تحریر: مولانا محمد سجاد شاکری
حوزہ نیوز ایجنسی| روسی عوام ایک صبح اس وقت بیدار ہوئے جب انہوں نے دیکھا کہ درجنوں چھوٹے ڈرونز اُن کے اپنے علاقوں سے فضا میں بلند ہو چکے ہیں، اور اِن ڈرونز نے روس کے فضائی اثاثوں، بالخصوص بمبار طیاروں کو نشانہ بنایا ہے۔ اگرچہ یوکرین نے اس کارروائی کی ذمہ داری قبول کی، اور روس نے اس کے جواب میں تباہ کن ردعمل کا اعلان بھی کیا، لیکن آج تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ روس نے اس حملے کے جواب میں عملاً کیا اقدام کیا۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ روس جیسی عظیم عالمی طاقت، جو دنیا کی دوسری یا تیسری بڑی فوجی قوت شمار ہوتی ہے، ایک ایسے اچانک اور غافلگیر حملے کے خلاف مؤثر دفاعی تدبیر اختیار نہ کر سکی۔
صدر جو بائیڈن کے دور میں، صیہونی ریاست اور امریکی افواج کی جانب سے ایران پر حملے کی فرضی مشقیں کی گئیں؛ اور سابق صدر ٹرمپ کے دور میں، اچانک اور ہولناک کارروائی کے ذریعے بعض ایرانی کمانڈروں اور سائنسدانوں کو شہید کیا گیا، ساتھ ہی ایران کے بعض حساس فوجی مراکز اور ایٹمی تنصیبات کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ روس پر ایک روزہ ڈرون حملے جیسا منصوبہ، ایران کے خلاف بارہ شبوں تک مسلسل جاری رہا۔
اب آئیے جنگ کے دوسرے منظرنامے پر نظر ڈالیں:
دشمن کا مقصد ایران کی فوجی اور دفاعی طاقت کو ختم کرنا، عوامی دباؤ کے ذریعے حکومتِ ایران کو تبدیل یا کمزور کرنا، ایران کی میزائل صلاحیت کو تباہ کرنا، اندرونی خلفشار اور بغاوت کے ذریعے ملک کو کئی حصوں میں تقسیم کرنا، اور ایران کی ایٹمی تنصیبات و سائنسدانوں کو نشانہ بنا کر اُس کی ایٹمی صلاحیت کو مکمل طور پر ختم کرنا تھا۔ یہ تمام نکات امریکا اور اسرائیل کے سیاسی و عسکری قائدین بارہا دہرا چکے ہیں، اور دنیا کے معروف تجزیہ نگار بھی ان امور پر اپنی تفصیلات پیش کر چکے ہیں۔
لیکن حقیقت میں کیا ہوا؟
ایران کے اہم ڈھانچوں، بالخصوص فضائی دفاع، میزائل نظام اور ائیر ڈیفنس سسٹم کو نشانہ بنایا گیا۔ مگر ایران نے محض آٹھ گھنٹے کی قلیل مدت میں اپنے باصلاحیت جوانوں کی مدد سے پورے نظام کو دوبارہ فعال کر دیا۔ بارہ روزہ جنگ کے دوران دشمن کے 130 بڑے ڈرونز، ایک ہزار سے زائد چھوٹے کواڈ کوپٹرز کو تباہ کر دیا؛ تقریباً ایک ہزار جاسوسوں اور اندرونی سہولت کاروں کو گرفتار بھی کر لیا۔
ایران نے تل ابیب اور حیفا پر ایسے تباہ کن حملے کیے کہ دوست و دشمن سب نے اعتراف کیا کہ اسرائیل نے پہلی بار "غزہ" کے درد کو واقعی محسوس کیا، اور اہلِ فلسطین کے زخم خوردہ چہروں پر پہلی بار مسکراہٹ دیکھنے کو ملی۔
ان بارہ دنوں میں ایران نے اسرائیل کو جس قدر شرمناک شکست سے دوچار کیا، اُس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکا جیسے ملک کو اس جنگ میں مداخلت کرنا پڑی۔ تاہم، وہ محض ایک نمائشی کارروائی کر کے رہ گیا اور ایرانی جوابی وار کا کوئی جواب نہ دے سکا۔
یہ جنگ پیر کی شب ایک عارضی جنگ بندی پر رکی۔ وہ اسرائیل، جو ایران کے ہر حملے کے بعد فوری ردعمل دکھاتا تھا، صبح 6 بجے سے 7:30 بجے تک ایران کی مسلسل میزائل بارش کے باوجود کوئی حرکت نہ کر سکا۔ ایران اپنی ایٹمی پالیسی سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹا، بلکہ 400 کلو یورینیم اور سینکڑوں سینٹری فیوجز کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا۔ ایران نے آخری لمحے تک میزائل داغے، اور یہ ثابت کیا کہ یہ کوئی وقتی ردعمل نہیں، بلکہ ایک مکمل، ہمہ گیر اور باقاعدہ جنگ تھی، جو دو ایٹمی ریاستوں کی جانب سے ایران پر مسلط کی گئی تھی۔ مگر ایران نے بارہ روزہ مزاحمت کے بعد دشمن کو جھکنے پر مجبور کر دیا۔
اس جنگ کے اثرات بے حد گہرے اور دور رس ثابت ہوئے۔ اسلامی جمہوریہ ایران، اس کی قیادت اور مسلح افواج یہاں تک کہ سخت ترین مخالفین کے دلوں میں بھی محبوب بن گئیں۔ پوری ایرانی قوم متحد ہو گئی؛ حتیٰ کہ وہ افراد جو گزشتہ برسوں میں حکومت مخالف مظاہروں میں شریک ہوتے تھے، اس بار ایرانی حکومت اور فوجی قیادت کے شانہ بشانہ نظر آئے۔ وہ لوگ جو کل تک ’’نہ غزہ، نہ لبنان‘‘ کے نعرے لگاتے تھے، اب اسرائیل کے خلاف ایرانی موقف اور فلسطینی و لبنانی مزاحمتی تنظیموں کی حمایت کے فوائد کے معترف ہو گئے۔
ایرانی عوام نے رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای کی قیادت میں دفاعی ٹیکنالوجی، ایٹمی توانائی اور عزتِ ملی کے تحفظ پر اُن کے غیرمتزلزل مؤقف کو بخوبی درک کیا۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق، نوے فیصد ایرانی عوام میزائل پروگرام کی توسیع، ایٹمی طاقت بننے، یہاں تک کہ ایٹم بم بنانے کی بھی حمایت کرتے نظر آئے۔ پوری قوم اسرائیل کو سزا دینے کی حامی بن چکی ہے۔
مگر سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ دشمن ضرور واپس آئے گا؛ کیونکہ اسے اپنے پائلٹوں کو آرام دینا ہے، طیاروں کی مرمت اور دفاعی نظام کی بحالی کرنی ہے۔ اب ایران کو چاہیے کہ اگلے مرحلے کے لیے اپنے میزائل نظام کو مزید تقویت دے، غافلگیر حملوں سے نمٹنے کے لیے اندرونی سیکیورٹی کو مستحکم کرے، نفوذی عناصر اور تخریب کاروں کے خلاف سنجیدہ اور ہمہ گیر منصوبہ بندی کرے، اسلامی ممالک کی غداری، خصوصاً ایران کی شمالی سرحدوں پر ممکنہ خطرات کے تدارک کے لیے فعال اقدامات کرے، اور فضائی دفاع و ہوابازی کے میدان میں درپیش چیلنجز پر مؤثر قابو پائے۔
اگر آئندہ کوئی حملہ ہو تو ایران کو پہلے سے کہیں زیادہ تباہ کن اور عبرتناک ردعمل دینے کے لیے پوری طرح آمادہ ہونا چاہیے۔
جو کچھ پیش آیا، وہ ایک عظیم فتح تھی۔ ایسی ہمہ جہت جنگ اور غافلگیری کے عالم میں شاید روس یا چین جیسے ممالک بھی زیادہ دیر نہ ٹھہر پاتے۔ مگر ملتِ ایران نے، اپنی مدبر، بابصیرت اور دوراندیش قیادت، آیت اللہ العظمٰی سید علی حسینی خامنہ ای کی رہبری میں، ایثار، استقلال اور بیداری کے ساتھ ایسا کارنامہ انجام دیا ہے جسے تاریخ سنہری حروف سے یاد رکھے گی۔
اور آخر ی نکتہ یہ ہے کہ:یہ جنگ کوئی جغرافیائی اختلافات پر مشتمل جنگ نہیں ، بلکہ دو نظریات اور دو آڈیالوجیز کے درمیان ایک فیصلہ کن معرکہ ہے، جو اُس وقت تک جاری رہے گا جب تک ان میں سے کوئی ایک اپنے نظریے سے دستبردار نہ ہو۔









آپ کا تبصرہ