تحریر: مولانا محمد بشیر دولتی
حوزہ نیوز ایجنسی| شام دنیا کے قدیم ترین اور مسلمانوں کے اہم ترین ممالک میں سے ایک ہے، یہ جغرافیائی اعتبار سے انتہائی اہم ملک ہے؛ شام کے مغرب میں لبنان، جنوب مغرب میں فلسطین اور غاصب اسرائیل، جبکہ جنوب میں اردن مشرق میں عراق اور اس کے شمال میں ترکی واقع ہے؛ شام آثار قدیمہ، انبیائے کرام کی قبور، اصحاب کرام و اہلبیت اطہار علیہم السّلام کے شاندار مزارات اور اموی حکومت کے آثار کے سبب مشہور ہے۔
موجودہ اور جدید شام 1946 میں فرانس سے آزاد ہوا تھا۔اس کی موجودہ آبادی دوکروڑ سے زائد ہے۔
مذہبی اعتبار سے 92 فیصد سے زیادہ مسلمان آباد ہیں ۔تقریبا آٹھ فیصد کے قریب مسیحی و دیگر اقلیت آباد ہیں ۔
مسلمانوں میں چالیس فیصد کے قریب علوی،درزی،اسماعیلی اور (نصیری غیر مسلم)جبکہ دوفیصد کے قریب شیعہ ہیں ۔باقی سلفی مسلمان ہیں۔
نسلی اعتبار سے85 فیصد عربی اور دس فیصد کرد ہیں ۔
شام میں اس وقت بیس لاکھ کے قریب فلسطینی و عراقی مہاجرین بستے ہیں ۔
جدید شام کا بانی سابق صدر مرحوم حافظ الاسد کو سمجھا جاتا ہے ۔
داعش کی آمد سے پہلے یہاں اسی فیصد لوگ پڑھے لکھے تھے، ان کی فی کس آمدنی سالانہ پانچ ہزار امریکی ڈالر تھے۔ دیکھا جائے تو شام ایک ترقی پزیر ملک ہے اس کی معیشت سوشلسٹ نظریات پر مبنی تھی زیادہ تر صنعتیں قومی ملکیت میں تھیں ۔بےروز گاری کی شرح بیس فیصد سے زیادہ نہیں تھی۔کرد نشین علاقے تیل کی دولت سے مالا مال ہیں (جس پر دوہزار گیارہ سے امریکہ قابض ہے) ۔شام مختلف پابندیوں کے سبب محدود پیمانے پر تیل برآمد بھی کرتا تھا۔ملک کی تقریبا ایک تہائی زمین قابل کاشت تھی ۔زراعت نجی ملکیت میں مگر زرعی اشیاء کی درآمد و برآمد پر حکومت کا اختیار تھا ۔
سیاسی اعتبار سے دیکھا جائے تو شام میں پارلیمانی جمہوری نظام قائم تھا ۔بعث پارٹی کو قانونا سب سے زیادہ اختیار حاصل تھا اگرچہ چھے دیگر پارٹیاں بھی آزادانہ موجود تھیں اور حکومتی نظام کا حصہ تھیں ۔عملا بعث پارٹی کے نظریات کے تحت حکومت چلتی تھی ۔یہ پارٹیاں مل کر ایک کونسل بناتی تھیں جس کا ہر چار سال بعد انتخاب ہوتا تھا اس کونسل کو محدود اختیارات حاصل تھے ۔سیاسی ڈھانچے میں اصل اختیارات صدر کو حاصل تھے۔صدر کے لئے ہر سات سال بعد ریفرنڈم ہوتا تھا صدر پھر اپنی کابینہ کا انتخاب کرتا تھا صدر اگرچہ خود فوجی نہیں تھا مگر صدر ہی فوج کا سربراہ بھی ہوتا تھا ۔
عرب ممالک میں تقریبا واحد ملک تھا جہاں خاندانی حکومت کے باوجود جمہوری و انتخابی سلسلہ تھا۔ تعلیمی معیار کا نہیں معلوم البتہ شام کی یونیورسٹیوں میں یورپ جیسی آزادی تھی۔ ہمارے عام پاکستانیوں کا شامکے بازاروں سے گزرنا سنا ہے مشکل ہوتا تھا چونکہ اتنی "آزادی" تھی۔
شام کی اصل انفرادیت یہ تھی کہ واحد عرب ملک تھا جنہوں نے ابتدا سے اب تک کھل کر فلسطینیوں کی حمایت اور مدد کی۔
تقریبا پچاس سال پر مشتمل اس حمایت کا خمیازہ اسد حکومت کو داعش کی شکل میں بھگتنا پڑا۔
اسرائیل نے ترکی،قطر ، سعودیہ اور امریکہ کے ذریعے داعش کو وجود میں لایا جو شام کی بربادی وتباہی کا باعث بنی۔
دوہزار گیارہ میں اگرچہ مقاومتی بلاک کی حمایت کے سبب بشار الاسد اپنی حکومت بچانے میں کامیاب ہوا مگر اس کے بعد بشار کی پوری توجہ روس اور سعودی عرب و عرب امارات کی طرف ہوئی اور مقاومتی بلاک سے فاصلے بڑھنے لگے اس کے نتیجے میں بشارالاسد کو سخت دھوکہ ہوا۔
پڑوسی ملک ترکی نے اسرائیل کے ساتھ مل کر بڑی مہارت سے گیارہ دنوں میں نام نہاد مجاہدین کو جدید اسلحہ اور ٹینکوں کے ساتھ ادلب سے دمشق پہنچادیا۔
الجولانی نے شامی فوج کو دمشق میں جمع کر کے عام معافی کا اعلان کیا۔
داعش کے خونخوار و سنتی طریقے کو بدل کر جدید آرائش و زیبائش کے ساتھ تحریر الشام کا نام دیا گویا نئی بوتل میں پرانی شراب ڈالی گئی۔ الجولانی نے سب سے پہلے اسرائیل کے حق میں اور شام سے اسرائیل پر کسی قسم کا حملہ نہ کرنے کا اعلان کیا ۔ حزب اللہ اور حماس کے ہتھیاروں کو نہ فقط لوٹا گیابلکہ
ان تنظیموں کی عسکری کوششوں پر مکمل پابندی لگائی گئی ہے۔
بشار حکومت گرتے ہی نام نہاد مسلمان شام کی آزادی کا جشن مناتے رہے مگر اسرائیل دوسرے دن ہی سرزمین شام میں داخل ہوا ۔ رہی سہی جولان پر بھی قابض ہوا۔نہ فقط جولان کی پہاڑی پر قابض ہوگیا بلکہ نزدیکی شہروں اور دیہاتوں میں ٹینکوں سمیت گھس آیا ۔جنوبی شام کے علاقوں سیدون،ورعا،قنطرہ،طرطوس،القلمون سمیت کئی دیہاتوں و شہروں پر قبضہ کرلیا۔غاصب اسرائیلی حکومت نے شام کے سرحد جولان اور گردو نواح میں نئی آباد کاری کے لئے گیارہ ملین ڈالر مختص کیا ہے۔
اس وقت اسرائیل شام کی حدود میں تقریباً 370 کلومیٹر سے لے کر 500کلو میٹر تک کے علاقوں پر قبضہ کر چکا ہے۔اسرائیلی افواج دمشق سے فقط بیس کلومیٹر کے فاصلے پر موجود ہیں۔ خطے کی سب سے بلند ترین پہاڑی چوٹی جبل الشیخ پر بھی قابض ہوچکا ہے جہاں سے اسرائیل اردن اور لبنان پر مکمل کنٹرول کرسکتا ہے۔خطے کی آبی ذرائع پر بھی اس پہاڑی پر قبضے کے ساتھ قابض ہوچکا ہے۔اقوام متحدہ سمیت دیگر ممالک اس غیر قانونی قبضے پر مکمل خاموش ہیں۔
شام کے نام نہاد مجاہدین کی خاموشی اور اسرائیل کی حفاظت کے اعلان کے باوجود اسرائیل نے شام کی تمام فوجی تنصیبات اور مراکز کو فضائی حملے میں تباہ و برباد کردیا۔
اسرائیل نے صرف پانچ گھنٹے میں ایکسٹھ بار خطرناک ہوائی حملے کر کے چھے روزہ عرب اسرائیل جنگ میں شام کے حملوں کا نہ فقط بھرپور جواب دیا ہے بلکہ حماس،مظلومین فلسطین، غزہ اور حزب اللہ کی مدد و حمایت کا جواب بھی دیا ہے۔اسرائیلی حملوں کا یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے ان خطرناک حملوں میں تین ہزار ٹینک،بارہ بحری جنگی جہاز،82ائیر ڈیفینس ریڈار سسٹم، 380جنگی طیارے،4 کیمیکل انڈسٹریز،ہتھیاروں کے 35 ذخائر،بلیسٹک میزائلوں کی مرکزی کنٹرول بلڈنگ سمیت تمام حفاظتی اور جنگی سامان مکمل تباہ کردیے ہیں ۔
باخبر ذرائع کے مطابق سینٹرل بینک کے سونے کے ذخائر رقہ کے ہوائی اڈے کے ذریعے امریکہ پہنچادیے گئے۔
شام کے مختلف بینکوں میں موجود ڈالر سمیت دیگر غیر ملکی کرنسی حدودا تین ملین ڈالر ترکی کے بینکوں میں منتقل کئے ہیں۔۔
اسرائیلی فوج اس وقت نہ فقط شام پر قابض ہیں بلکہ شام کے مختلف اسلحہ مراکز سے شامیوں ہی کے ذریعے اسلحہ جمع کر کے شام کو مزید ویران کرنے میں مصروف ہے ۔
شام کی درسگاہوں کو بھی ویران کیا گیا ہے۔موساد نے اب تک خفیہ طریقے سے سینکڑوں شامی سائنسدان قتل کئے ہیں ۔ایک اندازے کے مطابق تین سو کے قریب سائنسدان یا تو قتل ہوئے ہیں یا ابھی تک لاپتہ ہیں ۔مسلمان خوش ہیں کہ شام آزاد ہوا ہے۔ کردوں اور علویوں پر زندگی تنگ کی جارہی ہے۔ترکی نزدیکی شہروں و قصبوں پر قبضے کے بعد کردوں پر حملے کی تیاری میں ہے۔شام ایک نہ تھمنے والی خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہا ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ امریکہ کردوں کے ساتھ وفاداری نبھاتا ہے یا ترکی کے رحم و کرم پر چھوڑتا ہے۔ ملک شام کے غیور نوجوان باالخصوص اخوان المسلمین جیسی تنظیم اٹھ کر اسرائیلی جارحیت کے خلاف قیام کرتی ہے یا ترکی اور قطر کی تھپکی پر حماس کو ایک بار پھر دھوکہ دےکر سوجاتی ہے یا شام کو الجولانی کے ذریعے ترکی و اسرائیلی جولان گاہ رہنے دے گی، یہ وقت ہی بتائے گا۔ ان شاءاللہ
آپ کا تبصرہ