حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، شہید سید حسن نصراللہ کی پہلی برسی کے موقع پر ان کی عظیم شخصیت اور کردار پر گفتگو کرتے ہوئے ماہرین نے یاد دلایا کہ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے گذشتہ برس اپنے پیغام تعزیت میں سید حسن نصراللہ کے لئے سات تاریخی القاب استعمال کئے جن میں مجاہد کبیر، پرچمدار مقاومت، عالم بافضیلت دینی، مدبر و سیاستمدار رہبر، عظیم المرتبت شخصیت، سید مقاومت اور نصراللہ بزرگ شامل ہیں۔
اسلامی ثقافت و فکر ریسرچ سینٹر کے رکن، حجۃ الاسلام والمسلمین محمد ملک زادہ نے کہا کہ اس وقت جب خطے کی اقوام اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ سمجھوتے کر رہے تھے اور سر تسلیم خم کر رہے تھے، ایک مرد مجاہد نے سادہ عبا اور ایمان سے لبریز دل کے ساتھ مزاحمت کا پرچم بلند کر کے عزت و کرامت کی نئی تاریخ رقم کی۔
ان کے مطابق، سید حسن نصراللہ صرف حزب اللہ کے سکریٹری جنرل نہیں تھے بلکہ ہر اس انسان کی گونجتی ہوئی آواز تھے جو ظلم اور غاصبانہ قبضے کے خلاف کھڑا ہوتا ہے۔ ان کی شہادت نہ صرف ملت لبنان بلکہ پورے محور مقاومت کے لئے جذباتی اور اسٹریٹجک نقطۂ عطف ہے۔
قم کے ایک اسلامیات کے محقق نے کہا کہ سید مقاومت کی سب سے نمایاں خصوصیت ایمانِ راسخ اور وعدۂ الٰہی پر عملی یقین تھا۔ وہ ہمیشہ قرآنی آیت «إن تنصروا الله ينصركم» کو محور بنا کر مزاحمت کی حکمتِ عملی واضح کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ رہبر انقلاب نے انہیں مؤمن، بصیر اور شکست ناپذیر کمانڈر قرار دیا۔
ان کے مطابق، سید حسن نصراللہ صرف بہادر فوجی کمانڈر نہیں بلکہ دوراندیش سیاسی مفکر بھی تھے جو میدانِ جنگ کے ساتھ ساتھ "جنگِ روایت" میں بھی کامیاب رہے اور مزاحمت کے پیغام کو عالمی سطح پر رائج کیا۔
امام صادق(ع) ریسرچ سینٹر کے رکن، ڈاکٹر مهدی اسلامی نے کہا کہ سیدالشہداء مقاومت نے میڈیا کو ہتھیار کی طرح استعمال کیا۔ ان کی تقریریں نہ صرف دشمن کا حوصلہ پست کرتیں بلکہ محور مقاومت میں نئی جان ڈال دیتیں۔ ان کے آخری خطاب کو جو پیجر دھماکوں کے بعد کیا گیا، دشمن کے لئے ہولناک جھٹکا اور مزاحمتی صفوں کے لئے حوصلہ افزائی کا نقطہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سید نصراللہ کی نمایاں خصوصیات میں اخلاص، تعبد اور سادہ طرزِ زندگی شامل تھا، جس نے انہیں عوام اور مجاہدین کے دلوں سے جوڑ دیا۔ جنگ 2006ء کے بعد وہ لبنان، فلسطین، شام اور عراق میں مختلف مزاحمتی گروہوں کے درمیان اتحاد کی علامت بن گئے۔
ڈاکٹر اسلامی کے مطابق، سید حسن نصراللہ نے جنگی میدان کے ساتھ ساتھ "جنگِ روایت" میں بھی ایسی داستانیں روک کیں جنہوں نے صہیونی ریاست کی شکست پذیری کو دنیا کے سامنے آشکار کیا۔ یہی وہ نقطہ ہے جس پر رہبر انقلاب نے بارہا زور دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دشمن سمجھتا ہے کہ نصراللہ اور یحییٰ سنوار جیسے کمانڈروں کی جسمانی شہادت سے مزاحمتی قیادت ختم ہو جائے گی، مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کی شہادت نے لاکھوں دلوں میں نئی توانائی پیدا کر دی ہے، جیسے شہادتِ حاج قاسم سلیمانی کے بعد ہوا۔
آخر میں انہوں نے کہا کہ خونِ شہید سید حسن نصراللہ صرف حزب اللہ کی رگوں میں نہیں بلکہ پوری امت اسلامیہ اور دنیا کے ہر حریت پسند کے دل میں رواں دواں ہے اور یہی سید مقاومت کی عظیم میراث ہے۔









آپ کا تبصرہ