حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رہبرِ انقلاب اسلامی نے فوج کے عقیدتی و سیاسی اداروں کے ذمہ داران سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: "فرض کریں کہ آپ کسی محلے کی مسجد کے امام جماعت ہیں، اگر آپ کا رویہ حاکمانہ اور جھڑکنے والا ہو تو لوگ آپ کی نماز میں نہیں آئیں گے۔ ہمیشہ وہی مساجد زیادہ آباد ہوتی ہیں جن کے امامِ جماعت عوامی، خوش اخلاق اور صمیمی ہوتے ہیں۔"
انہوں نے کہا: "امام جماعت کو چاہئے کہ وہ عوام کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آئے، ان کے سوالوں کے جواب دے، اگر مالی مدد نہ کر سکے تو کم از کم اخلاق سے ان کے دکھ کو کم کرے۔"
رہبر انقلاب نے اپنے اس زمانے کا اشارہ کیا جب وہ امام جماعت ہوا کرتے تھے، انہوں نے ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: "میں جب نماز ختم کرتا تو لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر بیٹھ جاتا۔ ایک دن ایک نوجوان، جس کا لباس اور انداز اس وقت کے فیشن کے مطابق تھا، صفِ اول میں آ بیٹھا۔ اس نے آ کر کہا: 'آقا! کیا میرے لیے صفِ اول میں بیٹھنا درست ہے؟' میں نے کہا: 'بالکل، کیوں نہیں؟'
کچھ لوگوں نے اسے برا کہا تو میں نے کہا: 'یہ حضرات بلاوجہ کہتے ہیں!'
وہ نوجوان پھر کبھی اس مسجد سے جدا نہ ہوا۔"
آیت اللہ خامنہای نے فرمایا کہ میری مسجد میں نمازیوں کی اکثریت نوجوانوں کی تھی، حالانکہ میرے پاس نہ کوئی خاص دنیوی مقام تھا اور نہ کوئی غیر معمولی روحانی سرمایہ، لیکن میں عوام کے درمیان تھا۔
انہوں نے مزید فرمایا: "یہی اصول فوج، پولیس اور ہر ادارے میں بھی لاگو ہوتا ہے۔ اگر ہم عوام کے درمیان ہوں، تو انہیں ریاکاری یا دکھاوے کی ضرورت نہیں پڑتی۔"
تاریخِ بیان: ۲۳ دی ۱۳۸۳ هـ ش (۱۳ جنوری ۲۰۰۵)









آپ کا تبصرہ