آج یہ خوشخبری سن کر کروڑوں امن پسند اور صلح جو انسانوں کو بڑی راحت و مسرت حاصل ہوئی ہوگی کہ ایران اور اسرائیل کی جنگ حدود دس دنوں تک مسلسل جاری رہنے کے بعد اب موقوف ہوگئی ہے یا تھم گئی ہے۔ اگرچہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل اور ایران کے درمیان ’مکمل جنگ بندی‘ کا دعویٰ کیا ہے تاہم اسرائیل اور ایران نے ابھی تک جنگ بندی کی تصدیق نہیں کی ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی کا کہنا ہے کہ اگر اسرائیل اپنی غیر قانونی جارحیت بند کر دیتا ہے تو ایران کا اس کے بعد ردعمل جاری رکھنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔اس بات کا ندازہ تو جنگ شروع ہونے کے کے پہلے ہی ہفتہ کے آخری لمحات میں لگایا جانے لگا تھا کہ یہ جنگ جسے اسرائیل نے شروع کی ہے بہت جلد ختم ہونے والی ہے کیونکہ کیونکہ اسرائیل کے ہتھیاروں کے ذخائر ختم ہو رہے تھے اور اس کے پاس پندرہ بیس دن سے زیادہ لڑنے کے لئے سامان نہیں تھے جبکہ ایران کے پاس تین سال تک جنگ کرنے کے لئے وافر مقدار میں جنگی اسلحے موجود تھے۔اس لئے اسرائی بار بار امریکہ سے جنگ بند کرانے کی درخواست کررہا تھا۔چنانچہ اسرائیل کی درخواست پر کچھ درامائی انداز میں امریکہ جنگ میں کودنے اوراور پھر جنگ بندی کرانے کا فلمی رول ادا کیا جسے دونو متحارب ملکوں نے قبول بھی کرلیا۔یہ کوئی حیرت اور تعجب کی بات نہیں ہے ۔یہ تو ہونا ہی تھا۔جو کل ہونا تھا وہ آن ہوگیا۔اچھا ہی کہا جائے گا۔
اب جنگی بھی کھاتہ لکھنے والے ماہرین ریاضیات دن و رات یہ حساب لکھتے رہیں گے اور گلی کوچوں کے نکڑوں اور چوراہوں پر ہوٹلوں میں بیٹھے ہوئے الگ الگ ٹکڑیوں میں بٹے ہوئے لوگ بحث و مباحثہ کریں گے کہ کس نے کیا پایا اور کس نے کیا کھویا۔کون جیتا اور کون ہارا۔کس کا زیادہ نقصان ہوا کس کا کم نقصان ہوا۔یہ سب باتیں تو ہوتی رہیں گی مگر اتنی بات تو سب کو ماننی پڑے گی اتنی تباہی و بربادی اور اتنی خراب حالت اسرائیل کی کی اس کے معرض وجود میں آنے کے بعد سے ابتک کبھی نہیں ہوئی تھی۔اور ایران نے اپنے قابل در سیاسی و مذہبی لیڈروں ،ماہر و تجربہ کار اعلیٰ کمانڈروں،سائنسدانوں ،انجینیئروں اور سیکڑوں شہریوں کی شہادت کا ؑظیم صدمہ برداشت کرنے بعد بھی اپنی شجاعت و استقامت ،غیرت و ہمیت اور فتح و ظفر کی ایسی نئی تاریخ رقم کردی ہے جو صدیوں تک تاریخ کی کتابوں میں سنہرے حرفوں میں درج کی جائے گی۔
ایران نے اپنی جنگی حکمت عملی کے ذریعہ دنیا کو ’’جیو اور جینے دو ‘‘کا لازوال کربلائی پیغام دیا ہے۔نیز نام نہاد اسلامی ممالک کے دنیا پرست حکمرانوں کو اسلامی اخوت و یکجہتی کی ضرورت و اہمیت کا احساس دلایا ہے۔ایران نے باوقار انسانوں کو کو خوش کیا ہے تو اسرائیل نے انسانیت و شرافت کو شرمسار کیا ہے۔ایران کا پرچم آسمان کی بلندیوں میں لہراتا رہا اور اسرائیل کا جھنڈا خود اسرائیل میں حکومت مخالف یہودیوں نے جلایا۔یہ بات قابل زکر اور لائق غوروفکر ہے کہ اسرائیل نے ایرانی لیڈر شپ پر حملے کئے،فوجی تنصیبات پو حملے کئے،شہرو کو کے ساتھ ساتھ شہریوں پر ھملے کئے جس سے جانی نقصانات زیادہ ہوئے ہیں۔اور ایران نے مکینوں سے خالی خولی پڑے مکانوں عمارتوں پر حملے کئے جن سے فلک بوس عمارتیں تو زمیں بوس ضرور ہوگئیں مگر یہ تو پھر تعمیر ہوجائیں گی مگر جو ایرانی لیڈروں،کمانڈروں،سائنسدانوں،انجینیئروں، اور شہریوں کی بیش قیمت جانیں تلف ہوئی ہیں وہ تو واپس نہیں آ سکتیں ۔مگر ہاں اللہ کی ذات سے’’ نعم البدل‘‘ کی توقع کرنا بھی بے جا نہیں ہے۔
بیشک جنگ کوئی اچھی چیز نہیں ہے ،مگر اس جنگ پر ساری دنیا کی نظریں جمی ہوئی تھیں ۔اس جنگ میں ایک طرف ایران ہے جو اسلامی انقلاب کے قیام کے بعد سے ہی مسلسل برسوں تک غیر ملکی جنگوں میں الجھایا گیا۔ امریکہ واسرائیل کی طرف سے عالمی اقتصادی و معاشی پابندیاں عائد کی گئیں جو ہنوز جاری ہیں۔ دوسری طرف اسرائیل ہے جس کے پاس امریکہ و یوروپ کے جدید ترین ٹیکنالوجی کے بنے ہوئے اسلحے ہیں،جو غزہ و فلسطین کے مظلوم و مستضعف مسلمانوں پر نسل کشی کا مانا ہوا مجرم ہے۔جس کو اس کے آقا امریکہ کی مکمل ححمایت و کمک حاصل ہے۔دونوں میں بظاہر زمین و آسمان کا فرق ہے۔مگر ایران نے اسرائیل کے ساتھ جنگ میں اپنی علمی،ادبی،سائنسی،اور فوجی حکمت عملی کا جو دلیرانہ شاندار مظاہرہ کیا ہےاس سے ساری دنیا انگشت بدنداں ہے۔میں کہتا ہوں ایران نے نبی ٔو علیؑ کی روح کو خوش کردیا۔رہبر معظم کی طرف منسوب یہ جملہ بھی سوشل میڈیا میں گردش کررہا ہے کہ ’’ایران کے میزائلوں نے دنیا کے باوقار لوگوں کو خوش کردیا‘‘۔کروڑوں مسلمانوں کے زخمی دلوں کو خوشیوں سے بھر دیا۔کیونکہ غاصب و ظالم اسرائیل کو ایران نے بقول آیۃ اللہ خامنہ ای عبرتناک سزادی ہے۔ایران نے امریکہ واسرائیل کے خلاف سیاسی اور جنگی محاز پر پہلے بھی متعدد بار جیت کے پرچم لہرائے ہیں مگر اس وقت کی نوعیت سب سے جدا ہے جس کے پیش نظر علامہ اقبال کا یہ شعر تمام عالم اسلام سے بالخصوص داد تحسین کا طالب ہے:۔
تہران ہو گر عالم مشرق کا جنیوا
شاید کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے
انقلاب اسلامی ایران نے ایک بار پھر ثابت کر دکھایا کہ ’’ہم کسی سے کم نہیں‘‘۔ہمارے اندر دنیا کی حکمرانی اور قیادت کی خدادا صلاحیت موجود ہے مگر ایران کے نزدیک دنیاوی حکمرانی کوئی معنی نہیں ہے۔ ایران کے انقلاب اسلامی کا اصل مقصد انقلاب امام مہدی ؑکی راہ ہموار کرنا ہے۔منجی عالم بشریت کے ظہور پرنورسے ساری دنیا میں ظلم و جور کا خاتمہ اور عدل وانصاف کے قیام کا منظر اپنی آکھوں سے مشاہدہ کرنا ہے۔حقیقی دین اسلام کا کل جہان پر غالب ہونےکا قرانی وعدہ کو سچ ثابت ہوتے ہوئے دیکھنا ہے۔
ایران اسرائیل کی جنگ کے دوران ایران کی شجاعت و بہادری کا سکہ پوری دنیا پر جم گیا ہے۔56 نام نہاد مسلمان ملکوں کے بے حیا و بے غیرت حکمران بجائے اپنے اسلامی برادر ملک ایران کی مدد کرتے سب غاصب و ظالم یہودی ملک اسرائیل کی مدد کررہے تھے اور کررہے ہیں۔اور جس طرح جنگ خندق میں منافقین سرجھکائے ہوئے بجائے مولا علیؑ کی فتح کے لئے دعاء کرنے کے عمروبن عبدود کی کامیابی کی تمنا کرتے تھے اسی طرح اکثر مسلم حکمران اسرائیل کی کامیابی کی تمنا کرتے تھے۔ ان سب منافقین کے منہ کالے پڑگئے۔سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر یہ عوامی جملہ کافی گردش کررہا ہے’’۵۶ مسلمان بہنوں کا اکلوتا بہادرمومن بھائی ۔۔۔‘‘۔
کچھ غیر مسلم حکمران جو مسلم دشمنی میں اپنی پہچان بنانے میںآئے دن سرخیوں رہتے ہیں جن کا کہنا تھا ’’ایسے ملاؤں کو کوئی اہمیت دینے کی ضرورت نہیں ہے‘‘ان کے منہ پر بھی لگام لگ گئی ہے ۔یا ایسا طمانچہ پڑا ہے کہ آئینہ میں اپنا کٹا پیٹا ،بد شکل ،منحوس چہرہ دیکھنے میں خوف کھاتے ہیں۔
کچھ عقل کے اندھے اور ایمان کے کچے لوگ جو جنگ کے شروعاتی لمحوں میں کہہ رہے تھے کہ ایرا ن کہاں اور اسرائیل و امریکہ کہاں
۔ایران بھلا کتنے گھنٹے جنگ میں ٹک سکتا ہے ؟اب وہ کہہ رہے ہیں ایران نے تو اسرائیل کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔ تعجب ہے ایران میں اتنی طاقت کہاں سے آگئی کہ جنگ کا ایک عشرہ تمام ہوگیا ۔اسرائیل کے ہتھیاروں کےگودام ختم ہو رہے ہیں مگر ایران مسلسل اسرائیل کو دھول چٹا رہا ہے او راسرائیل کو شکست پر شکست دے رہا ہےاور خو دہرروز نئے نئے انداز میں نئی نئی جنگی فتح و ظفر کی تاریخ رقم کررہا ہے۔لوگ پوچھتے ہیں ایران کو ایسے ایسے خطرناک میزائیل کہاں سے مل گئے جو امریکہ کے اسلحوں کو بھی ناکارہ بنا دیتے ہیں۔میں کہتا ہوں اولاً یہ بات وہی سمجھ سکتے ہیں جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں جب کہ دوران جنگ اسلامی جمہوری ایران کے صدر کا ایمان افروز یہ بڑا دعویٰ بھی سامنے آیا ہے کہ ’’غیبی مدد آرہی ہے‘‘۔قرآن مجید میںواقعہ بدرواحد و خیبر و خندق اور ابابیل اور اصحاب فیل کا واقعہ پڑھو تو سب سمجھ میں آجائے گا کہ جاری جنگ میں غیبی مدد کیسے آتی ہے۔ثانیاً اس طرح کے سوال سے امریکہ و اسرائیل کی کھوکھلی طاقت کا پردہ فاش ہوتا ہے جن کا دعویٰ ہے کہ ہم ایران کے آسمان اور چپہ چپہ پر نگاہ رکھے ہوئے ہیں کیا ان کو بھی نہیں معلوم کہ ایران کو کہاں سے مدد آرہی ہے؟
سوشل میڈیا میں گشت کرتی ہوئی خبروں کے مطابق اسرائیل کے پاس جنگ کرنے کے لئے آٹھ دس دن سے زیادہ کے لئے کارآمد اسلحے نہیں تھے اس کے ہتھیاروں کا ذخیرہ ختم ہو رہا تھا ۔ جبکہ ایران کے پاس اتنے میزائیل اور اسلحے ہیں کہ تین سال تک جنگ لڑ سکتا ہے۔تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا شیطان بزرگ امریکہ اپنے شاگرد شیطان کوچک اسرائیل کو خود تباہی و بربادی کےغار میں ڈھکیل رہا ہے۔جیسا کہ امریکہ کا ریکارڈ رہا ہے کہ جس نے اس سے دوستی کہ وہ برباد ہوگیا۔اس حوالہ سے امام خمینی کا قول بھی مشہور ہے کہ ’’امریکہ کی دوستی سے ڈرو دشمنی سے نہیں‘‘۔
ایران کے اندر اور باہر موساد نے ایران کے خلاف دہشت گردوں کا بڑا نیٹ ورک بچھا رکھا تھا جس سے جنگ کے ابتدائی مراحل میں ایران کے جانی و مالی نقصات زیادہ ہوئے مگر الحمد للہ اب وہ بھی غدار ،زرخرید ایجنٹ ادھر ادھر بھاک کر گوشہ عافیت کی تلاش میں سرگرداں ہیںاور دوسرے دوسرے ملکوں میں چھپنے کے لئے پناہ گاہیں ڈھونڈھ رہے ہیں۔اور اب ایران بھی بھی غداروں اور جاسوسوں کو ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر گرفتار کر رہا ہے اور عبرتناک سزائیں بھی دے رہا ہے۔ان شاءللہ جنگ کے خاتمہ کے بعد ایران منافقوں ،غداروں اور جاسوسوںکی گرفتاری پر خصوصی توجہ مبذول کرے گا کیونکہ حالیہ جنگ میں ایران کے سب سے زیادہ نقصان ان ہی خفیہ دشمنوں کے ذریعہ ہوا ہے۔
مجمع علماءوواعظین کی جانب سے ہم ایران و اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کی کوششوں کا خیر مقدم کرتے ہیں اور رہبر معظم آیۃ اللہ خامنہ ای حفظہ اللہ اورایران کے غیور و طاقتور ایرانی حکومت و عوام کو اس کی لاجواب ہمت و بہادری اور کامیاب جنگی حکمت عملی پر تہ دل سے تہنیت و مبارکباد پیش کرتے ہیں۔
خیر اندیش: مولانا ابن حسن املوی واعظ
سربراہ مجمع علماء و واعظین پوروانچل انڈیا
۲۴؍جون ۲۰۲۵ء









آپ کا تبصرہ