تحریر: سید کاشف علی، اسلام آباد
حوزہ نیوز ایجنسی| اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو تادمِ تحریر امریکہ کے دورے پر ہیں، جہاں گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ دو ملاقاتوں کے باوجود کوئی مشترکہ بیان جاری نہیں ہو سکا، جس کی وجہ نیتن یاہو اور ٹرمپ کے درمیان غزہ اور ایران سے متعلق پالیسی اختلافات ہیں۔ نیتن یاہو کے دورے کے دو بڑے مقاصد ہیں : جنگ کے بعد غزہ کے مستقبل کا تعین، اور ایران سے متعلق پالیسی سطح کی فیصلہ سازی۔ دونوں معاملات میں نیتن یاہو ٹرمپ کی مکمل حمایت اور عملی مدد حاصل کرنا چاہتے ہیں، لیکن وہ ٹرمپ کو اپنے موقف پر قائل کرنے میں کامیاب نظر نہیں آ رہے۔
اسرائیلی میڈیا میں شائع متعدد رپورٹس کے مطابق، ڈونلڈ ٹرمپ غزہ میں فوری جنگ بندی کے لیے نیتن یاہو پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔ ٹرمپ چاہتے ہیں کہ اسرائیل نہ صرف قطری دارالحکومت دوحہ میں جاری مذاکرات میں غزہ میں 60 روزہ جنگ بندی پر آمادہ ہو، بلکہ 60 دن کے بعد بھی جنگ دوبارہ شروع نہ کرنے کی ضمانت دے۔ یہ ضمانت حماس نے جنگ بندی کی شرط کے طور پر امریکہ سے طلب کی ہے، جس کے بدلے حماس مرحلہ وار زندہ اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا اور مردہ یرغمالیوں کی باقیات اسرائیل کے حوالے کرے گی۔ غزہ جنگ بندی میں دوسرا اختلافی نکتہ جنگ بندی کے دوران اسرائیلی فوجیوں کی غزہ میں موجودگی ہے۔ حماس غزہ سے اسرائیلی فوج کا مکمل انخلا چاہتی ہے۔ حماس نے ہتھیار ڈالنے سے بھی انکار کیا ہے اور غزہ میں انسانی امداد کو اقوام متحدہ کے زیرِ انتظام تقسیم کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
دوسری طرف، اسرائیل غزہ کی بیس لاکھ سے زائد آبادی کو رفح شہر میں ایک کنسنٹریشن کیمپ کی صورت خیموں میں مقید کرنا چاہتا ہے۔ اسرائیلی وزیر دفاع یسرائیل کاٹز نے کہا ہے کہ پہلے مرحلے میں چھ لاکھ فلسطینیوں کو رفح میں قائم کی جانے والی خیمہ بستی میں اکٹھا کیا جائے گا اور ان کی نقل و حرکت پر سخت نگرانی رکھی جائے گی۔ رفح کا کنٹرول اسرائیلی فوج کے پاس ہو گا اور اسرائیل یہاں پر تمام فلسطینیوں کو اکٹھا کرنے کے بعد دیگر ممالک میں جبری بے دخل کرنا چاہتا ہے۔ اسرائیلی حکام برملا کہہ چکے ہیں کہ اس حوالے سے مختلف ممالک سے اسرائیل کی بات چیت ہو رہی ہے۔ اسرائیل چاہتا ہے کہ حماس کی قیادت ہتھیار ڈال دے، جس کے بعد اسے الجزائر بے دخل کرنے کی اجازت دے دی جائے گی۔ حماس نے اسرائیل کی سرنڈر اور بے دخلی کی پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنگ بندی مزاحمت کی شرط پر ہوگی نہ کہ اسرائیلی شرائط پر، اور حماس کو میدان میں مضبوط پوزیشن حاصل ہے۔
حماس نے غزہ میں مستقبل میں قائم ہونے والی کسی بھی فلسطینی حکومت سے باہر رہنے پر آمادگی ظاہر کی ہے، لیکن اسلحہ ترک کرنے یا غزہ سے انخلا سے انکار کیا ہے۔ ایسی صورت میں اگر فلسطینی اتھارٹی غزہ میں حکومت قائم کرتی ہے تو بظاہر حماس کو اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں۔ لیکن اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ لبنان جیسی صورت حال غزہ میں پیدا نہیں ہونے دے گا، جس کے تحت حزب اللہ سیاسی حکومت سے باہر رہ کر عسکری دباؤ کے ذریعے لبنان میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھے ہوئے تھی۔ اسرائیل غزہ سے حماس کی مکمل تباہی اور اس کی قیادت کی بے دخلی چاہتا ہے۔ جبکہ وہ غزہ کے دو تہائی حصے پر قبضہ کر کے بڑی آبادی کو جبری طور پر بے دخل کرنا اور باقی ماندہ کو رفح میں اذیت ناک کنسنٹریشن کیمپ میں قید رکھنا چاہتا ہے۔ اسرائیلی میڈیا میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق، متعدد عرب ممالک بھی غزہ سے حماس کا مکمل خاتمہ چاہتے ہیں، جبکہ ایک بڑے عرب اسلامی ملک نے ابراہام معاہدے کے ذریعے اسرائیل سے معمول کے سفارتی تعلقات قائم کرنے سے پہلے حماس کے غزہ سے مکمل خاتمے کو لازمی شرط قرار دیا ہے۔
نیتن یاہو نے واشنگٹن میں موجودگی کے دوران ایک بار پھر یرغمالیوں کی رہائی، حماس کی مکمل تباہی اور مستقبل میں غزہ کو اسرائیل کے لیے کوئی خطرہ نہ بننے دینے سے متعلق اپنے اہداف کی تکرار کی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب تک اسرائیل غزہ میں اپنے طویل مدتی اسٹریٹجک اور عسکری مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔
اسرائیل، غزہ میں فلسطینی اتھارٹی کی حکومت کے بھی حق میں نہیں۔ اسرائیل مغربی کنارے اور غزہ میں خودمختار عرب امارات قائم کرنا چاہتا ہے، جن کا سکیورٹی کنٹرول اسرائیلی فوج کے پاس ہو۔ اس حوالے سے الخلیل، نابلس، جنین، رام اللہ، طولکرم، قلقیلیہ اور غزہ میں مقامی عرب قبائل کے ذریعے خودمختار امارات قائم کرنے کا اسرائیلی منصوبہ حال ہی میں سامنے آیا ہے، جسے الخلیل کے اسرائیلی فوج سے وابستہ مشہور عرب قبیلے کے سربراہ شیخ وادی الجابری نے پیش کیا۔ اس میں فلسطینی ریاست کے بجائے خودمختار امارات قائم کرنے اور اسرائیل کے ساتھ ابراہام معاہدے پر دستخط کرنے کا تصور پیش کیا گیا، جسے فلسطینی عوام اور فلسطینی اتھارٹی نے مسترد کر دیا۔ اسرائیل کے ماتحت متعدد خودمختار فلسطینی عرب امارات قائم کرنے کا مقصد فلسطینی وحدت کو پارہ پارہ کرنا، سلامتی کونسل کی قراردادوں کے تحت خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کو ہمیشہ کے لیے دفن کرنا، اور عالمی اداروں و برادری کے ساتھ فلسطین سے متعلق ہونے والے اسرائیل کے عالمی معاہدات اور ان کے تحت قانونی ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کرنا ہے۔
نیتن یاہو کے دورۂ امریکہ کا دوسرا مقصد ایران کے خلاف سفارت کاری کے بجائے فوجی کارروائی کے ذریعے رجیم چینج کی پالیسی کے لیے امریکی حمایت حاصل کرنا ہے۔ نیتن یاہو چاہتے ہیں کہ امریکہ سفارت کاری کے بجائے ایران کے خلاف مزید فوجی کارروائیوں میں اس کا ساتھ دے، اس کا جوہری اور میزائل پروگرام مکمل تباہ کرے اور رجیم چینج میں اسرائیل کی مدد کرے۔ اسرائیل لبنان کی طرح ایران میں بھی اپنی مرضی کے مطابق جب چاہے کارروائی کرنے کی پالیسی کے لیے صدر ٹرمپ کی حمایت چاہتا ہے، جس کے تحت اسرائیل کسی نہ کسی خطرے کا بہانہ بنا کر ایران کے اندر فوجی کارروائی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ لیکن تادمِ تحریر امریکی صدر اس طرح کی کسی پالیسی کی حمایت کرتے نظر نہیں آ رہے۔ صدر ٹرمپ ایران کے ساتھ مذاکرات چاہتے ہیں، کیونکہ وسیع جنگ یا رجیم چینج کی صورت میں معاشی، عسکری اور انسانی سطح پر بھاری قیمت چکانے کے لیے امریکہ تیار نہیں ہے۔ اسی لیے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کے بعد صدر ٹرمپ نے فوراً اہداف کے حصول کا اعلان کیا، جس کا مقصد واضح کرنا تھا کہ امریکہ ایران سے طویل اور بڑی جنگ کا ارادہ نہیں رکھتا۔ دوسری طرف، اسرائیلی فیصلہ ساز سمجھتے ہیں کہ حلیف گروہوں کے کمزور ہونے، بارہ روزہ جنگ میں ائر ڈیفنس سسٹم اور کچھ میزائل لانچرز و پروڈکشن فیکٹریوں کی تباہی سے ایران کمزور پوزیشن میں ہے، اس لیے ایران پر فوجی دباؤ بڑھا کر ایران میں نظام حکومت کا تختہ الٹنے کا یہ بہترین موقع ہے، جسے ضائع نہیں کرنا چاہیے۔
ایران میں لبنان کی طرح کوئی نئی مساوات قائم کرنا اسرائیل کے لیے اس لیے بھی ممکن نہیں کہ ہائپرسونک بیلسٹک میزائلوں کے جوابی حملے کی صورت میں اسرائیل میں بڑی تباہی ہو سکتی ہے۔ اسی لیے اسرائیل کے لیے ایران کے خلاف تنہا کارروائی کرنا ممکن نہیں، اسے امریکہ کی مالی، عسکری اور سفارتی مدد درکار ہے، جس کے لیے نیتن یاہو واشنگٹن، بالخصوص ٹرمپ انتظامیہ میں موجود مضبوط صیہونی لابی کے ذریعے ٹرمپ پر دباؤ بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بظاہر صیہونی ایران کے جوہری پروگرام کا رونا رو رہے ہیں، جس کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ وہ اسے تباہ کر چکے ہیں۔ لیکن اب اصل ہدف ایران کا بیلسٹک میزائل پروگرام اور اس سے بڑھ کر ایران کا انقلابی نظام حکومت ہے۔ اسرائیلی وزیر دفاع برملا کہہ چکے ہیں کہ ایران کا بیلسٹک میزائل پروگرام اس وقت جوہری پروگرام سے زیادہ خطرناک ہے اور امریکہ کو اس پروگرام کو ختم کرنے کے لیے دباؤ بڑھانا چاہیے۔ جبکہ نیتن یاہو ایران کے لیے لیبیا ماڈل کی مثالیں دیتے ہیں، جہاں لیبیا نے رضاکارانہ طور پر جوہری اور میزائل پروگرام ترک کیا، اس کے باوجود وہاں حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا اور معمر قذافی کو قتل کروا دیا گیا۔
13 جون کے حملے میں اسرائیل کا ہدف ایران میں رجیم چینج تھا، جس میں ناکامی کے باوجود صیہونی اب مختلف طریقوں سے اس ہدف کو حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جس کے لیے انہیں امریکی صدر ٹرمپ کی مدد درکار ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ آیا صدر ٹرمپ ایران کے ساتھ سفارت کاری کا راستہ اختیار کر کے چاہتے ہیں کہ انہیں نوبل انعام کے مستحق ایک امن پسند صدر کے طور پر یاد رکھا جائے، یا اپنی انتظامیہ میں موجود آدھ درجن سے زائد مضبوط صیہونی مہروں اور واشنگٹن میں موجود موثر صیہونی لابی کے دباؤ کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے، ماضی کی طرح مستقبل میں بھی امریکہ کے بجائے اسرائیلی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے پالیسیاں مرتب کرتے ہیں؟ ٹرمپ کے ماضی اور فطرت کو مدنظر رکھتے ہوئے وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ ان کے اگلے اقدامات کیا ہوں گے۔









آپ کا تبصرہ