تحریر: مولانا سید کرامت حسین شعور جعفری
حوزہ نیوز ایجنسی| اسلام کا بنیادی عقیدہ ’’توحید‘‘ محض ایک کلماتی اقرار یا فقہی ضابطہ نہیں، بلکہ وجود کی وہ بصیرتِ مطلقہ ہے جو کائنات کے ہر ذرّے، ہر حرکت، ہر شعور اور ہر نظام کو ایک واحد، لامتناہی، خودکفیل اور حاضر و ناظر ذات سے جوڑ دیتی ہے؛ یہ وہ ایمان ہے جو عقل کو یقین میں اور یقین کو عبادت میں بدل دیتا ہے۔
توحید کا یہ مفہوم اتنا گہرا ہے کہ اس میں کائنات کی علتِ غائیہ، اخلاقی نظم کا اصول، اور انسانی شعور کی مرکزیت سب ایک ہی حقیقت میں جمع ہو جاتے ہیں۔
اگر اس توحید کو صرف زبان کے اقرار یا مذہبی عنوان کے طور پر قبول کر لیا جائے —اور اسے فکر، اخلاق اور عمل میں جاری نہ کیا جائے —تو اس کا نظریاتی افق تنکّا رہ جاتا ہے؛ یعنی اس کی معنوی وسعت سکڑ جاتی ہے، فکری روشنی مدھم پڑ جاتی ہے اور وہ عقیدہ جو روح کو بیدار کرنے کے لیے نازل ہوا تھا، محض لسانی شعار بن کر رہ جاتا ہے۔
ایسی توحید ایمان کا دعویٰ تو رکھتی ہے مگر معرفت کی تاثیر سے خالی ہوتی ہے؛ وہ زبان سے ’’لا الٰہ‘‘ کہتی ہے مگر عمل اور شعور میں متعدد معبودوں کی اطاعت روا رکھتی ہے —کبھی حرص و لالچ کے، کبھی نفس و طاقت کے، کبھی رسم و روایت کے۔
حقیقی توحید وہ ہے جو معرفتِ الٰہی کو انسان کی زندگی کے ہر گوشے میں روشنی اور نظم عطا کرے؛ جو دل میں خشوع، عقل میں توازن، اور کردار میں اخلاص پیدا کرے؛ جو انسان کو یہ احساس دلائے کہ خدا محض معبود نہیں بلکہ تمام وجود کی مرکزِ حرکت ہے۔
ایسی توحید ہی وہ بینائی ہے جو انسان کو ظاہر سے باطن، اور مظاہر سے حقیقت تک لے جاتی ہے —اور یہی وہ مقام ہے جہاں سے وسیلہ اپنے روحانی مفہوم میں نمودار ہوتا ہے: توحید کے شعور کو بندگی کے آداب میں ڈھالنے کا لطیف راستہ۔
اسی توحیدی شعور کے باطن میں ایک لطیف اور دقیق حقیقت پوشیدہ ہے جسے “وسیلہ” کہا گیا ہے۔ وسیلہ دراصل انسانی بندگی کے شعور کی ترتیب ہے —ایک ایسا روحانی نظام جس کے ذریعے انسان اپنی محدود ذات کو اس لامحدود حقیقت کے ساتھ ادب، معرفت اور محبت کے ذریعے ہم آہنگ کرتا ہے۔
یہ تصور ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ خدا تک پہنچنے کے راستے محض عقلی نہیں بلکہ اخلاقی و روحانی ہیں کہ بندہ اپنے اعمال، دعاؤں، انبیاءؑ اور اولیاءِ صالحین کے توسط سے اُس ذات تک رسائی پاتا ہے جو ’’احد‘‘ اور ’’صمد‘‘ ہے۔
وسیلہ اس حقیقت کا نام ہے کہ بندہ خدا تک بےواسطہ دعویٰ قرب نہیں کرتا، بلکہ اُس قرب کو اُن ہستیوں کے ادب کے راستے سے حاصل کرتا ہے جنہیں خود خدا نے اپنے فضل و قرب کا مظہر بنایا۔
یوں وسیلہ خدا اور بندے کے درمیان کوئی پردہ نہیں بنتا بلکہ ایک شعوری پل بنتا ہے —ایسا پل جو بندے کو شرک کے وہم سے محفوظ رکھتا ہے اور توحید کے نور میں اور زیادہ راسخ کر دیتا ہے۔
یہی وہ نقطہ ہے جہاں وسیلہ، توحید کا تسلسل بن جاتا ہے نہ کہ اس کا متبادل۔
توحید وحدتِ وجود کا اعلان ہے اور وسیلہ اُس وحدت تک رسائی کا ادب۔
توحید نظریہ ہے، وسیلہ اُس نظریے کا عملی آداب نامہ۔
توحید اللہ کی کبریائی کو ظاہر کرتی ہے، اور وسیلہ انسان کے عجز کو سنوارتا ہے۔
یہ دونوں ایک دوسرے کے بغیر نامکمل ہیں، کیونکہ توحید اگر علم ہے تو وسیلہ اُس علم کی روحانی تفسیر ہے۔
وسیلہ کا قرآنی و نبوی جواز:
قرآنِ حکیم میں وسیلہ محض ایک اخلاقی یا عرفانی مفہوم نہیں بلکہ الٰہی حکم کی حیثیت رکھتا ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:«يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ»“اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو، اور اُس کی طرف وسیلہ تلاش کرو۔”(سورۃ المائدہ، آیت 35)
یہ آیت ایمان کی اساس میں ایک نیا زاویہ شامل کرتی ہے —کہ بندگی کا تکامل صرف اطاعت سے نہیں، بلکہ ادبِ قربت سے ہوتا ہے۔
یہاں “ابتغاء الوسیلہ” کا حکم دراصل بندے کو بتاتا ہے کہ توحید کا راستہ ادبِ بندگی کے واسطے سے گزرتا ہے۔
خدا نے خود بندے کو حکم دیا کہ وہ اُس تک پہنچنے کے لیے ایک روحانی وسیلہ تلاش کرے —یعنی قربِ الٰہی کا راستہ بندگی کے واسطے سے کھلتا ہے، نہ کہ غرورِ معرفت سے۔
یہی حقیقت سورۃ النساء میں مزید واضح کی گئی:«وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ، وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ، لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَحِيمًا»(“اگر وہ لوگ جب اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں تمہارے پاس آ جاتے، پھر اللہ سے بخشش مانگتے اور رسول بھی ان کے لیے دعا کرتے تو وہ اللہ کو توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا پاتے۔”)(سورۃ النساء، آیت 64)
یہ آیت دراصل وسیلہٴ نبویؐ کا اعلان ہے۔
یہاں خدا خود بندوں کو تعلیم دیتا ہے کہ جب تم خطا کرو تو براہِ راست نہیں، بلکہ رسول کے در سے گزر کر میرے پاس آؤ، کیونکہ نبیؐ وہ ہستی ہیں جن کے وسیلے سے بندے کی دعا کو قبولیت کا شرف عطا ہوتا ہے۔
امام فخرالدین رازیؒ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:“یہ آیت صریح دلالت کرتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کے پاس آ کر دعا و استغفار کرنا قربِ الٰہی کا مؤثر وسیلہ ہے۔”(تفسیر کبیر، ج 11، ص 278)
اسی طرح تفسیر طبری اور تفسیر قرطبی میں بھی یہ بات بیان ہوئی ہے کہ وسیلہ کے ذریعے بخشش طلب کرنا، سنتِ انبیاء اور امرِ الٰہی ہے۔(تفسیر طبری، ج 6، ص 482؛ تفسیر قرطبی، ج 6، ص 221)
انبیاء کے واقعات میں وسیلے کا نمونہ:
قرآنِ مجید میں کئی مقامات پر وسیلہٴ صالحین کی مثالیں ملتی ہیں۔
جب حضرت یعقوبؑ کے بیٹوں نے اپنے گناہوں کا اعتراف کیا تو عرض کیا:«يَا أَبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا إِنَّا كُنَّا خَاطِئِينَ»“اے ہمارے والد! ہمارے لیے بخشش کی دعا کیجیے، ہم خطاکار تھے۔”(سورۃ یوسف، آیت 97)
حضرت یعقوبؑ نے فرمایا:«سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي»“میں تمہارے لیے اپنے رب سے بخشش مانگوں گا۔”(سورۃ یوسف، آیت 98) یہی تو وسیلہ ہے — کہ گناہگار، مقرب بندے سے دعا کی درخواست کرے۔
اگر یہ عمل شرک ہوتا، تو نبیِ خدا اسے ردّ کرتے، مگر انہوں نے قبول کیا۔
یوں قرآن نے عملی طور پر سکھایا کہ توسل انبیاء و صالحین، بندگی کا حسن ہے، شرک کا داغ نہیں۔
احادیث میں وسیلہ کا اثبات:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ نے خود فرمایا:«توسّلوا بجاهي، فإنّ جاهي عند الله عظيم.»“میرے وسیلے سے دعا کرو، کیونکہ میرا مقام اللہ کے نزدیک عظیم ہے۔”(جامع الصغیر، سیوطی، حدیث 5129)
اور فرمایا:«الدعاء موقوف بين السماء والأرض حتى يُصَلّى عليّ وعلى أهل بيتي.»
“دعا زمین و آسمان کے درمیان معلق رہتی ہے، جب تک مجھ پر اور میری آل پر درود نہ بھیجا جائے۔”(جامع الصغیر، حدیث 5631)
یہ دونوں احادیث اس حقیقت کو واضح کرتی ہیں کہ درود اور توسل بذاتِ خود خدا کی یاد کا دروازہ ہیں —وسیلہ وہ طریقہ ہے جو دعا کو قبولیت کی راہ دکھاتا ہے۔
اہلِ سنت محدثین مثلاً بیہقی، طبرانی، اور ابن حجر عسقلانی نے بھی“توسل بالنبی” کی احادیث کو صحیح اور مشروع تسلیم کیا ہے۔(السنن الکبریٰ للبیہقی، ج 3، ص 352؛ المعجم الکبیر للطبرانی، ج 11، ص 98)
وسیلہ؛ قربِ الٰہی کا ادب:
قرآن اور سنت کی روشنی میں واضح ہے کہ وسیلہ، شرک سے بچنے کا ذریعہ ہے، نہ کہ اس کی راہ۔
یہ ایمان کا ادب ہے، بندگی کی تہذیب ہے اور قربِ الٰہی کی راہ کا لازمی زینہ۔
وسیلہ بندے کو یاد دلاتا ہے کہ خدا تک رسائی غرورِ عقل سے نہیں بلکہ ادبِ عشق سے ہوتی ہے۔
وسیلہ دراصل توحید کا اخلاقی چہرہ ہے —جو بندگی کو خضوع، دعا کو مؤثریت، اور عبادت کو حضور عطا کرتا ہے۔
وسیلہ، شرک نہیں، بلکہ شرک سے نجات کا سبب:
وسیلہ کی حقیقت کو اگر اس کے قرآنی اور نبوی سیاق میں سمجھا جائے،تو یہ بات نہایت واضح ہو جاتی ہے کہ وسیلہ دراصل شرک سے تحفظ کی ایک مضبوط فصیل ہے۔
شرک اس وقت پیدا ہوتا ہے جب بندہ مخلوق کو خالق کے برابر یا اس کا شریک سمجھنے لگے اور توحید اُس وقت نکھرتی ہے جب بندہ مخلوق میں صرف خالق کا مظہر دیکھے، اُس کی ذات کا بدل نہیں۔
وسیلہ اسی توحیدی شعور کا عملی نظام ہے —یہ انسان کو یاد دلاتا ہے کہ کوئی نبی، ولی یا امام خود خدا نہیں،بلکہ خدا کی رحمت کا در، اُس کی ہدایت کا وسیلہ اور اُس کے قرب کی نشانی ہے۔
قرآن نے کہا:«أُولَٰئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَىٰ رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ»“جنہیں لوگ پکارتے ہیں، وہ خود بھی اپنے رب کی طرف وسیلہ تلاش کرتے ہیں تاکہ وہ اُس کے زیادہ قریب ہو جائیں۔”(سورۃ الإسراء، آیت 57)
یہ آیت ایک گہری بصیرت رکھتی ہے:
کہ وسیلہ خالق نہیں، بلکہ خالق تک پہنچنے کا شعور ہے۔
یہ خدا کے سوا کسی کے سامنے جھکنا نہیں،بلکہ خدا تک جھکنے کا سلیقہ سکھاتا ہے۔
وسیلہ: ادبِ بندگی کا کمال:
اگر عبادت توحید کا جوہر ہے، تو وسیلہ اس عبادت کا ادب ہے۔
یہ بندگی کی تربیت ہے کہ خدا تک رسائی بغیر اُس کے محبوب بندوں کے احترام کے ممکن نہیں۔
یہی ادب وہ قوت ہے جو انسان کے دل کو غلو اور شرک کی سرحد سے محفوظ رکھتا ہے۔
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:“إيّاكَ والغلوَّ فينا، وقُل فينا ما شئتَ، ولن تبلغَ.”“ہمارے بارے میں غلو سے بچو، اور ہمارے بارے میں جو چاہو کہو (مگر حدودِ بندگی میں)، تم اس کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتے۔”(نہج البلاغہ، حکمت 105)یعنی اہلِ بیتؑ خود اس بات کے نگہبان ہیں کہ توسل اور عقیدت حدودِ توحید میں رہیں۔
ان کی تعلیم یہی ہے کہ محبت ہو مگر عبادت نہ بنے، تعظیم ہو مگر الوہیت کا گمان نہ ہو۔
وسیلہ دراصل محبت اور اطاعت کا مظہر ہے، جب کہ شرک، غلو اور انتہا پسندی کا نتیجہ ہے۔
محبت انسان کو خدا کے قریب کرتی ہے، اور غلو اسے خدا سے دور کر دیتا ہے۔
اسلام کا جوہر محبت میں توازن اور عقیدت میں اعتدال ہے —اس لیے اسلام، محبت کا دین ہے؛ غلو کا نہیں۔
وسیلہ اور شرک کا فرق:
شرک یہ ہے کہ بندہ کسی ہستی کو خدائی صفات میں شریک سمجھے،جبکہ وسیلہ یہ ہے کہ بندہ اس ہستی کو خدا کی قربت کا در سمجھے۔
شرک میں مخلوق کو معبود بنایا جاتا ہے،وسیلہ میں مخلوق کو عبدِ مخلَص مان کر اُس کی دعا اور طہارت سے فیض لیا جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا:“اللهم إني أسألك بحق محمدٍ وآل محمدٍ أن تغفر لي.”“اے اللہ! میں تجھ سے محمد اور آل محمد کے حق کے وسیلے سے مغفرت مانگتا ہوں۔”(السنن الکبریٰ، بیہقی، ج 3، ص 352)
یہ دعا بذاتِ خود اعلان ہے کہ وسیلہ عبادت نہیں، عبادت کی سمت ہے۔
خدا کی بندگی براہِ راست بھی ممکن ہے، مگر وسیلہ اس بندگی کو اخلاص اور معرفت کے ساتھ مزین کر دیتا ہے۔
یہ بندگی میں تسلسل اور مرکزیت پیدا کرتا ہے —یعنی ہر بندگی ایک مرکز کی طرف جھکتی ہے، اور وہ مرکز صرف اللہ ہے۔
وسیلہ: شرک کے اندھیروں سے توحید کے نور تک:
انسانی فطرت کو اگر بغیر رہنمائی کے چھوڑ دیا جائے تو وہ یا تو غرورِ عقل میں گم ہو جاتی ہے یا مظاہرِ قدرت کو معبود بنا بیٹھتی ہے۔
وسیلہ ان دونوں انتہاؤں سے بچنے کا روحانی توازن ہے۔
یہ انسان کو سکھاتا ہے کہ خدا تک پہنچنے کا راستہ اُس کے محبوب بندوں کی اطاعت، اُن کے اخلاق اور اُن کی محبت سے گزرتا ہے۔
یہی وہ حکمت ہے جسے امام جعفر صادق علیہ السلام نے بیان فرمایا:“نحن الوسائل إلى الله، ونحن الباب إليه.”“ہم ہی اللہ تک پہنچنے کے وسیلے ہیں، اور ہم ہی اُس کے دروازے ہیں۔”(الکافی، ج 1، ص 145)یعنی بندے کو خدا تک پہنچنے کے لیے کسی اور کے در پر نہیں جانا،بلکہ اُن ہستیوں کے راستے سے گزرنا ہے جو خود اُس کے در کے نگہبان ہیں۔
یہ معرفت انسان کو شرک کی ہر شکل سے بچاتی ہے،کیونکہ وہ جان لیتا ہے کہ نہ وہ وسیلے کی پرستش کر رہا ہے،نہ اُنہیں معبود مان رہا ہے —بلکہ اُن کے ذریعے صرف خدا کے نور تک رسائی حاصل کر رہا ہے۔
وسیلہ دراصل توحید کی شعوری حفاظت ہے:
یہ بندے کو یاد دلاتا ہے کہ وہ اپنے خالق تک تنہا نہیں پہنچ سکتا —بلکہ اُس قرب کے لیے خدا نے خود کچھ چہرے، کچھ کردار، کچھ دعائیں اور کچھ دل منتخب کیے ہیں۔
وسیلہ انسان کو بندگی کے آداب سکھاتا ہے اور آداب بندگی کے بغیر توحید، علم کے درجے میں تو ممکن ہے مگر عمل کے درجے میں ناقص رہتی ہے، لہٰذا وسیلہ شرک نہیں، بلکہ شرک سے نجات کا سبب ہے؛یہ عقیدہ نہیں بدلتا، بلکہ عقیدے کو اخلاص کی گہرائی دیتا ہے۔
یہ ایمان کو رسم نہیں، رشتہ بنا دیتا ہے —خالق اور مخلوق کے درمیان محبت، معرفت اور ادب کا رشتہ۔
اے ربّ واحد و یکتا! ہمیں اپنے محبوبوں کے وسیلے سے تیری پہچان عطا فرما، ہمارے دلوں کو شرک کے ہر سایے سے پاک اور توحید کے نور سے منور کر۔ ہمیں اُن بندوں میں شامل کر جن کی عبادت میں تیری یاد اور جن کے دلوں میں تیرے محبوبوں کا ادب زندہ ہو۔
اللهم بحق محمدٍ وآل محمدٍ اجعلنا من الموحّدين الصادقين،و ارزقنا وسيلة القرب منك، و لا تجعل لنا وسيلةً إلا إلى رضاك. آمین یا رب العالمین۔









آپ کا تبصرہ