تحریر: مولانا سکندر علی ناصری
حوزہ نیوز ایجنسی| امام خمینی نے نہ صرف نظام ولایتِ فقیہ اور حکومت اسلامی کو پوری دنيا میں متعارف کروایا اور نظام سوسیالیست اور کمیونسٹ سیسٹم پر کاری ضرب لگائی، بلکہ تفکر فلسفہ غرب اور تفکر مادہ پرستی پر بھی ایسا وار کیا کہ آج بھی غرب کے مفکرین اور مادہ پرست امام راحل کی ضرب کا کوئی جواب نہیں دے سکیں اور راہ حل بتانے سے عاجز اور ناتوان رہے ہیں۔
امام خمينی نہ صرف علوم اسلامی فقہی، سیاسی، علوم حدیث و تفسیر تاریخ میں ایک صاحب نظر ماہر ممتاز تھے بلکہ عرفان اسلامی اور فلسفہ غرب اور فلسفہ اسلامی میں بھی آپ کا کوئی ہم پلہ اور ہم نظیر نہیں تھا-آپ نے گورباچوف کو لکھا گیا خط میں دنیا اور کائنات کے متعلق غرب والوں اور ان کے فلاسفر کے افکار اور نظریات کو بہت ہی سادہ اور بہت ہی معمولی مثالوں سے مبھوت اور مغلوب کیا امام نے غرب کو مخاطب قرار دیتے ہو فرمایا کہ یہ بات مسلم ہے سورج سے بھی روشن ہے ناقابل انکار بات ہے کہ مادہ اور جسم جیسا بھی ہو، خود سے بےخبر، بےاطلاع ہے۔ پتھر سے تراشا ہوا مجسمہ یا انسانی مجسمہ ہر طرف سے خود سے بے خبر ہے خود سے بےاطلاع ہے جب کہ اس کے مقابل میں ہم دیکھتے ہیں کہ انسان اور حیوان اپنے اطراف و جوانب سے آگاہ اور باخبر ہیں۔ وہ جانتے ہیں وہ کہاں ہیں اس کے اطراف میں کیا کچھ ہو رہا ہے؟ دنیا میں کیا غوغا برپا ہے؟ یہاں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے انسان اور حیوان دونوں میں کوئی چیز،کوئی شیئ ایسی ہے جو مادہ سے جدا ہے اور عالم مادہ سے بالاتر ہے جسم سے مافوق کوئی چیز ہے اور ماوراء طبیعت کوئی چیز ہے اور عالم مادہ سے الک ہے جو انسان کے مرنے سے مرتی نہیں انسان کا جسم نابود ہونے سے وہ فناء نہیں ہوتی ہے ۔ اس سادہ مثال کے ذریعے امام نے تفکر مادی کو چیلنج کیا یعنی اگر دنیا میں وجود کا معیار مادہ اور مادیات ہیں کیونکہ یہ قابل مشاہدہ ہے یا قابل تجربہ اور آزمائش ہیں تو جوچیز انسان میں ہے پتھر اور مادہ میں نہیں، وه کیاہے؟









آپ کا تبصرہ