تحریر: مولانا محمد بشیر دولتی
حوزہ نیوز ایجنسی| علمی پیشرفت کے لیے علمی نقد کرنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا انسانی زندگی کے لیے ہوا اور غذا ضروری ہیں؛ علمی نقد سے ذہن کے دریچے اسی طرح کھل جاتے ہیں جیسے دل کی بند شریانیں انجیو پلاسٹی (Angioplasty) سے کھلتی ہیں، علمی نقد میں عام طور پر صاحب نظر شخصیات کے نظریات پر علمی دلائل کے ذریعے نقد کیا جاتا ہے۔
اس نقد کے لیے صاحب نظر کے نظریات سے آگاہی اور اس پر نقد کے لیے علمی انداز میں عادلانہ نقد ضروری ہوتا ہے۔ اس طرح کے نقد کے لیے اصل موضوع پر عبور رکھنے کے ساتھ صاحب نظر کے افکار سے مکمل آگاہی ضروری ہے۔
علمی نقد خود ایک اہم "عمل" اور ہنر ہے جس میں کسی موضوع، تحقیق، یا تحریر کا دقیق جائزہ لیا جاتا ہے تاکہ اس کی مضبوطیوں اور کمزوریوں کا تجزیہ کیا جا سکے۔
چونکہ یہ ایک عمل اور ہنر ہے اس لئے یونیورسٹیوں اور علمی اداروں میں یہ باقاعدہ سکھایا جاتا ہے
اس طرح کے نقد کا مقصد صرف تنقید کرنا نہیں ہوتا بلکہ مواد کی گہرائی میں جا کر اس کی حقیقت کو سمجھنا اور بہتر بنانا ہوتا ہے۔ اس بہتری کے جذبے کے ساتھ یا اس کو باطل قرار دینے کے لیے اسی علم اور موضوع سے ہی دلائل لائے جاتے ہیں۔
موضوع اگر دینی ہے اور اسے رد کرنا مقصود ہو تو دینی مبانی جیسے قرآن و سنت، عقل و اجماع، اور سیرتِ فقہاء کے ذریعے رد کیا جاتا ہے۔
دینی موضوعات سمیت کسی بھی علمی موضوع کو ذاتی رائے اور پسند و ناپسند یا عامیانہ تجزیہ و تحلیل سے ہرگز رد نہیں کیا جا سکتا۔
1. عقلی اور منصفانہ رویہ:
نقد کرتے وقت ہمیشہ غیر جانبدار اور منصفانہ رویہ اپنائیں۔ کوئی بھی تحریر یا تحقیق مکمل طور پر غلط یا مکمل طور پر درست نہیں ہوتی، اس لیے آپ کو دونوں پہلوؤں کو مدنظر رکھنا ہوگا۔ البتہ، اگر کسی بزرگ کے نظریات کو پیش کیا گیا ہے تو جب تک اس کے خلاف مضبوط دلائل نہ ہوں، اسے رد کرنا آسان نہیں ہوتا۔ ایسے میں نقد صاحب تحریر پر نہیں بلکہ صاحب نظر شخصیت کے نظریے پر کیا جاتا ہے۔
2. معلومات کا جائزہ:
جس چیز پر آپ تنقید کر رہے ہیں، اس کی معلومات کو اچھی طرح سے سمجھیں اور اس کے پس منظر کو جانیں۔ صرف سطحی طور پر تنقید کرنا علمی نہیں ہوتا۔ اپنی تنقید کو علمی بنانے کے لیے مخصوص دائرے سے نکل کر دیگر افراد کے نظریات سے مکمل آگاہی حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔
اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ تنقید کرنے سے پہلے تمام متعلقہ مواد اور حوالہ جات کا بغور مطالعہ کر چکے ہوں۔ مطالعے کے بعد تحریر یا تقریر میں موجود مدعا یا نظریہ کو لفاظیت اور جذباتیت سے نکال کر علمی ماحول اور دلائل سے رد کریں۔ اس کے بغیر اپنی طرف سے صغریٰ کبریٰ بنا کر نتیجہ نکالنا علمی دنیا میں مضحکہ خیز سمجھا جاتا ہے۔
3. دلائل کی پیشکش:
نقد میں ہمیشہ دلائل پیش کریں۔ صرف رائے دینا یا ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر تنقید کرنا غیر علمی ہو سکتا ہے۔
آپ کے دلائل مضبوط اور واضح ہونے چاہئیں۔ مثال کے طور پر، اگر آپ کسی تحقیق میں نقص دیکھتے ہیں تو آپ کو وضاحت کرنی ہوگی کہ وہ کیوں اور کس حد تک غلط ہے۔
4. اختلاف رائے کا احترام:
علمی نقد میں آپ کو اختلاف رائے کو احترام کے ساتھ پیش کرنا چاہیے۔ ہر شخص کا حق ہے کہ وہ اپنے نظریات پیش کرے، اور آپ کا مقصد صرف ان کے دلائل کا تجزیہ کرنا ہے۔
تنقید کرتے وقت گالی گلوچ، غیر مہذب زبان یا ذاتیات پر حملے سے بچنا چاہیے۔
5. مطالب کی وضاحت اور تنقید:
نقد کرتے وقت اس بات کا خیال رکھیں کہ آپ کس نکتہ کو واضح کر رہے ہیں اور آپ کی تنقید کس نقطے پر ہے۔ اگر آپ کسی محقق کی تھیوری پر اعتراض کر رہے ہیں، تو آپ کو واضح کرنا ہوگا کہ آپ کس بات پر اعتراض کر رہے ہیں اور کیوں۔
6. قابلیت کا مظاہرہ:
آپ کو علمی سطح پر یہ ظاہر کرنا چاہیے کہ آپ اس موضوع پر ماہر ہیں اور آپ کے پاس نقد کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کو ہر چیز کا عمیق علم ہو، مگر آپ کو اس میدان کے بنیادی اصولوں اور نظریات کا علم ہونا ضروری ہے۔
7. حل تجویز کرنا:
صرف تنقید کرنا کافی نہیں ہوتا۔ آپ کو اس تنقید کے ساتھ ساتھ بہتر حل یا متبادل بھی پیش کرنا چاہیے۔ یہ آپ کی تنقید کو مفید اور تعمیری بناتا ہے۔ فقط نقد کریں مگر اصلاح اور متبادل پیش نہ کر سکیں تو اس نقد کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔
8. زبان اور انداز:
آپ کی زبان سادہ، واضح اور رسمی ہونی چاہیے۔ غیر ضروری پیچیدہ الفاظ اور جملوں سے گریز کریں۔
علمی نقد میں انداز معتدل ہونا چاہیے۔ آپ کو نہ تو زیادہ سخت اور جارحانہ انداز اختیار کرنا چاہیے اور نہ ہی بہت نرم۔ غیر ضروری الفاظ اور طوالت سے اجتناب کریں۔
غیر ضروری اور غیر مربوط لمبی چوڑی تحریر کو قلمی اسہال کہا جاتا ہے۔
9. حقائق کی صحت:
جب آپ کسی تحقیقی یا علمی مواد پر نقد کر رہے ہوں، تو آپ کو اس بات کا یقین کر لینا چاہیے کہ آپ کے پاس جو معلومات اور حوالہ جات ہیں وہ درست اور معتبر ہیں۔ غیر درست معلومات سے آپ کی تنقید کی اہمیت کم ہو سکتی ہے۔
10. توازن:
ایک اچھے نقاد کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہ موضوع کے دونوں پہلوؤں (مثبت اور منفی) پر غور کرے۔ صرف نقائص پر ہی نہیں بلکہ اچھائیوں پر بھی روشنی ڈالنی چاہیے۔
تمام اچھائیوں کو چھوڑ کر کوتاہیوں یا غلطیوں پر ہی بولنا مکھیانہ صفت ہے۔ یہ آپ کو نہ صرف علمی مقام سے گرا دے گا بلکہ اشرف المخلوقات کے دائرے سے بھی شاید نکال باہر کرے گا۔
نتیجہ:
علمی نقد رشد علمی و فکری کے لیے بہت ضروری ہے۔ ایک ناقد صرف ایک تحریر پر ناقد نہیں ہوتا، بلکہ وہ کل زندگی پر ناقد ہوتا ہے۔ وہ عامیانہ سوچ سے بلند ہو کر سوچتا ہے۔ وہ اپنی زندگی میں علم کو شخصیت پرستی، قوم پرستی اور تنظیم پرستی پر فوقیت دیتا ہے۔
علمی ناقد کبھی کسی کی تحقیر و توہین نہیں کرتا، کبھی کسی کی ذات کو مورد بحث قرار نہیں دیتا بلکہ ہمیشہ نظریات و افکار پر گفتگو کرتا ہے۔
علمی ناقد صرف ایک موضوع پر تحقیق نہیں کرتا، بلکہ وہ اپنے اطراف سننے اور دکھائی دینے والی تمام چیزوں، سوچوں، فکروں، رویوں اور فیصلوں پر تحقیق کرتا ہے۔ وہ ہمیشہ جذبات اور دلبستگی کے دائرے سے نکل کر عاقلانہ، مدبرانہ اور مہذبانہ بنیادوں پر آزادانہ وابستگیوں کے ذریعے زندگی بسر کرتا ہے۔ایک ناقد یا محقق کبھی بھی اندھی تقلید نہیں کرتا نہ ہی شخصیت پرستی میں مبتلا ہوتا ہے۔
ایک محقق ہمیشہ شخصیات کو اصولوں اور ان کے نظریات کو مبانی پر پرکھنے کے بعد تسلیم کرتا ہے۔
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔









آپ کا تبصرہ