تحریر: مزمل عباس انقلابی
حوزہ نیوز ایجنسی| سید حسن نصراللہ رضوان اللہ علیہ عصرِ حاضر کے اُن عظیم مجاہد کمانڈروں میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے اپنی بصیرت، شجاعت اور پختہ ایمان سے نہ صرف لبنان بلکہ پورے عالمِ اسلام کے لیے عزت و وقار کا پرچم بلند کیا۔ وہ حزبِ اللہ لبنان کے تیسرے سیکرٹری جنرل تھے اور تین دہائیوں سے زائد عرصے تک اس تحریک کی قیادت کرتے رہے۔
تعارف:
سید حسن نصراللہ 31 اگست 1960ء کو بیروت میں پیدا ہوئے۔ وہ جنوبی لبنان کے علاقے بازوریہ سے تعلق رکھتے تھے۔ بچپن سے ہی دین و روحانیت کی طرف ان کا رجحان رہا۔ 1976ء میں نجف اشرف تشریف لے گئے اور آیت اللہ سید محمد باقر صدر کی سرپرستی میں دینی تعلیم حاصل کی، جہاں سید عباس موسوی ان کے استاد و مربی تھے۔ بعد ازاں انہوں نے قمِ مقدس میں بھی علم حاصل کیا اور بزرگ مرجعین جیسے آیت اللہ ہاشمی شاہرودی، آیت اللہ کاظم حائری اور آیت اللہ فاضل لنکرانی سے فیض حاصل کیا۔
شہید کی مجاہدانہ خدمات
1982ء میں اسرائیلی جارحیت کے بعد اپنے رفقاء کے ساتھ حزبِ اللہ کی بنیاد رکھی۔
1992ء میں سید عباس موسوی کی شہادت کے بعد 32 سال کی عمر میں حزبِ اللہ کے سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے۔
2000ء میں جنوبی لبنان کو اسرائیلی قبضے سے آزاد کرایا۔
2004ء میں قیدیوں اور شہداء کی نعشوں کی واپسی ممکن بنائی۔
2006ء کی 33 روزہ جنگ میں اسرائیل کو تاریخی شکست دی۔
2017ء کے بعد شام و لبنان میں تکفیری دہشت گرد گروہوں کے خلاف کردار ادا کیا اور انہیں پسپا کیا۔
یہ کامیابیاں سید حسن نصراللہ کو عرب دنیا اور امتِ اسلامیہ میں ایک بااثر اور محبوب رہنما کے طور پر نمایاں کرتی ہیں۔
امام خمینی و رہبر سے رفاقت و تعلقات
سید حسن نصراللہ کا امامِ خمینیؒ اور رہبرِ انقلابِ اسلامی آیت اللہ خامنہای کے ساتھ گہرا روحانی و فکری ربط تھا؛ وہ آیت اللہ خامنہای کو اپنی رہنمائی کا سرچشمہ سمجھتے تھے۔ شہید قاسم سلیمانی اور دیگر مجاہدین کے ساتھ ان کے قریبی تعلقات نے حزبِ اللہ کو محورِ مقاومت کی ایک کلیدی قوت میں تبدیل کر دیا۔ ان کے بیٹے سید محمد ہادی نصراللہ بھی 1997ء میں اسرائیلی فوج کے خلاف لڑتے ہوئے جامِ شہادت نوش کر چکے ہیں۔
دشمن کی دشمنی
سید حسن نصراللہ رضوان اللہ علیہ ایسے قائد ہیں جن کے خلاف دشمن نے جان لیوا سازشیں کیں۔ دورانِ حیات وہ دشمن کے لیے ایک خوف و ہراس کی علامت تھے اور شہادت کے بعد بھی ان کا نام مخالفین کو خوفزدہ کرتا ہے۔
وقفِ حیات
شہید سید حسن نصراللہ نے اپنی پوری زندگی اسلام، مقاومت اور انسانی عزت و وقار کے لئے وقف کر دی۔ وہ نہ صرف مسلمانوں بلکہ ہر آزاد ضمیر کے لیے ایک ہیرو تھے۔ ان کی شہادت نے مختلف مذہبی، مسلکی اور فکری دھاروں کے لوگوں کے دلوں کو اغراقِ احساس سے بھر دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ "سیدِ مقاومت" صرف ایک فرد کا نام نہیں؛ یہ ایک تاریخ، ایک مکتب اور ایک جاری و ساری تحریک کا مظہر ہے۔
خداوندِ متعال سے دعا ہے کہ ہمیں سیدِ مقاومت کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، اور ہمیں راہِ قدس — قبلۂ اوّل کی آزادی کے راستے میں بھی شہادت و فداکاری کی سعادت نصیب کرے۔ آمین۔









آپ کا تبصرہ