تحریر: مولانا سید مشاہد عالم رضوی
حوزہ نیوز ایجنسی| لوگوں کے کام آنے والے سب کا دکھ درد سمجھنے والے ہر ایک کو اس کا حق دلانے کی بات کرنے والے اور اپنوں اور غیروں کے ساتھ بھلائی کرنے والے ہی بڑے لوگ ہوتے ہیں جو اپنی انفرادیت کے سبب احباب کی بزم میں بھی یک و تنہا ہوتے ہیں؛ یہ ذہین دور اندیش بصیر اور تدبیر و حکمت کے حامل اہل حل وعقد ہوتے ہیں۔
عام انسانوں کو جانے دیجئے خاص خاص لوگ بھی انہیں انکی زندگی میں نہیں سمجھ پاتے اور ان کے عرفان و آگہی سے عاری رہ جاتے ہیں۔
اور کچھ تو الٹا ان کے کاموں کو حقیر وپست بتانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے بلکہ ان کے کاموں میں رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں اور پھر انہیں برداشت کرنے کی طاقت کھو بیٹھتے ہیں اور اس حد تک گر جاتے ہیں کہ ان کے خلاف سازشوں مکروحیلہ و نیرنگ کے جال بچھا دیتے ہیں اور جب ان کی عظمت و شخصیت کے سامنے کوئی بس نہیں چلتا توپھرانہیں جان سے مارنے کی دھمکی دیتے ہیں اور آخر کار خاتمہ زندگی کی کوششیں دن بدن تیزتر ہوتی جاتی ہیں؟؟ یہ بھول جاتے ہیں کہ
لہو کی دھار سے کٹتی نہیں چراغ کی لو
بدن کی موت سے کردار مر نہیں سکتا
ایسے عظیم لوگ دنیا میں کم ہی پیدا ہوتے ہیں جواپنےانجام سے بالاتر کام لگن محنت اور فلاح عامہ کی فکر سے ہمہ وقت بیچین رہتے ہیں۔ اور انسانیت کی خدمت کے لئے اپنی پوری زندگی وقف کر دیتے ہیں حالانکہ ان کے خلاف پروپیگنڈہ مشینریاں روز وشب سرگرم عمل رہتی ہیں ارباب اقتدار فاشسٹ طاقتیں ہر طرح کے حربے استعمال کرکے ان کی شخصیت کشی میں حد سے تجاوز کر جاتی ہیں جھوٹے الزامات تراشے جاتے ہیں اورانہیں بدنام کرنے کی کوششیں ہو تیں ہیں ۔
لیکن ایسے لوگ ہر چیز سے اوپر فسطائی طاقتوں سے بے خوف بے توجہی وبے اعتنائی سے اپنے کام میں چست وچابک کبھی آہستہ خرام تو کبھی تیزگام آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں اور پیچھے مڑکر بھی نہیں دیکھتے ۔۔۔
یہاں تک کہ قدرت ان کی مدد کرتی ہے مشیئت ساتھ دیتی ہے اور ان کانصب العین پورا ہوجاتا ہے ۔
توپھر ایک دن دوست ودشمن دنیا سے ان کے الوداع ہونے کی خبر سنکر حیرت سے اپنے گرد وپیش نظر اٹھا کر دیکھتے ہیں دشمن خوشی سے دیوانہ ہورہاہوتا ہے اور دوست و احباب ان کے فراق وجدائی کے غم میں دل پر ہاتھ رکھ کر اپنی آہیں اور سسکیاں کور دل دشمن کی نگاہوں سے چھپانے کی کوششیں کر تے ہیں کہ کہیں جانے والے عظیم انسانوں کے مشن میں سستی پیدا نہ ہوسکے اور مشن پھیکا نہ پڑے۔۔۔ ہاں ہاں
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
ایسے عظیم مرد صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں اور زمانے کے لئے راستہ بناکر چلے جاتے ہیں ۔
ع۔ اے بسا شاعر کہ بعد از مرگ زاد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جو مرنے کے بعد پہچانے جاتے ہیں ۔۔۔
اگرچہ ایسے عظیم لوگوں کے مرگ گل رنگ کی خوشیوں میں مست اندھا دل دشمن آچانک اپنی سرمستیوں سے باہر آتا ہے تو اس وقت اسے اپنی ہار کا غم اسے ستانے لگتا ہے اور وہ گولیاں چلا کر بھی گولے بارود کی قوت آزاماکر بھی سرشکتہ وافسردہ ہوتا ہے ۔۔۔
جبکہ یہ بڑے لوگ مرکر اورجام شہادت پی کر اور بڑے ہوجاتے ہیں دشمن اپنی ہار کو فتح میں بدلنے کے لئے پھر سے ایسے عظیم مرد کی تلاش میں نکلتا ہے اوردیوانہ وار اپنی ہلاکت ونابودی کی داستان دہراتا ہے حالانکہ اس کی ہار کبھی بھی فتح میں نہیں بدلتی اس کی عارضی جیت کبھی ابدیت کا لباس نہیں پہنتی اور اسے کبھی بھی حقیقی فتح و ظفر نصیب نہیں ہوتی۔۔۔ کیونکہ عظیم لوگوں کی شان ہی نرالی ہوتی ہے عظیم لوگ عظیم ہی ہوتے ہیں چنانچہ یہ کور دل مادی آنکھیں رکھنے والے خدا نشناس انسان نما حیوان ان کے گرد پا تک کو چھو نہیں پاتے اور اپنا دل مسوس مسوس کر ذلت وخواری سے دنیا سے گزر جاتے ہیں۔۔۔ کل چنگیز ابن زیاد یزید بن معاویہ حجاج ابن یوسف ثقفی و متوکل وموشہ دایان تھے تو آج اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اور اس کی حامی طاقتیں ہیں جو جلد ہی تاریخ کے کوڑے دان کا حصہ بننے والے ہیں اور شہید سید حسن نصراللہ جیسے عظیم انسان کل بھی تاریخ کا سنہرا باب تھے اور آئندہ بھی رہیں گے اس لئے کہ حسین ابن علی کی راہ پر چلنے والے کبھی بھی صفحات تاریخ سے محو نہیں ہوتے۔...









آپ کا تبصرہ