدوں پر دستخط کردیئے ہیں تاکہ امت مسلمہ مزاحمت و مقاومت کا مظاہرہ نہ کر سکے ،اس معاملے میں مزاحمت و مقاومت کا مظاہرہ پہلے سے زیادہ ہونا چاہیے ۔
فلسطینی اسلامی جہاد کے رکن نے ایران پر مسلط کردہ استکبار جہاں کی پابندیاں اور ایرانی ان اقدامات کو شکست دینے کے تجربے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ صدی کی ڈھیل کا مذموم منصوبہ جو کہ امریکہ کی شیطانی سیاست کا نتیجہ تھا یہ ایسے منصوبوں میں سے ایک تھا تاکہ عالم اسلام اسرائیل کا ساتھ دے اور فلسطینی عوام کی مدد سے روک دے ۔
آخر میں انہوں نے مزاحمتی شہداء خصوصا حاج قاسم سلیمانی اور ابو مہدی المہندس کو سلام پیش کیا اور اس بات پر زور دیا کہ ہم غاصب صیہونی حکومت کے ساتھ کسی سمجھوتے پر عمل درآمد نہیں کریں گے اور ہم اسلامی ممالک سے فتح اور اسلامی وحدت کے لئے جدوجہد کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں تاکہ دشمن کو ختم اور شکست دے سکیں ۔
بطیش نے اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہ مسئلہ فلسطین امت مسلمہ کا پہلا مسئلہ ہونا چاہیے نیز لبنان کے معاملے کا بھی بھی تذکرہ کیا اور کہا کہ ہمارا اصل دشمن غاصب صہیونی ہے اور خطے میں تنازعات کی وجہ بھی غاصب صیہونی ہی ہے۔