اتوار 29 دسمبر 2024 - 12:11
تاریخ کی تاریخی عبرتیں

حوزہ/معروف یونانی مورخ "توسیدید" (تھوسی ڈائڈز) کا نظریہ ہے کہ "تاریخ خود کو دہراتی ہے۔ اسلام نے اس نظریے کو سنت الٰہی کے نام سے یاد کیا ہے۔ بات ہلاکو خان کی ہے؛ مغل سپاہی مغلستان سے نکلے اور موجودہ افغانستان و ایران کو کچلتے مسلتے لوٹتے اور جلاتے ہوئے بغداد تک پہنچ گئے۔

تحریر: مولانا محمد بشیر دولتی

حوزہ نیوز ایجنسی| معروف یونانی مورخ "توسیدید" (تھوسی ڈائڈز) کا نظریہ ہے کہ "تاریخ خود کو دہراتی ہے۔ اسلام نے اس نظریے کو سنت الٰہی کے نام سے یاد کیا ہے۔ بات ہلاکو خان کی ہے؛ مغل سپاہی مغلستان سے نکلے اور موجودہ افغانستان و ایران کو کچلتے مسلتے لوٹتے اور جلاتے ہوئے بغداد تک پہنچ گئے۔

خوف و وحشت، ظلم و بربریت اور جلاؤ گھیراؤ کی ایک تاریخ رقم ہوئی۔ ہلاکوخان نے جب بغداد فتح کیا تو خلیفۃ المسلمین مستعصم باللہ نے خزانے کی چابی پیش کی۔

ہلاکوخان نے دیکھا کہ بیت المال سونا،چاندی اور زر و جواہر سے بھرا ہوا ہے ۔ ہلاکو نے خلیفہ سے کہا کہ اگر اس مال اور دولت کو اپنے عوام پر منصفانہ خرچ کرتے تو آج ہم بغداد تک نہیں پہنچتے۔ ہلاکو خان نے پھر مٹھی بھر سونا چاندی کے سکے لئے اور زبردستی خلیفہ کے منہ میں ٹھونسنے لگا بعض کے مطابق اسی سے خلیفہ کی موت ہوئی۔

بعض مورخین کے مطابق ہلاکو خان کو بتایا گیا کہ یہ چونکہ ہمارا خلیفہ ہے اس کا خون بہاوگے تو آسمان سے عذاب نازل ہوگا۔ہلاکو خان نے کہا کہ خلیفہ کو کسی چٹائی میں لپیٹ دیا جائے تاکہ اس کا خون نہ بہے یوں خلیفہ کا خون تو زمین پر نہیں بہا مگر دم گھٹ کر مرگیا ۔

خلیفہ کے وسیع محل میں ہلاکو خان اور اس کے سپاہی عیش کرنے لگے ۔

یہ ماضی بعید کی بات تھی۔ اب ماضی قریب کی بات کرتے ہیں کہ جنرل قذافی بڑا انقلابی لیڈر ہوتا تھا۔افریقن ممالک پر مشتمل نیٹو جیسا اتحاد بنانے کا خواب دیکھ رہا تھا۔مسلکی اعتبار سے نہ سنی تھا نہ شیعہ تھا اپنا الگ فرقہ اور آئینی کتاب "سبزکتاب" لکھی تھی ۔ اس کتاب کے مطابق ان کی ایک خاص حیثیت تھی۔

ابتدا میں استعمار مخالف تھا ۔ ایران سے دوستانہ تعلقات تھے۔ایران عراق جنگ میں ایران کی مدد کی۔ پہلا ملک ہے جس نے ایران کو میزائل دیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ رفتہ رفتہ ایران سے دور ہوا۔قذافی نے شہید موسی صدر کو دعوت دےکر بلایا اور اغوا کرکے شھید کیا۔ (قذافی کی موت کے بعد ان کے ایک دست راست نے دبئی میں انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ موسی الصدر کو قذافی کے حکم پر قتل کیا تھا)

مضبوط میزائل سسٹم اور جنگی آلات و ساز و سامان سے مزین ملک تھا۔ ایٹم بم بنانے والا تھا کہ استعمار کے فریب میں آیا۔ استعمار کے کہنے پر اپنا ایٹمی ری ایکٹر اٹھا کر فرانس و امریکہ کے حوالے کردیا سوچا اب میں محفوظ ہوں۔ درجنوں نوجوان دوشیزاؤں کو اپنے گرد رکھتا تھا۔ بظاہر خیمے میں رہتا تھا مگر شاہانہ زندگی گزارتا تھا۔کسی ملک میں جائے تو مخصوص اونٹ تک جہاز میں لے جاتا تھا۔

فرانس و امریکہ اور اسرائیل کی خواہش پر بغاوت ہوئی۔ باغیوں کے ہاتھوں مارا گیا مگر ان کے میزائل، میزائل پیڈ پر سجے رہ گئے ۔ اس کے بعد لیبیا ، سعودی عرب اور عرب امارات کے پسندیدہ گروہوں کے ذریعے خانہ جنگی کا شکار ہوا،قذافی کا لیبیا اپنے ساتھ اجڑ گیا۔

اب آتے ہیں عراق کے سیاہ وسفید کامالک صدام کی تاریخ کی طرف ، صدام حسین شروع میں استعمار اور شہنشاہیت مخالف بندہ تھا۔زمانے کے نشیب وفراز کے ساتھ ساتھ خود سب سے بڑا ڈکٹیٹر اور ظالم بن گیا ۔ اپنی عوام یعنی کردوں اور شیعوں پر کیمیکل بم استعمال کیا، شیعوں کا قتل عام کیا۔

شہید صدر جیسی عظیم علمی شخصیت کو ان کی بہن سمیت قتل کیا۔ ہزاروں کی تعداد میں علماء کرام کو ابدی نیند سلا دیا ، نجف جیسا علمی حوزہ اجاڑ دیا۔

امریکہ سمیت دنیا بھر کی طاقتوں کی مدد سے ایران پر حملہ کیا ۔ آٹھ سال کی طولانی جنگ ہوئی۔ مغرب نے ہر خطرناک اسلحہ، میزائل، بم وغیرہ سے نوازا۔ صدام نے خطرناک میزائل اور کیمیکل بم ایرانی افواج، مجاہدین کے علاوہ نہتے عوام پر بھی استعمال کئے۔

آخر اسی امریکہ و اسرائیل نے صدام کے خلاف عوامی بغاوت شروع کی ۔ صدام کے پاس میزائلوں اور جدید بموں کے انبار تھے ۔ کئی محل بنے ہوئے تھے جن میں باتھ روم بھی سونے اور چاندی سے سجے تھے۔صدام کو اخری وقت میں تکریت کے ایک غار سے ذلت کے ساتھ نکالا اور پھانسی پہ چڑھادیا۔ اس کے میزائل بھی میزائل پیڈ میں سجے رہ گئے ۔ اسلحے کے گودام لوٹ لئے گئے۔

بشار الاسد کی حکومت مشرق وسطیٰ میں ایک مضبوط حکومت سمجھی جاتی تھی۔ امریکہ اسرائیل اور سعودی عرب اور ترکی نے مل کر داعش بنائی۔ داعش شام کو اجاڑنے اور امریکہ کو کردوں کے علاقے میں بسانے میں کامیاب ہوئی مگر مقاومتی بلاک کی حمایت کے سبب بشار اسد کی حکومت ختم نہ ہو سکی۔

دو ہزار گیارہ یعنی داعش کی ناکامی کے بعد اسرائیل شام میں وقفے وقفے سے فضائی حملہ کرتا رہا۔

طوفان الاقصی کے بعد جب اسرائیل نے فلسطینیوں کی نسل کشی اور غزہ کی تباہی کا سلسلہ شروع کیا تو حماس فلسطین سے، حزب اللہ لبنان سے، انصار اللہ یمن سے، حشد شعبی عراق سے ایران کی مدد سے اسرائیل پر جوابی حملہ کررہی تھیں "مقاومتی فورسز نے جولان کی پہاڑی سے اسرائیل میں گھسنے اور زمینی حملہ کرنے کی اجازت مانگی تو بشار الاسد نے منع کیا، بشار الاسد اپنے چار ہزار ٹینکوں سے ہی اسرائیل میں داخل ہوتے تو اسرائیل شاید ٹینکوں سے بھر جاتا۔

بشار اسد اگر اپنے 380 جنگی طیاروں کو اسرائیل پر حملے کا حکم دیتے تو اسرائیل نابود ہو جاتا اور وہ عالم اسلام کا ہیرو بن جاتے ، مگر ایسا نہیں ہوسکا چونکہ بشارالاسد نے مقاومتی بلاک کا ساتھ دینے کی بجائے پیچھے ہٹنے میں عافیت سمجھی۔

بشار الاسد نے نہ خود حملہ کیا نہ مقاومتی فورس کو اسرائیل پر جولان کی پہاڑیوں سے حملہ کرنے کی اجازت دی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ،پناہ گاہوں میں بھاگتے، دم گھٹتے اسرائیل نے ترکی و امریکہ کے ساتھ مل کر تحریر الشام کے ذریعے ادلب سے زمینی حملہ کروایا۔اس کی ارمی لڑنے کی بجائے مورچہ چھوڑ کر بھاگتی چلی گئ۔ گیارہ دن میں نام نہاد مجاہدین جدید اسلحوں سے لیس ہوکر دمشق تک پہنچ گئے۔نام نہاد مجاہدین کی فتح سے یہودیوں کا گریہ قہقہوں میں بدل گیا۔۔بشارلاسد کو لاذقیہ جانا پڑا وہاں سے بےسرو سامانی کی حالت میں روس بھاگنا پڑا۔

مجاہدین کی حکومت آتے ہی اسرائیل نے فضائی حملوں سے ملک شام کے تمام عسکری و حفاظتی مقامات کوتہس نہس کردیا۔

جن تین ہزار ٹینکوں پر شام کو ناز تھا وہ سب کباڑ بن گئے۔جن 380 جنگی جہازوں سے اسرائیل خوفزدہ تھا اسے اسرائیل نے پہلی فرصت میں تباہ و برباد کردیا۔ تمام جدید ریڈار سسٹم پر حملہ کر کے شام کو اندھا کردیا۔ صرف یہی نہیں، بلکہ پچاس سال میں اسرائیل پہلی مرتبہ ٹینکوں سمیت جولان کی پہاڑیوں اور نزدیکی شہروں میں گھس آیا۔

اسرائیل نے بغیر کسی مزاحمت کے جبل الشیخ جیسی اسٹریٹجک پہاڑی قبضے میں لی۔تین سو سے پانچ سو کلومیٹر کا علاقہ اسرائیل کے قبضے میں چلاگیا۔بشارالاسد کے پاس نہ حکومت رہی نہ شام کے عسکری اثاثے رہے۔نہ ہی شام کی سرزمین رہی۔بروقت جرات نہ کرنے کا نتیجہ خلیفہ بنی عباس سے،جنرل قزافی تک،صدام سے بشار تک اور اس کے بعد جو بھی ایسا کرے سب کا انجام ایک جیسا ہی ہوگا۔

استعمار کے حکم پر فلسطین اور مقاومت کو نقصان پہنچانے والے اردوغان کا انجام بھی صدام و قذافی سے مختلف نہیں ہوگا۔ ان شاءاللہ

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha