تحریر: مولانا سید کرامت حسین شعور جعفری
الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ
حمد ہے اُس خدا کے لیے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔
یہ آغاز، دعا نہیں — ایک اعترافِ ربوبیت ہے۔ دعائے ندبہ کا پہلا جملہ ہمیں اس اصل حقیقت کی طرف پلٹاتا ہے کہ تمام حمد، تمام تعریف، تمام وجودی وابستگی صرف اللہ سے ہے، جو ربّ العالمین ہے — یعنی ہر جہان، ہر مخلوق، ہر لمحے اور ہر ذرے کا پروردگار۔ یہ جملہ گویا بندگی کے مرکز کو واضح کرتا ہے: نہ حمد کسی بادشاہ کے لیے، نہ تعریف کسی رہبر کے لیے، بلکہ ہر ثنا کا سرچشمہ صرف وہی ہے جس نے انسان کو معرفتِ حق کی صلاحیت دی۔ دعائے ندبہ کا یہی آغاز انسان کے باطن میں تسلیم اور شکر کے بیج بوتا ہے، تاکہ وہ آگے کے فکری سفر میں ہر درد، ہر فریاد اور ہر نالہ اسی رب کی بارگاہ میں پیش کرے — کیونکہ حمد صرف اسی کی سزاوار ہے جو ہر عالم کا رب ہے، نہ کہ صرف کسی ایک زمانے یا قوم کا۔
وَصَلَّی ﷲُ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ نَبِیِّہٖ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تَسْلِیْمًا۔
اور خدا رحمت نازل کرے ہمارے سردار، اپنے نبی محمدؐ اور ان کی آلِ پاکؑ پر اور اُن پر سلام ہو، کامل سلامتی کے ساتھ۔
یہ جملہ دعائے ندبہ کے مقصدِ حق کو ظاہر کرتا ہے — یعنی ولایتِ محمد و آلِ محمدؐ سے وابستگی اور اسی کے ذریعے خدا تک رسائی۔ دعا یہاں سے ایک عام حمد سے نکل کر ایک شعوری اعلانِ وفاداری بن جاتی ہے۔ رب کی حمد کے بعد نبیِ آخرالزماںؐ پر درود کا ذکر دراصل اس عقیدے کی تکمیل ہے کہ بندگی کا در، نبیؐ اور ان کی آلؑ کے وسیلے سے ہی کھلتا ہے۔ دعائے ندبہ اسی نسبت کو بیدار کرنے کے لیے ہے — تاکہ امت اپنے امامِ غائبؑ کے فراق میں تڑپ کر بھی اسی تسلسلِ نور سے جڑی رہے جو “محمدؐ و آلِ محمدؑ” کی صورت میں جاری ہے۔ چنانچہ اس دعا کا مقصد صرف گریہ یا شکوہ نہیں، بلکہ ایک عہد ہے — کہ ہم اس حمد کے وارث نبیؐ اور ان کی آلؑ کی راہ پر قائم رہیں، حتیٰ کہ ظہورِ حق کے سورج کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔
یہی دعائے ندبہ کی روح ہے — حمدِ ربّ سے آغاز، درودِ رسولؐ سے اتصال، اور انتظارِ ولیؑ سے تکمیل۔ یہ دعا محض فراق کی آہ نہیں بلکہ ایمان کی تجدید ہے، جو مومن کے دل کو یاد دلاتی ہے کہ رب کی معرفت، رسالت کی اطاعت، اور امامت کی ولایت ایک ہی زنجیر کے تین حلقے ہیں۔ بندہ جب اس دعا کو صدقِ دل سے پڑھتا ہے تو وہ اپنے وجود کو اُس کاروانِ وفا میں شامل کر لیتا ہے جو خدا سے شروع ہو کر امامِ زمانؑ پر ختم ہوتا ہے۔ یہی تسلسلِ عشق دراصل انسان کی نجات، اُس کی بیداری، اور اس کی زندگی کے مقصد کی تکمیل ہے۔









آپ کا تبصرہ