تحریر : رابیل زہراء زینبی
حوزہ نیوز ایجنسی| دنیا میں طاقت آزمائی کا اصول ہمیشہ سے رائج رہا ہے۔ تاریخ میں طاقت اور قوت آزمائی کی ہزاروں مثالیں موجود ہیں؛ ایک معمولی مزدور سے لے کر آدھی دنیا پر حکومت کرنے والے چنگیز خان تک، ہر ایک نے اپنے دائرے میں قوت آزمائی اور طاقت کا مظاہرہ کیا ہے، لیکن تاریخ گواہ ہے کہ ان سب طاقتوں پر حاوی ایک طاقت ایسی بھی ہے جس نے چنگیز خان، ہلاکو خان، مصر کی اسکندری حکومت، اسلامی دنیا میں اموی و عباسی خلافتوں اور بڑی بڑی شہنشاہوں کو مٹی میں ملا دیا، یہ وہ طاقت ہے جسے آج کی دنیا "قلم کی طاقت" یا "Power of Pen" کے نام سے جانتی ہے۔
قلم ہی ہے جس نے انسان کو ذہنی تاریکی سے مقامِ علم و شعور تک پہنچایا، قلم ہی ہے جس کے ذریعے انسان اپنی فکر کو آنے والی نسلوں تک منتقل کرتا ہے، قلم ہی علم کے فروغ کا ذریعہ ہے، قلم ہی کو قرآن اور علمِ حدیث میں سیکھنے اور سکھانے کا ذریعہ اور تحفظِ علم کا وسیلہ کہا گیا ہے، قلم ہی ترقی کا رمز اور ضامن حیات ہے۔
قلم کی اہمیت اور طاقت کو سمجھنے کے لیے یہی کافی ہے کہ قرآن و حدیث میں اس کا کئی مرتبہ ذکر آچکا ہے۔ قرآن کریم کی پہلی وحی "الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِۙ" کے عنوان سے نازل ہوئی۔ اسی طرح قرآن کریم کی ایک اور جگہ خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے: "نٓ ۚ وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُوْنَ". (ن، قلم کی قسم اور جو کچھ وہ لکھتے ہیں)۔
خدا کی کھائی ہوئی قسم، کائنات کی وسعت سے بھی زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ لہٰذا "قلم" کی قسم کھانا ہی اس کی عظمت کے لیے کافی ہے۔ قلم کی طاقت انسان کو لاشعوری سے مقامِ شعور، جہالت سے علم، تاریکی سے روشنی اور وحشت سے مہذب و منصف معاشرے تک لے جاتی ہے۔
صدیوں سے صاحبانِ علم و شعور نے قلم کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ قوم و ملت کی کامیابی کا راز اسی میں ہے کہ قلم سچوں اور دیانت داروں کے ہاتھ میں رہے۔ قلم کا درست استعمال مفید ہے، تو اس کا غلط استعمال نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ اہلِ قلم نے علم، محبت، اخوت اور بھائی چارے کا درس دیا ہے اور انہوں نے اپنی قلمی طاقت کو ہمیشہ ظالموں و جابروں کے خلاف جہاد کے طور پر استعمال کیا ہے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ قلم ہر ہتھیار سے زیادہ مؤثر اور ثمر بخش ہے۔
کہا جاتا ہے: "قلم کی نوک تلوار سے زیادہ تیز ہے۔"
یہ جملہ سب سے پہلے 1839ء میں مشہور ناول نگار اور اداکار ایڈورڈ بلور لٹن (Edward Bulwer-Lytton) نے اپنی کتاب میں لکھا۔ قلم اپنی پوشیدہ طاقت کے باعث ہمیشہ تلوار پر غالب رہا ہے۔ جس طرح ایک جنگجو کا ہتھیار تلوار ہے، اسی طرح ایک عالم و فاضل کا ہتھیار قلم ہے۔ قلم دلوں کو جیتنے کی صلاحیت رکھتا ہے، جبکہ تلوار صرف خوف پیدا کرتی ہے۔ قلم دلیل و برہان سے قائل کرتا ہے، جبکہ تلوار زبردستی کرتی ہے۔ قلم امن کی علامت ہے، جبکہ تلوار دہشت کی۔
قائد اعظم محمد علی جناح فرماتے ہیں:
"دنیا میں دو قوتیں ہیں، ایک تلوار اور دوسری قلم۔ قلم تلوار سے بھی زیادہ طاقتور ہے۔ لہذا اپنے ملک میں علم کو فروغ دیں، دنیا کی کوئی طاقت آپ کو شکست نہیں دے سکتی"۔
قوموں کی ترقی میں قلم کا کردار بنیادی ہے۔ ترقی اور طاقت کے لیے علم اور قلم دونوں ضروری ہیں۔ بلکہ علم، قلم ہی کی کوکھ سے جنم لیتا ہے۔ قلم کے ذریعے ہی انسان فکری ارتقا کی منازل طے کرتا ہے۔ تلوار کے ذریعے وقتی طور پر کسی پر رعب ڈالا جا سکتا ہے، مگر دلوں کی تسخیر قلم سے ہی ممکن ہے۔ قلم کو زبان اور بیان پر برتری حاصل ہے۔
علامہ طبرسی لکھتے ہیں:
"بیان دو طرح کا ہوتا ہے: زبان کا بیان اور قلم کا بیان۔ زبان کا بیان وقت کے ساتھ ختم ہو جاتا ہے، لیکن قلم کا بیان ہمیشہ باقی رہتا ہے۔"









آپ کا تبصرہ