۱۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 30, 2024
قم المقدسہ میں طوفان الاقصی کے عنوان سے ایک عظیم الشان کانفرنس کا انعقاد

حوزہ/ حماس کے تہران میں مقیم نمایندے نے کہا کہ آج غزہ کے مظلوم عوام انتہائی المناک حالت میں زندگی کر رہے ہیں ان کو آج ہر چیز کی ضرورت ہے،  طبی خدمات سے لیکر پینے کے پانی تک کے لئے وہ محتاج ہیں، لیکن ان سب کے باوجود اسلامی اور عرب ممالک اپنی ذمہ داری پر عمل نہیں کر رہے ہیں ۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، قم المقدسہ/ طوفان الاقصی، یہ وہ عظیم اور تباہ کن طوفان تھا جس نے عالمی استکبار اور صہیونی ریاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا یا۔ اس طوفان نے یقیناً پوری دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے ۔

عالمی سطح پر موجود مظلوم ملت فلسطین کی حمایت میں ایک عظیم تحریک جو شروع ہوئی ہے، ایک انوکھی اور نوید بخش حرکت ہے جو اسے پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔

آج غزہ اور مغربی کنارے پر ہورہے انتہائی درد ناک مظالم کو دیکھ کر اگر چہ حکمرانوں نے اپنے تخت و تاج کی بچاؤ کے پیش نظر خاموشی اور بے حسی پر ترجیح دے رہے ہیں لیکن دنیا کے گوشہ و کنار میں آج قومیں اور ملتیں بیدار ہوچکی ہیں اور سب صہیونی ریاست کے ظلم و ستم کی مذمّت اور ملت فلسطین کی حمایت میں کھڑی ہیں۔

اسی عالمی تحریک کا حصہ بنتے ہوئے آج (قم المقدسہ میں طلاب کرگل کی انجمن صاحب الزمان عج نے بعض دوسری عالمی تنظیموں کی مشارکت سے ایک عظیم الشان کانفرنس کا انعقاد کیا ۔ اجلاس کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا اور اس کے بعد مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے مقررین حضرات نے مسئلہ فلسطین کے حوالے سے اپنے بیانات پیش کیے۔

اس بین الاقوامی کانفرنس میں فلسطین کی اسلامی مزاحمتی جماعت حماس کے تہران میں مقیم نمایندے خالد قدومی بطور مہمان خصوصی موجود تھے ۔ جناب قدومی نے اپنے بیان کے آغاز میں اس عظیم الشان کانفرنس کے انعقاد کرنے والی تنظیموں کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے مسئلہ فلسطین اور عزہ پٹی کی موجود صورت حال کے حوالے سے بعض حقائق سامعین کی خدمت میں پیش کئے۔

موصوف نے فرمایا: آج فلسطین کی ناگفتہ بہ حالات اور صہیونی ریاست کی بنیاد اور اسکی درندہ گی کی اصلی دو علتیں ہیں: 1. مغربی ممالک اور امریکہ کی طرف سے اسرائیل کی بے تحاشا حمایت۔ 2. مسلم ممالک اور عرب حکام کی انتہائی کمزوری اور بے حسی۔

انہوں نے گزشتہ او آی سی کانفرنس پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس کانفرنس کا نتیجہ صرف ایک اسٹیٹمنٹ کا اعلان کرنا تھا! جو رفح بوڈر کو مکمل طور پر کھولوانے جسے ایک معمولی کام انجام دینے سے قاصر رہا! انہوں سے مصر کی جانب سے رفح بوڈر کو صحیح طور پر نہ کھولنے کے سلسلے میں تنقید کرتے ہوئے کہا: رفح سے تقریبا 350 کیلومیٹر دور تک غزہ کی امدادی گاڑیوں کی قطاریں لگی ہوئی ہیں اور سب رفح گذرگاہ کھولنے کے منتظر ہیں لیکن مصر اجازت نہیں دے رہا ہے۔ آج غزہ کے مظلوم عوام انتہائی المناک حالت میں زندگی کر رہے ہیں ان کو آج ہر چیز کی ضرورت ہے، طبی خدمات سے لیکر پینے کے پانی تک کے لئے وہ محتاج ہیں، لیکن ان سب کے باوجود اسلامی اور عرب ممالک اپنی ذمہ داری پر عمل نہیں کر رہے ہیں ۔

انہوں مزید فرمایا: ہم ان شاءاللہ تعالیٰ خدا پر توکل رکھ کر غاصب صہیونی حکومت سے جنگ لڑتے رہیں گے اور ہمیں یقین ہے کہ فتح ہماری ہی ہوگی اور یہ وعدہ اللہی ہے۔ آج سب دیکھ رہے ہیں کہ فلسطین کے مجاہد کس طرح اسرائیل کے مارکاوا ٹینکوں کا مقابلہ کر رہے ہیں اور کس طرح اسرائیل کے جدید اسلحوں سے لیز فوج کو پسپا کر رہے ہیں۔ اسرائیل ان 40 دنوں میں ، بچوں، عورتوں، بے گناہوں کا قتل عام اور انفراسٹرکچر کو تباہ کرنے کے سوا اپنے کوئی ایک ہدف کو بھی حاصل نہ کر سکا ہے۔

اس کانفرنس کے دوران مختلف تنظیموں کے نمائندوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مسئلہ فلسطین، آج نہ صرف مسئلہ اسلام ہے، بلکہ یہ اب مسئلہ انسانی بن چکا ہے، آج پوری دنیا میں لوگ بغیر ملت و مذہب فلسطین کے حق میں احتجاج کررہے ہیں۔فلسطین کی حمایت آج ہر مسلمان پر فرض ہے، جیسے بھی ہو ملت فلسطین کی مدد کرنی چاہیے ۔فلسطین گرچہ کمیت اور کیفیت کے اعتبار سے، اسرائیل کے مقابلے میں کم ہے لیکن اس اقلیت کے ساتھ خدا وند عالم ہے۔ وعدہ خدا ہے : کم من فئة قلیلة غلبت فئة کثیرة بإذن الله...

یاد رہے کہ یہ کانفرنس ادراہ مرکز تبلیغات میں منعقد ہوا اور اس کے ایک حصے میں محور مقاوت کے متعلق نمایشگاہ کا بھی انتظام کیا گیا تھا ۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .