یادداشت: عارف بلتستانی
حوزہ نیوز ایجنسی| جنگ میں فتح و شکست کا معیار جنگی اہداف پر منحصر ہے۔ اگر وہ اہداف حاصل ہو جائیں تو فاتح کہلایا جاتا ہے۔ ابھی ایران اور اسرائیل کے درمیان صلح نہیں، بلکہ عارضی جنگ بندی ہوئی ہے۔ اس میں صلح تحمیلی کسی صورت میں درکار نہیں ہے۔ جنگ بندی دونوں طرف کے لیے سانس لینے کی ایک فرصت ہے، لیکن جنگ بندی ہو بھی جائے تو اسرائیل نے موقع پاکر پھر حملہ کرنا ہے۔ دنیا کو ذرہ برابر اس غاصب پر اعتماد نہیں ہے، اس کی دلیل تاریخی تجربہ ہے۔
لیکن اس جنگ کا آغاز بھی اسرائیل نے کیا ہے اور جنگ بندی کی التماس بھی اس نے کی ہے۔ اس غیر منصفانہ جنگ میں امریکہ و اسرائیل کے چند اہداف تھے۔ ان میں سب سے پہلا ہدف عوام کو نظام سے جدا کر کے بغاوت پر ابھارنا تھا، لیکن ان کے ہدف کے برعکس تمام ایرانی عوام مکمل طور پر اپنے تمام تر اختلافات ختم کر کے نظام کے ساتھ متحد ہو گئے؛ اس طرح پہلے ہدف میں ہی شکست سے دوچار ہونا پڑا۔
دوسرا ہدف ان کے میزائل سسٹم کو مکمل ختم کرنا تھا۔ جس کے لیے ان کے تمام صف اول کے کمانڈرز کو ٹارگٹ کلنگ کر کے راستے سے اٹھا لیا، لیکن ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای مدبرانہ اور ہوشمندانہ حکمت عملی کی وجہ سے نئے کمانڈرز معین ہوگئے اور چوبیس گھنٹے کے اندر پشیمان کنندہ جوائی کاروائی کر کے ان کے غرور کو خاک میں ملایا۔
تیسرا ہدف ایرانی ایٹمی پلانٹ اور یورنیم کو مکمل ختم کرنا تھا۔ تمام بین الاقوامی اور NPT کے قوانین کی مخالفت کرتے ہوئے جنگی جنایت کا مرتکب ہوا جس کےلیے جدید ترین جنگی جہازوں کا استعمال کیا اور ایران کی تین اہم جگہوں اصفہان، تہران، نطنز پر حملہ کیا، لیکن اس ہدف میں نہ صرف کامیاب ہوا، بلکہ پوری دنیا سے طنز و طعنوں اور عالمی مذمت کا سامنا کرنا پڑا اور خود ان کے میڈیا نے مکمل اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ اس حملے سے ایران کے ایٹمی پروگرام کو کچھ نقصان نہیں ہوا، بلکہ پہلے سے زیادہ اس میں آگے بڑھنے کے لیے موقع مل گیا۔
ایک اور ہدف نظام جمہوری اسلامی کا تختہ الٹنا تھا۔ جس کےلیے موساد، سی آئی اے نے منافقین کے ساتھ ملکر جو چالیس سال بیٹھ کر پروگرام بنایا تھا۔ اس جاسوسی نیٹورک (جس میں ہزاروں جاسوس شامل تھے) بارہ دنوں میں پکڑنا اسرائیل کےلیے کوئی کم نقصان نہیں ہے۔ یہ ایران کی سیکیورٹی کامیابی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس نیٹ ورک نے اسلحہ ساز فیکٹریوں سے لیکر سائیبر سپیس ہیکر کی تربیت تک، سائنٹسٹ اور کمانڈرز کی ٹارگٹ کلنگ سے لیکر حساس جگہوں کی نشاندہی تک، تعلیمی اداروں سے لیکر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں اپنی جگہ بنانے تک، فضائی، دریائی اور سیکیورٹی انفارمیشن سے لیکر معاشیات اور کرنسی کی نشیب و فراز تک رسائی حاصل کی تھی، لیکن اس جنگ کی برکت سے یہ نیٹ ورک پکڑا گیا۔ جس سے پہلے مختلف ایشوز کو مد نظر رکھ کر کسی بھی صورت میں ان پر ہاتھ نہیں رکھا جا سکتا تھا۔ اس وجہ سے اکثر لوگ ایران کی سیکیورٹی پالیسیز پر سوال کرتے ہیں۔ جنگ کی برکتوں میں سے ایک دشمن کی سیکیورٹی قابلِ ذکر شکست ہے۔
اس کے بدلے میں انقلابِ اسلامی آپریشن وعدہ صادق 3 کی اکیسویں لہر تک مختلف میزائیل کے ذریعے اسرائیل جیسے سرطان کو جو شکست ملی ہے وہ تاریخ میں پہلی بار ہے۔ جو معلوماتی، اقتصادی، علمی، ٹیکنالوجی، سکیورٹی، جنگی اور نفسیاتی طور پر مغربی تمدن خصوصاً امریکہ و اسرائیل کی شکست ہے۔ دوسری طرف ملت اسلامیہ کے عوام میں ایک خوشی کی لہر دوڑی اور ملت اسلامیہ کو ایک پیج پر لایا۔ تیسری بات یہ کہ ایران میں موجود تمام تر سیاسی، عوامی اور نسلی اختلافات اپنے اختتام کو پہنچے۔ عوام نے اتحاد و قومی وحدت، ایثار و قربانی، حماسہ و شجاعت اور وطن پرستی اور نظامِ اسلامی کے ساتھ حمایت کی ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔









آپ کا تبصرہ