اتوار 28 ستمبر 2025 - 15:51
سید حسن نصراللّٰه؛ اسلام اور انسانیت کے شہید ہیں/دشمن کے مقابلے میں اسلحہ نہ صرف درست ہے، بلکہ ناگزیر ہے

حوزہ/انصار الله یمن کے سربراہ سید عبد الملک بدر الدین نے حزب الله لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر الله کی پہلی برسی کی مناسبت سے خطاب میں انہیں اور دیگر شہداء کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ سید حسن نصراللّٰه؛ اسلام اور انسانیت کے شہید ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، انصار الله یمن کے سربراہ سید عبد الملک بدر الدین نے حزب الله لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر الله کی پہلی برسی کی مناسبت سے خطاب میں کہا کہ سید حسن نصراللّٰه اور سید ہاشم صفی الدین اور حزب الله کے دیگر شہداء کی پہلی برسی پر امت مسلمہ، ہمارے حزب الله کے بھائیوں، لبنان کی مزاحمت اور لبنانی عوام کی خدمت میں تعزیت پیش کرتے ہیں۔

انہوں نے شہید سید حسن نصراللّٰه اور دیگر مزاحمتی شہداء کو زبردست الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا اور کہا کہ شہید سید حسن نصراللّٰه دنیا کے آزادی پسند انسانوں کے ضمیر میں اور ان کی ثابت راہ سے جہاد اور مزاحمت میں زندہ ہیں۔

سربراہ انصار الله یمن نے لبنان پر مسلط کردہ جنگوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ 2006 کی جنگ لبنان کے خلاف ایک بڑے منصوبے کا حصہ تھی جو امریکہ کی حمایت اور رہنمائی میں انجام دی گئی۔ ابتداء میں امریکہ کے بڑے اہداف اسرائیلی جارحیت کے ذریعے لبنان پر مسلط کیے گئے اور ’’نیا مشرق وسطیٰ‘‘ کا تصور پیش کیا گیا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ سفارتی کارروائیاں بے معنی ہیں اور وہ اس منصوبے کو آگے بڑھائیں گے۔ لبنان اور امت اسلامی کی عظیم فتح کے بعد یہ منصوبہ ناکام ہوگیا اور مجاہدینِ لبنان نے اسے پاؤں تلے روند ڈالا۔ اگر مجاہدین کو زیادہ حمایت ملتی تو نتیجہ پوری امت کے حق میں ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ شہید سید حسن نصرالله ہمیشہ صہیونیوں کے لیے ڈراؤنا خواب رہے ہیں اور انہوں نے چار دہائیوں تک انہیں لگاتار شکستوں سے دوچار کیا۔ انہوں نے فرمایا تھا کہ اسرائیلی ریاست مکڑی کے جالے کی مانند کمزور ہے اور ان کی موجودگی نے دشمن کے دل میں رعب و خوف پیدا کیا۔

سید عبد الملک بدر الدین نے کہا کہ شہید سید حسن نصرالله نے طویل عرصے کی شکستوں اور غداریوں کے بعد، جب امت ناامیدی کا شکار تھی، امید واپس لوٹائی۔ جب امت کمزوری اور شکست کے دہانے پر تھی تو انہوں نے اپنی سیاسی قیادت اور انتھک جہاد کے ذریعے صہیونیوں کی ہیبت توڑنے اور تصورات درست کرنے میں پیش قدمی کی۔ ان کی آواز مزاحمت کی حقیقی کوششوں اور کامیابیوں کی بازگشت تھی جس کی مثال جدید دور میں نہیں ملتی۔

یمن کی مزاحمتی تحریک انصار الله کے سربراہ نے مزید کہا کہ سید نصرالله نے اپنی زندگی صہیونی دشمن کے مقابلے میں لبنان اور امت اسلامی کے دفاع کے لیے وقف کردی اور مزاحمت کو اس حد تک تیار کیا کہ آزادی اور دشمن کی شکست ممکن ہو گئی۔ ان کا ایک ناقابلِ فراموش پیغام یہ ہے کہ مزاحمت شکست ناپذیر ہے اور فتح یا شہادت دونوں ہی عزت مند ہیں۔ شہداء کے اہداف کا بوجھ ہمیں عزم اور ارادے کے ساتھ اٹھانا ہوگا؛ جو کچھ انہوں نے اور ان کے شہید ساتھیوں نے مزاحمتِ لبنان میں کیا وہ صبر، جہاد اور محنت سے ایک عظیم کامیابی میں ڈھلا، جس کی روشن مثال سال 2000 میں آزادی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اللہ تعالیٰ نے حزب اللہ اور مزاحمت کے لیے جو عظیم فتح مقدر کی، اس نے خطے کو اسرائیلی خطرات سے محفوظ رکھنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اسرائیلی دشمن حقیقتاً پوری امت اسلامی اور خطے کے ممالک کو نشانہ بنا رہا ہے اور امریکہ و اسرائیل کا مشترکہ منصوبہ امت پر حملہ کرنے کے لیے اب بھی جاری ہے۔

انہوں نے امت مسلمہ پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس عظیم کامیابی کو محفوظ رکھنا امتِ مجاہد اور حزب اللہ کے وفاداروں کی ذمہ داری ہے جو مضبوط قیادت اور مجاہدین کی استقامت کے ساتھ راستہ صداقت سے طے کر رہے ہیں۔ حزب اللہ اکیلی نہیں ہے، بلکہ وہ امتِ مجاہد اور محورِ مزاحمت کا حصہ ہے جو بصیرت اور ثابت قدمی کے ساتھ مختلف محاذوں پر انسانیت اور امت اسلامی کا دفاع کر رہی ہے۔

انصار الله یمن کے سربراہ نے جہاد اور مزاحمت پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی جارحیت اور درندگی واضح دلائل کے ساتھ ثابت کرتی ہے کہ جہاد اور مزاحمت کا راستہ ہی عقلمندانہ اور درست ہے۔ مزاحمت اور جہاد نے امت کے اندر تمام طاقت کے عناصر کو مستحکم کیا ہے؛ تعاون، یکجہتی اور درست فہم میں اضافہ کیا ہے اور یہ حقیقت واضح کی ہے کہ ہمیں اس خطرے کے مقابلے کے لیے طاقت درکار ہے جو سب پر منڈلا رہا ہے۔

انہوں نے مزاحمت کو غیر مسلح کرنے کی سازشوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ آج کچھ لوگ لبنان اور فلسطین میں مزاحمت کے ہتھیاروں، بلکہ ایرانی اسلحے کے بارے میں بھی بات کرتے ہیں؛ یہ امریکہ اور اسرائیل کی خواہش ہے۔ دشمن اپنے شیطانی اہداف اور مجرمانہ منصوبے خطے پر قبضہ جمانے کے لیے نافذ کرنا چاہتا ہے، لہٰذا امت اسلامی اور عرب اقوام کے لیے ضروری ہے کہ ہر قسم کے ہتھیار اور فوجی سازو سامان حاصل کریں، تاکہ اس خطرے کا مقابلہ کیا جا سکے۔ اسلحہ رکھنا جو دشمن کے مقابلے میں رکاوٹ بنے، نہ صرف درست ہے، بلکہ ناگزیر ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ حزب اللہ کے ہتھیاروں نے لبنان کو قبضے اور دشمن کے تسلط سے بچایا ہے اور غزہ کی پٹی میں قسام بریگیڈ کے مجاہدین کا اسلحہ بھی قابضین کے لیے رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ اس مسئلے کو امت کے لیے مسئلہ نہیں سمجھنا چاہیے اور کبھی بھی امریکہ و اسرائیل کی ڈکٹیشن قبول نہیں کرنی چاہیے۔

سید عبد الملک بدر الدین نے کہا کہ مزاحمت کو غیر مسلح کرنا امریکہ اور اسرائیل کی خواہش ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ حزب اللہ کو لبنان میں غیر مسلح کر دیا جائے، کیونکہ یہی ہتھیار لبنان پر قبضے کو روکنے کا واحد ذریعہ ہیں۔ لبنانی فوج اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتی۔ سب جانتے ہیں کہ اسرائیل نے لبنان پر حملہ کیا اور بیروت تک پہنچ گیا، لیکن مزاحمت، اسلحے اور ایمان سے بھرپور مجاہدین نے جہادی کوششوں سے دشمن کو نکال باہر کیا۔ ایمان اور عقیدے سے بھرپور مجاہدین نے ثابت قدمی اور جہاد کے میدان میں بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ یہ حقیقت واضح ہے کہ عربوں اور مسلمانوں کو اس مزاحمت پر سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔ اقوام متحدہ کی 80ویں جنرل اسمبلی میں مقررین نے فلسطینی عوام کی مظلومیت اور اسرائیلی ریاست کے جرائم کا اعتراف کیا۔ افسوس کہ اقوام متحدہ میں اس جارحیت کو روکنے اور نسل کشی کے خاتمے کے لیے کوئی عملی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔

انہوں نے اقوامِ متحدہ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں توقع نہیں کہ جنرل اسمبلی مطلوبہ نتیجہ دے گی۔ اگرچہ اسرائیلی جرائم اور فلسطینی عوام کی مظلومیت پر بیانات دیے گئے جو کسی حد تک مفید ہیں، لیکن یہ نہ خطرہ ختم کر سکے نہ نسل کشی روک سکے۔

سید عبد الملک بدر الدین نے عملی اقدامات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ مجرم نتن یاہو کا اقوام متحدہ میں موجود ہونا اور وہاں تقریر کرنا باعثِ شرم ہے، خاص طور پر اس لیے کہ اسرائیل کو اس ادارے کی رکنیت دی گئی ہے۔ عالمی برادری جانتی ہے کہ نیتن یاہو مجرم ہے اور بین الاقوامی عدالتوں میں زیرِ تعاقب ہے، کیونکہ اس نے تمام قوانین اور منشورات کو پامال کیا ہے۔

انہوں نے اقوام متحدہ میں غاصب اسرائیلی وزیر اعظم کی ہرزہ سرائی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ نیتن یاہو نے اقوام متحدہ میں اپنے جرائم پر فخر کیا اور کھلی حقیقتوں کو جھٹلایا۔ یہ حقیقتیں پوری دنیا پر عیاں ہیں اور روزانہ ہم غزہ کی پٹی میں نسل کشی، بچوں کا قتل، بھوک، پیاس اور وسیع پیمانے پر تباہی دیکھ رہے ہیں۔ ضروری ہے کہ اسرائیلی ریاست پر اقتصادی اور سیاسی پابندیاں لگائی جائیں اور تجارتی تعلقات کو کم سے کم سطح تک لے آیا جائے، تاکہ وہ عملی طور پر تنہائی کا شکار ہو۔ جو محاذ اسرائیلی ریاست کے سامنے کھڑے ہیں، بالخصوص غزہ کی پٹی، فلسطینی عوام اور گروہِ مزاحمت، ان کی حمایت لازمی ہے۔ ان محاذوں کو پوری امت کی طرف سے میڈیا، سیاست، مالی اور دیگر صورتوں میں مدد ملنی چاہیے۔ اسی طرح لبنان میں حزب اللہ کے محاذ کو بھی مکمل حمایت ملنی چاہیے اور ان سازشوں اور غداریوں کو روکا جائے جو امریکہ اور اسرائیل کی ہدایت پر اس کے خلاف کی جا رہی ہیں، کیونکہ ان اقدامات کا نتیجہ دشمن کا لبنان پر تسلط ہے۔

سید بدر الدین نے کہا کہ امت کے فرزندوں کو مختلف ممالک میں درست راستہ اختیار کرنا ہوگا اور صہیونی ریاست کے مقابلے کے محاذوں کی حمایت کرنی ہوگی۔ یمن کے محاذ کے بارے میں بھی کہا جانا چاہیے کہ صہیونی ریاست نے گزشتہ جمعرات لبنان کے خلاف وحشیانہ جارحیت کی جو اس کے جرائم کی فہرست میں اضافہ ہے اور جس نے یمنی عوام کے مؤقف کو مزید مضبوط کیا۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha