تحریر: مولانا سید کرامت حسین شعور جعفری
حوزہ نیوز ایجنسی| زندگی کے نشیب و فراز میں ایک دن ایسا آتا ہے جب والدین کی آنکھوں کی روشنی دھندلا جاتی ہے، ہاتھ کانپنے لگتے ہیں اور قدم ڈگمگا جاتے ہیں۔ وہی والدین جنہوں نے بچپن میں ہمیں چلنا سکھایا، کھلایا، سنوارا اور بار بار کہانیاں دہرا کر خوش کیا؛ اب چاہتے ہیں کہ ہم انہیں برداشت کریں؛ وقت دیں اور ان کی کمزوریوں کو ہنسی یا غصے کا سبب نہ بنائیں، یہ دراصل ہماری شکرگزاری کا امتحان ہے کہ ہم بچپن کے احسانات کا بدلہ کس طرح چکاتے ہیں۔
والدین کا بڑھاپا اور اولاد کی ذمہ داری
جب باپ یا ماں بار بار بات کریں یا کچھ بھول جائیں تو یہ ان کی کمزوری نہیں بلکہ عمر کی سچائی ہے۔ ایسے میں اولاد کا فرض ہے کہ وہ ان کی آنکھیں اور دماغ بنے، ان کی لغزشوں پر پردہ ڈالے اور ان کے ساتھ احسان و صبر سے پیش آئے۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے ہماری زندگی ، ہماری خوشی اور ہماری کامیابی کے لیے اپنی جوانی لٹا دی۔ اب ان کے کمزور جسم کو سہارا دینا، ان کا ہاتھ پکڑنا اور ان کے دل کو تسلی دینا ہماری اصل خدمت ہے۔
آخری تمنا اور حقیقی وراثت
باپ بیٹے سے یہی چاہتا ہے کہ جس طرح اُس نے ولادت کے لمحے اپنے بچے کو تھاما تھا، وہ بھی موت کے وقت اُس کے ساتھ کھڑا ہو۔ یہ وصیت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ والدین کی خدمت صرف ایک اخلاقی فرض نہیں بلکہ عبادت ہے۔ قرآن کہتا ہے: ﴿وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا﴾ (بنی اسرائیل: 23) “والدین کے ساتھ بھلائی کرو۔”
اولاد کے لیے سب سے بڑی وراثت دولت نہیں بلکہ یہ دعائیں ہیں کہ “بیٹا! میری خطاؤں کو معاف کرنا، میرا ساتھ دینا، اور مجھے تنہائی میں نہ چھوڑنا۔” یہی والدین کی آخری خواہش اور ان کا سب سے قیمتی تحفہ ہے۔
خدایا: ہمیں اپنے والدین کے بڑھاپے میں صبر، خدمت اور احترام کی توفیق دے؛ ان کی لغزشوں کو ہم پر آسان کر دے، اور ہمارے رویے ان کے دل کے سکون کا سبب بنیں۔ جیسے انہوں نے بچپن میں ہمیں سنبھالا، ویسے ہی ہم بڑھاپے میں ان کا سہارا بن سکیں۔ آمین یا رب العالمین









آپ کا تبصرہ