تحریر: محمد موسیٰ احسانی
حوزہ نیوز ایجنسی| لغت میں کسی چیز یا شخص کے قصد یا ارادہ کرنے کو زیارت کہا جاتا ہے اور عرف میں کسی شخص کے پاس اس کی تکریم و تعظیم اور عزت کی وجہ سے اس کا تقرب پانے کے لئے حاضر ہونا اس شخص کی زیارت کہلاتا ہے۔ [1]
معصومین علیہم السلام اور ان کے علاوہ دوسری ہستیوں کی تکریم و تعظیم کے لئے انہیں سلام کرنے کے قصد سے ان کے روضۂ مطہر یا ان کے دفن ہونے کے مقام پر حاضر ہونے سے ان کی زیارت متحقق ہوتی ہے ۔ اس کے علاوہ معصومین علیہم السلام کی دور سے زیارت کرنے، امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی طرف توجہ کرنے اور آپ کی خدمت میں سلام پیش کرنے پر بھی زیارت کا اطلاق ہوتا ہے ۔ زیارت کرنے والے کو ’’زائر ‘‘ اور جس کی زیارت کی جائے اسے ’’مزور‘‘ کہا جاتا ہے اور جن کلمات کے ذریعہ معصومین علیہم السلام کی زیارت کی جاتی ہے انہیں ’’زیارت‘‘ کہا جاتا ہے ، جیسے زیارت جامعۂ کبیرہ اور زیارت عاشورا ۔[2]
[1] ۔ المصباح المنير ومجمع البحرين، کلمہ « زور ».
[2] ۔ فرهنگ فقه فارسى: ج 4 ، ص 326
زیارت کی اہمیت:
زیارت مادی و معنوی مشکلات کو حل کرنے ، معنوی حیات تک رسائی حاصل کرنے اور بند روحانی دروازوں کو کھولنے کا اہم ذریعہ ہے ۔ انسان زیارات کے ذریعہ اپنے دل کی تاریکی کو جلا بخش سکتا ہے اور ظلمت و تاریکی کی دنیا سے دور ہو کر عالم نور تک پہنچ سکتا ہے ۔ زائرین کے وجود کی گہرائیوں پر زیارت کا ایسا اثر ہوتا ہے کہ وہ انہیں خدا سے نزدیک کرتے ہوئے اہل بیت علیہم السلام کی بارگاہ کا مقرب بنا دیتی ہے۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:« الزيارة تنبت المودّة ».[1]«زیارت ؛ انسان کے وجود میں مودت پیدا کرتی ہے »۔
مودّت کے معنی کو مدنظر رکھتے ہوئے زیارت کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے ، کیونکہ مؤدت سے وہ شدید محبت مراد ہے جو کسی شخص کو اس کے محبوب کا مقرب بنا دیتی ہے اور اسے اس سے نزدیک کر دیتی ہے.
چونکہ مودت انسان کو محبوب سے نزدیک کر دیتی ہے ، اسی وجہ سے خداوند کریم نے اپنے حبیب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے ’’مودت‘‘ کو اجر رسالت قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے : «قُلْ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى»۔ [2] «آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کا کوئی اجر نہیں چاہتا ، علاوہ اس کے کہ میرے اقربا سے محبت کرو »۔
ہم اپنے مذکورہ بیان سے یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ ہم اہل بیت علیہم السلام کی زیارت کے ذریعہ اپنے وجود میں مودّت پیدا کر سکتے ہیں اور اس میں اضافہ بھی کر سکتے ہیں کہ جو اجر رسالت ہے ۔ کیونکہ روایت میں «تنبتالمودّة » کا معنی مودت پیدا کرنا ہیں ، اور مودت کے ہوتے ہوئے زیارت کرنا یقیناً اس میں اضافہ کا باعث ہے۔
پس ہم زیارت کے ذریعہ اپنے دل میں ان بزرگ ہستیوں کی مودّت پیدا کر سکتے ہیں اور اس مودّت میں اضافہ بھی کر سکتے ہیں ۔
اس بنا پر ’’مودّت ‘‘ اجر رسالت کی ادائیگی کا ایک ذریعہ ہے ، جو اہل بیت علیہم السلام کی زیارت سے حاصل ہوتی ہے ۔ یہ واضح سی بات ہے کہ زیارت ایسے کی جانی چاہئے ، جس سے زائر کے دل میں اہل بیت علیہم السلام کی محبت پیدا ہو ۔
اہل بیت علیہم السلام کی زیارت کی عظمت کو دیکھتے ہوئے ہمیں اس عظیم نعمت کی قدر کرنی چاہئے اور ان بزرگ ہستیوں کے حرم میں حاضر ہو کر اپنے دل میں ان کی شدید محبت اور مودت کو جگہ دینی چاہئے اور اس طرح خود کو ان معصوم ہستیوں کی الٰہی حکومت کے لئے تیارکرنا چاہئے اور اپنے دل و جان سے جلد از جلد حضرت امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی حکومت کے قیام کے لئے دعا کرنی چاہئے تا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا عالمی اجر رسالت ادا ہو سکے ۔
[1] ۔ بحار الانوار : ج 74 ، ص355.
[2] ۔ سورهٔ شورىٰ ، آيت : 23
قرآن کی نظر میں معصومین علیہم السلام اور تمام اولیائے خدا کی زیارت:
جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ سورۂ توبہ کی 84ویں آیۂ شریفہ «وَلاَ تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُم مَاتَ أَبَداً وَلاَتَقُمْ» واضح طور پر دلالت کرتی ہے کہ خداوند متعال نے کفار پر نماز پڑھنے اور ان کی قبروں کے پاس کھڑے ہونے سے منع کیا ہے ۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ خداوند کریم نے مؤمنین پر نماز پڑھنے، ان کی قبروں کے پاس جانے اور بالخصوص معصومین علیہم السلام کی قبروں کے پاس جانے سے منع نہیں کیا ، بلکہ یہ جائز اور پسندیدہ عمل ہے ، اور دوسرے دلائل کی بنیاد پر اولیاء خدا کی زیارت دین کے شعائر میں سے ہے ۔
بعض علماء نے اس آیۂ شریفہ میں کلمہ «لا تصلّ»کا ترجمہ یہ نہیں کیا کہ’’نماز نہ پڑھو‘‘، بلکہ کہا ہے کہ «لا تصلّ»سے یہ مراد ہے کہ کفار کی قبروں کے پاس درود اور صلوات نہ بھیجو ۔ اس بنا پر آیۂ شریفہ کا مفہوم یہ ہے کہ صلاۃ سے مراد مؤمنین کی قبور کے پاس مطلق طلب رحمت ہے ، نہ کہ یہ نماز میت سے مخصوص ہے ۔ اس بات کی مزید وضاحت کے لئے اس قول پر توجہ فرمائیں :قبرستان میں جانا اور مومنین کی قبروں کے پاس کھڑے ہو کر ان پر درود بھیجنا، یعنی قرآن کے مطابق ان کے لئے خدا سے رحمت طلب کرنا، قرآنی آیات کی بنیاد پر یہ عمل رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زندگی کا اہم حصہ ہے ، کیونکہ اس آیۂ شریفہ «وَلاَ تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَداً وَلاَ تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ»[1] میں آنحضرت کو منافقین کے سلسلہ میں اس کام سے منع کیا گیا ہے اور اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مؤمنین کے سلسلہ میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی یہ سیرت رہی ہے کہ آپ مؤمنین کی قبروں کے پاس کھڑے ہو کر ان کے لئے دعا کرتے تھے اور ان پر صلوات بھیجتے تھے ۔ اگر کوئی کہے کہ اس سے دفن کے وقت قبر کے پاس کھڑے ہونا مراد ہے نہ کہ دفن کے بعد زیارت کے لئے کھڑے ہونا تو اس کے جواب میں ہم کہیں گے :
اوّلاً : لفظ «وَلاَ تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ»مطلق ہے ، لہذا اس میں قید اور تخصیص کے لئے کسی دلیل کا ہونا ضروری ہے ۔
ثانیاً : جملہ «وَلاَ تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ» میں واو عاطفہ کی وجہ سے اس میں لفظ «ابداً»تقدیر میں ہے اور اب اس کا معنی یوں ہو گا : ابداً یعنی کبھی بھی اس کی قبر کے پاس کھڑے نہ ہو ۔ یعنی کسی بھی وقت وہاں کھڑے نہ ہو ۔ پس اس میں دفن کے بعد زیارت کے لئے کھڑے ہونا (جیسا کہ رائج ہے کہ ہفتہ میں ایک مرتبہ ، یا مرحوم کے چہلم ، برسی یا دوسرے اوقات میں اس کی قبر پر جانا) بھی شامل ہے ۔ چنانچہ اگر کوئی اپنے غلام سے کہے : «لا تطعم زيداً ابداً ولاتسقه» تو ’’واو‘‘عاطفہ کے حکم سے اس کا معنی یہ ہو گا کہ «ولاتسقه ابداً» یعنی زید کو ہرگز طعام نہ دو ، ہرگز کسی بھی وقت اسے سیراب نہ کرو ۔ ہم نے جو دو وجوہات بیان کی ہیں، شاید انہی کی بنا پر تفسیر جلالین میں اس آیت کی تفسیر و توضیح میں یوں بیان کیا گیا ہے : «چاہے دفن کے لئے اور چاہے زیارت کے لئے (کھڑے مت ہو )»[2]اور جس طرح قیام سے کھڑے ہونا مرادہے ، اسی طرح صلوات سے طلب رحمت مراد ہے نہ کہ نماز میت ، کیونکہ اگر اس سے صرف نماز میت مراد ہوتی تو لفظ «ابداً»لغو ہو جاتا ، کیونکہ یہ واضح ہے کہ نماز میت صرف ایک مرتبہ ہے اور پوری عمر میں اسے تکرار نہیں کیا جاتا کہ جس کے لئے لفظ «ابداً» کی ضرورت ہوتی... ۔»[3]
قرآن پاک کی کچھ دوسری آیات بھی لوگوں کو معصومین علیہم السلام اور تمام اولیاء کی زیارت کی تشویق دلاتی ہے ، جیسے یہ آیۂ مبارکہ : «وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوب »[4] ’’اور جو بھی خدا کی نشانیوں کی تعظیم کرے گا ، یہ تعظیم اس کے دل کے تقویٰ کا نتیجہ ہو گی‘‘۔اور اسی طرح یہ آیۂ شریفہ « فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَنْ تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ »[5] ’’یہ چراغ ان گھروں میں جن کے بارے میں خدا کا حکم ہے کہ ان کی بلندی کا اعتراف کیا جائے اور ان میں اس کے نام کا ذکر کیا جائے ‘‘۔یہ واضح سی بات ہے کہ معصومین علیہم السلام اور تمام اولیائے الٰہی کے حرم کی تعظیم گویا سب سے بزرگ شعائر الٰہی کی تعظیم ہے اور ان کے حرم خدا کی نشانیاں ہیں اور یہ ایسے گھر ہیں جہاں خدا نے اذن دیا ہے کہ اس کا نام لیا جائے ۔ائمہ اطہار علیہم السلام اور تمام اولیاء الٰہی کی زیارت پر دلالت کرنے والی مذکورہ آیات کے علاوہ سینکڑوں ایسی روایات بھی موجود ہیں جو ان ہستیوں کی زیارت کی عظمت اور اس کے حیات بخش دنیوی و اخروی آثار کو بیان کرتی ہیں ۔
[1] .« اور خبردار ان میں سے کوئی مر بھی جائے تو اس کی نماز جنازہ نہ پڑھئے گا اور اس کی قبر پر کھڑے بھی نہ ہوئیے گا »؛ سورۂ توبه، آیت :84
[2] . الجلالين : 266، سورۂ توبہ کی 84ویں آیت کی تفسیر کے ذیل میں.
[3] . حديث غدير و مسئله ولايت : 225 تا 228
[4] . سورهٔ حج ، آيت : 32
[5]. سوره نور، آيت :63
قرآن کی نظر میں کفار اور منافقین کی زیارت
زیارت کا مطلب ہے کسی شخص سے ملاقات کرنا یا کسی کی تعظیم و تکریم کے لئے اس کی قبر پر حاضری دینا ۔ کفار اور منافقین کی قبروں پر حاضری دینا اور ان کی زیارت کرنا جائز نہیں ہے ،جس طرح منافقوں اور کافروں کے جنازے پر نماز پڑھنا حرام ہے۔
خداوند متعال قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے :
«وَلا تُصَلِّ عَلى أَحَدٍ مِنْهُمْ ماتَ أَبَداً وَلا تَقُمْ عَلى قَبْرِهِ إِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَماتُوا وَهُمْ فَاسِقُونَ...»[1]
«اور خبردار ان میں سے کوئی مر بھی جائے تو اس کی نماز جنازہ نہ پڑھئے گا اور اس کی قبر پر کھڑے بھی نہ ہوئیے گا کہ ان لوگوں نے خدا اور رسول کا انکار کیا ہے اور فسق کی حالت میں دنیا سے گزر گئے ہیں»۔
اس آیت کے بارے میں يوسف بن ثابت نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت کیا ہے کہ آپ نے فرمایا :
عَنْ أَبِي أُمَيَّهًَْ يُوسُفَ بْنِ ثَابِتِ بْنِ أَبِي سَعِيدَهًَْ عَنْ أَبِي عَبْدِاللَّهِ علیہ السلام... ثُمَّ قَالَ: وَ اللَّهِ لَوْ أَنَّ رَجُلًا صَامَ النَّهَارَ وَقَامَاللَّيْلَ ثُمَّ لَقِيَ اللَّهَ عَزَّوَجَلَّ بِغَيْرِ وَلَايَتِنَا أَهْلَ الْبَيْتِ لَلَقِيَهُ وَهُوَعَنْهُ غَيْرُ رَاضٍ أَوْ سَاخِطٌ عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ وَذَلِكَ قَوْلُ اللَّهِعَزَّوَجَلَّ «وَلا تُصَلِّ عَلى أَحَدٍمِنْهُمْ ماتَ أَبَداً وَلا تَقُمْ عَلىقَبْرِهِ إِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَماتُوا وَهُمْ فَاسِقُونَ.وَلاتُعْجِبْكَ أَمْوالُهُمْ وَأَوْلادُهُمْ إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ أَنْ يُعَذِّبَهُمْ بِها فِيالدُّنْيا وَتَزْهَقَ أَنْفُسُهُمْ وَهُمْ كافِرُونَ». [2]،[3]
أبو اميّه يوسف بن ثابت بن ابى سعيده نے حضرت امامصادق علیہ السلام سے روايت کیا ہے کہ :... آپ نے فرمایا : خدا کی قسم! اگر کوئی شخص دن میں روزہ رکھے اور رات بھر خدا کی عبادت کرے اور پھر خدائے عزّوجل سےہماری ولایت کے بغیر ملاقات کرے تو اس نے خدا سے اس حال میں ملاقات کی کہ وہ اس سے راضی اور خوشنود نہیں ہے ، بلکہ اس سے ناراض ہے ۔ پھر آپ نے فرمایا :یہ خدائے عزوجل کا ارشاد ہے:«اور خبردار ان میں سے کوئی مر بھی جائے تو اس کی نماز جنازہ نہ پڑھئے گا اور اس کی قبر پر کھڑے بھی نہ ہوئیے گا کہ ان لوگوں نے خدا اور رسول کا انکار کیا ہے اور فسق کی حالت میں دنیا سے گزر گئے ہیں ۔ اور ان کے اموال اور اولاد بھلے آپ کو معلوم نہ ہوں ، خدا ان کے ذریعہ ان پر دنیا میں عذاب کرنا چاہتا ہے اور چاہتا ہے کہ کفر کی حالت میں ان کا دم نکل جائے »۔
حنّان بن سدير نے یہ روايت امام باقر علیہ السلام سے نقل کی ہے :
تَوَفَّي رَجُلٌ مِنَ الْمُنَافِقِينَ فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) إِلَىابْنِهِ: إِذَا أَرَدْتُمْ أَنْ تُخْرِجُوا فَأَعْلِمُونِي. فَلَمَّا حَضَرَ أَمْرُهُأَرْسَلُوا إِلَي النَّبِيِّ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فَأَقْبَلَ علیہ السلام نَحْوَهُمْ حَتَّى أَخَذَ بِيَدِابْنِهِ فِي الْجِنَازَهْ فَمَضَي قَالَ فَتَصَدَّي لَهُ عُمَرُ فَقَالَ: يَارَسُولَ اللَّهِ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) أَ مَا نَهَاكَ رَبُّكَ عَنْ هَذَا أَنْ تُصَلِّيَ عَلَىأَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَداً أَوْ تَقُومَ عَلَى قَبْرِهِ؟ فَلَمْ يُجِبْهُالنَّبِيُّ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) . قَالَ: فَلَمَّا كَانَ قَبْلَ أَنْ يَنْتَهُوا بِهِ إِلَي قَبْرِهِ قَالَعُمَرُ أَيْضاً لِرَسُولِ اللَّهِ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم): أَمَا نَهَاكَ اللَّهُ عَنْ أَنْ تُصَلِّيَعَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَداً أَوْ تَقُومَ عَلَى قَبْرِهِ ذلِكَ بِأَنَّهُمْكَفَرُوا بِاللَّهِ وَبِرَسُولِهِ. وَمَاتُوا وَهُمْ كَافِرُونَ؟ فَقَالَالنَّبِيُّ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)لِعُمَرَ عِنْدَ ذَلِكَ: مَا رَأَيْتَنَا صَلَّيْنَا لَهُ عَلَيجَنَازَتِهِ وَ لَا قُمْنَا لَهُ عَلَي قَبْرِهِ. ثُمَّ قَالَ: إِنَّ ابْنَهُ رَجُلٌ مِنَالْمُؤْمِنِينَ وَ كَانَ يَحِقُّ عَلَيْنَا أَدَاءَ حَقِّهِ. فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: أَعُوذُبِاللَّهِ مِنْ سَخَطِ اللَّهِ وَ سَخَطِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ.[4]
حنان بن سدير نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت امام باقر علیہ السلام سے روایت کیا ہے کہ منافقین میں سے ایک شخص وفات پا گیا۔ رسولخدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کسی کو اس کے بیٹے کے پاس بھیجا اور فرمایا : جب بھی اس کے جنازے کے لئے باہر آنا چاہو تو مجھے اس کی اطلاع دو ۔ جب تشییع جنازہ کا وقت ہوا تو اس نے کسی کو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس بھیجا ۔ آپ ان کے پاس آئے اور تشییع جنازہ میں اس کے بیٹے کا ہاتھ پکڑ کر چلنے لگے ۔ عمر نے آپ کا راستہ روکا اور کہا : یا رسول اللہ ! کیا آپ کے پروردگار نے آپ کو ان میں سے کسی کے جنازے پر نماز پڑھنے اور ان کی قبر پر آنے سے منع نہیں کیا ؟! پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسے کوئی جواب نہ دیا ۔ قبر تک پہنچنے سے پہلے عمر نے ایک مرتبہ پھر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کہا : کیا آپ کے خدا نے آپ کو ان کے مُردوں پر نماز پڑھنے اور ان کی قبر پر آنے سے منع نہیں کیا ؟!انہوں نے خدا اور اس کے رسول کا انکار کیا ہے اور وہ اس حال میں مرے ہیں کہ وہ کافر ہیں ؟ پس پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عمر سے کہا: تم نے ہمیں اس کے جنازے پر نماز پڑھتے ہوئے اور اس کی قبر پر نہیں دیکھا ۔ پھر آپ نے فرمایا : اس کا بیٹا مؤمنین میں سے ہے اور ہم پر اس کا حق ہے جسے ادا کرنا چاہئے ۔ عمر نے کہا : یا رسول اللہ ! میں خدا کے غضب اور آپ کی ناراضگی سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں ۔
عمر نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر اعتراض کیا اور آپ پر تنقید کی ، لیکن چونکہ اس کا اعتراض صحیح نہیں تھا، اس لئے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کی طرف توجہ نہیں دی اور اسے کوئی جواب نہیں دیا۔ لیکن جب اس نے دوبارہ اعتراض کیا تو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا: تم نے ہمیں اس کے جنازے پر نماز پڑھتے ہوئے اور اس کی قبر پر نہیں دیکھا۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس میت کے بیٹے کے پاس کھڑے تھے جو مؤمنوں میں سے تھا، نہ کہ اس میت کی قبر کے پاس کہ جو کافر تھا۔ اس بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے اس عمل سے اس مؤمن کا حق ادا کرنا چاہتے تھے اور اس کی تکریم کرنا چاہتے تھے ، نہ کہ اس کے کافر باپ کے جنازے میں آئے تھے ۔
[1] ۔ سورۂ توبہ ، آیت 84
[2] ۔ سورۂ توبہ ، آیت 84اور 85
[3]۔تفسير اهل بيت:: ج 6، ص 276 ، الكافى: ج 8 ، ص 107.
[4] ۔ تفسير اهل بيت:ج 6، ص278
زیارت سے زائرین کا ہدف:
اہل بیت علیہم السلام کی زیارت سے شرفیاب ہونے والے افراد میں ایمان و اعتقاد اور یقین و معرفت کے لحاظ سے بہت فرق ہوتا ہے ۔اہل بیت عصمت و طہارت علیہم السلام کی ملکوتی بارگاہ میں حاضر ہونے والے بعض زائرین کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ زیارت سے ان کی اپنی ذاتی حاجتیں اور مرادیں پوری ہو جائیں۔ اگرچہ ایسے افراد ان لوگوں کی طرح نہیں ہیں جو سیر و تفریح کی غرض سے مقدس مقامات کی طرف سفر کرتے ہیں،کیونکہ اس سفر میں ان کا مقصد اور ہدف زیارت ہے نہ کہ سیر و تفریح ، لیکن وہ اہل بیت علیہم السلام کے سلسلہ میں اپنی ذمہ داری کو ادا کرنے کے لئے زیارت نہیں کرتےبلکہ وہ اپنی حاجتوں کے حصول اور اپنی مشکلات سے نجات پانے کے لئے زیارت کے لئے جاتے ہیں ۔اہل بیت علیہم السلام کے حرم میں ایسے افراد کا توسل کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ خاندان عصمت و طہارت علیہم السلام کے عظیم مقامِ ولایت کی نسبی معرفت رکھتے ہیں ۔ان کا یہ قلبی اعتقاد اہل بیت علیہم السلام کی ملکوتی بارگاہ میں شرفیاب ہونے اور ان بزرگ ہستیوں سے متوسل ہونے کا باعث بنتا ہے ۔ایسے زائرین کا مشکلات اور پریشانیوں سے نجات پانے کے لئےخاندان وحی علیہم السلام کی قدرت پر یقین رکھنا اس بات کا باعث بنتا ہے کہ وہ ان ہستیوں سے متوسل ہوں اور ان کی کیمیا اثر نگاہ سے ان کی مشکلات حل ہو جائیں اور ان کی حاجتیں پوری ہو جائیں ۔ایسے زائرین اہل بیت اطہار علیہم السلام کے مقامِ ولایت پر نسبی اعتقاد کی وجہ سے زیارت کے ثواب سے محروم نہیں رہتے ، اگرچہ وہ اس نعمت عظمیٰ کی طرف متوجہ نہیں ہوتے لیکن ان پر بھی مقام ولایت کے انوار کی کرنیں پڑتی ہیں جو ان کے دل، روح اور جان پر اثرانداز ہوتی ہیں۔
زیارت کے دو بنیادی نکات اور معرفت کے لحاظ سے زائرین میں فرق زیارت کے بارے میں دو بنیادی نکات کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے:
1:وہ شخصیت جس کی زیارت کی جائے (مزور)۔
2:جو زیارت کرے (زائر)۔
زائر جس شخص کی زیارت کے لئے جائے،اسے اس کی معرفت اور شناخت ہونی چاہئے کیونکہ زیارت میں اس شخصیت کی معرفت کے درجات اس کی زیارت میں بہت زیادہ مؤثر ہیں ۔زیارت کے آثار اور اثرات کو حاصل کرنے کے لئے ان دو نکات کی طرف توجہ کرنا بہت مؤثر ہے ۔جس شخصیت کی زیارت کی جاتی ہے ، چاہے وہ امام ہو اور ولایت و امامت جیسے عظیم مقام کا حامل ہو، یا وہ انبیاء الٰہی اور اولیاء میں سے ہو، جو کوئی بھی ان بزرگوں کی زیارت کے لئے جائے، اسے اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ وہ کس مرتبہ کی حامل شخصیت سے گفتگو کر رہا ہے ؟ وہ کس ذات کی زیارت کر رہا ہے ؟ وہ کس شخصیت سے درد دل بیان کر رہا ہے ؟اب یہ واضح سی بات ہے کہ ان دو نکات کی طرف توجہ کرنے کے لحاظ سے زائرین میں فرق ہوتا ہے ۔ان نکات کی طرف توجہ کرنے سے بہت سی باتیں واضح ہو جاتی ہیں اور اگر کوئی زائر ہمارے ان مذکورہ نکات پر غور و فکر کرے تو وہ یہ جان لے گا کہ وہ اپنی اس زیارت سے مکمل نتائج کیوں حاصل نہیں کر سکا اور اس کی حاجت کیوں پوری نہیں ہوئی ؟









آپ کا تبصرہ