تحریر: ڈاکٹر مولانا محمد لطیف مطہری
حوزہ نیوز ایجنسی| قرآن کریم، پیغمبرِ اکرم (ص) اور ائمہ معصومین (ع) نے جوانی کو خدا کی سب سے قیمتی نعمتوں میں سے ایک اور انسانی زندگی کی سعادت کے عظیم اثاثوں میں سے ایک اثاثہ قرار دیا ہے۔
قرآن کریم نے زندگی کے تین اہم ادوار کا ذکر کیا ہے جن کی خصوصیات کمزوری، طاقت اور ثانوی کمزوری ہیں، جو بچپن، جوانی اور بڑھاپا ہیں۔ اسلامی نصوص میں جوانی کے بارے میں دو قسم کے معارف سود مند ہیں ۔ ایک: وہ روایتیں جو جوانی کی اہمیت اور قدر کو بیان کرتی ہیں۔ دوسرا:وہ روایات جن میں جوانی کی توصیف اور نوجوانوں کی جسمانی، جذباتی اور روحانی خصوصیات وغیرہ بیان ہوئی ہیں۔ دین اسلام میں جوانی کا زمانہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے جس کا انسانی زندگی کے کسی دوسرے دور سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔ معصومین علیہم السلام سے نقل شدہ اسلامی روایات میں جوانی کی اہمیت بہت زیادہ بیان ہوئی ہے تاکہ انسان اس قیمتی اور انمول خدادادی نعمت کو بہتر طریقے سے درک کرتے ہوئے اس اہم دور سے بہترین استفادہ حاصل کرسکیں۔
جوان زندگی کے مختلف طریقوں کو آزمانے کے لئے جدوجہد اور تلاش کرتا ہے۔ یہی تلاش اسے مجبور کرتی ہے کہ لوگوں کے مختلف رویوں اور رفتار کی جانچ پڑتال کرے اور بہترین رفتار اور اقدار کا انتخاب کرے۔ جوانی کے دور میں انسان تکامل کے مرحلے میں پہنچتا ہے، ذہانت بھی اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ جاتی ہے۔ اس لئے جوان ہر چیز کو سیکھنے میں دلچسپی ظاہر کرتا ہے۔
پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جوانوں کے دل کی نرمی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تمام لوگوں کو ان کے ساتھ حسن سلوک اور نیکی کی تلقین کی ہے، فرماتے ہیں:( اوصيكُمْ بِالشُّبّانِ خَيْرا فَاِنَّهُمْ اَرَقُّ اَفـْئِدَة) ؛ میں آپ لوگوں کو جوانوں کے ساتھ نرمی برتنے کی سفارش کرتا ہوں، کیونکہ ان کا دل نرم ہوتا ہے۔ امام علی علیہ السلام کے نزدیک جوانی کی قدر اس کے کھونے سے ہی معلوم ہوتی ہے، آپ علیہ السلام نے فرمایا: (شَیْئانِ لایَعْرِفُ فَضْلَهُما اِلّا مَنْ فَقَدَهمُا؛ اَلشبَّابُ وَالْعافِیةُ) دو چیزیں ایسی ہیں جن کی قدر کوئی نہیں جانتا، جب تک کہ وہ ان کو کھو نہ دے: جوانی اور صحت۔
مذہبی تعلیمات میں پاکیزگی کو جوانی کے دور کی خصوصیات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے اور اس قیمتی دور کو تزکیہ نفس اور تقرب الٰہی کے لیے استعمال کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ روایات کی رو سے جوانوں کو چاہئے کہ وہ بڑھاپے اور مختلف دلی لگاؤ سے پہلے خود کو اچھے اخلاق سے مزین کریں۔ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشاد ہے: (فَضلُ الشّابِّ العابِدِ الذى تَعَبَّدَ فى صِباهُ على الشیخِ الذى تَعَبَّدَ بعدَ ما کبرَت سِنُّهُ کفَضلِ المُرسَلِینَ على سائرِ الناسِ ) ایک عابد جوان کی فضیلت جس نے جوانی میں بندگی کی راہ انتخاب کی ہو اس عمر رسیدہ عابد سے زیادہ ہے جو اپنی عمر گزارنے کے بعد بڑھاپے میں عبادت کی طرف متوجہ ہوا ہو، جس طرح خدا کی طرف سے بھیجے ہوئے رسولوں کو دوسرے تمام لوگوں پر فضیلت حاصل ہے۔
دوسری طرف بعض روایات میں، ہمارے دینی رہنما جوانوں سے چاہتے ہیں کہ وہ سیکھنے کا موقع ضائع نہ کریں، کیونکہ جوانی میں سیکھنے کی قیمت اور قدر کا موازنہ استحکام اور دوام کے لحاظ سے زندگی کے دوسرے ادوار سے نہیں کیا جا سکتا۔سیکھنے کے اعتبار سے جو فرق جوانی اور بڑھاپے میں موجود ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: (مَن تَعَلَّمَ فی شَبابِهِ کانَ بِمَنزِلَهِ الوَشمِ فِی الحَجَرِ، ومَن تَعَلَّمَ وهُوَ کَبیرٌ کانَ بِمَنزِلَهِ الکِتابِ عَلى وَجهِ الماءِ) جو جوانی میں سیکھتا ہے اس کا علم پتھر پر کندہ کرنے جیسا ہے اور جو بڑا ہونے کے بعد سیکھتا ہے پانی پر لکھنے جیسا ہے۔
امام خمینی رہ جوانوں کی خصوصیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اس روحی اور باطنی تصور کا اثر جوانی کے دنوں میں زیادہ بہتر حاصل ہوتا ہے، کیونکہ جوان دل نرم، سادہ اور زیادہ پاکیزہ ہوتا ہے۔ امام خمینی رہ کی نظر میں جوانوں کا مقام بہت بلند ہے۔آپ جوانی کے ایام کو تزکیہ نفس کا بہترین موقع قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: جوانی کے دنوں میں قلبی اور باطنی تصور کا اثر زیادہ بہتر ہوتا ہے؛ کیونکہ جوان کا دل نرم اور سادہ ہوتا ہے اور اس کی پاکیزگی زیادہ ہوتی ہے۔ معصومین علیہم السلام سے نقل شدہ اسلامی روایات میں جوانی کی اہمیت بہت زیادہ بیان ہوئی ہے تاکہ انسان اس قیمتی اور انمول خدادادی نعمت کو بہتر طریقے سے درک کرتے ہوئے اس اہم دور سے بہترین استفادہ حاصل کرسکیں۔
فارسی میں لفظ "جوان" کا مطلب ہر وہ چیز (انسان، حیوان اور پودا) ہے جس کی زندگی کا زیادہ حصہ نہ گزرا ہو۔بعض کا خیال ہے کہ اس کی قطعی تعریف کرنا ناممکن ہے جبکہ بعض کے مطابق جوان اور جوانی کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں ہے۔ ماہرین اس بات پر متفق نہیں ہیں کہ عمر کا کونسا حصہ جوانی ہے ۔ اس لیے جوانی کی تعریف میں عمر اور زمان کے معیار کو نظر انداز کر کے دوسرے معیارات کی طرف جانا بہتر ہے۔ جوانی انسان کے طرز عمل، اصول، عادات اور خواہشات کا ایک مجموعہ ہے جو ہر فرد میں موجود ہو اسے جوان سمجھا جاتا ہے۔مطالعات سے معلوم ہوتا ہے کہ جوانی اور جوان کا تصور نسبی تصورات میں سے ہے، جن کی تعریف مختلف طریقوں اور نقطۂ نظر کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے ۔ درحقیقت ہر کوئی کسی خاص مبنا کو مد نظر رکھتے ہوئے جوانی کو کسی خاص زمانے کے ساتھ مختص کرتا ہے ۔البتہ یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ نوجوانوں کے امور کے منصوبہ سازوں اور پالیسی سازوں کے درمیان یہ اختلاف مختلف معاشروں میں بھی موجود رہا ہے اور وہ اپنے معاشروں کی خصوصیات اور ثقافتی اور سماجی عناصر کو مدِنظر رکھتے ہوئے اپنے اہداف، پالیسیوں اور پروگراموں میں نوجوان اور جوان کے لیے مختلف حدود کا ذکر کیا ہے۔ماہرین نفسیات کے درمیان بھی جوانی کی حد بندی کے بارے میں اتفاق رائے نہیں ہے۔تاہم، جوانی کی حد بندی کے بارے میں تجویز کردہ نظریات میں سے ایک 18 سے 33 سال کی عمر کو جوانی قرار دیا ہے۔
عربی زبان میں نوجوان اور جوان کے لئے مختلف الفاظ استعمال ہوئے ہیں: جیسے(مراہق)(غلام) (فتی) (شاب) وغیرہ۔
(مراہق) سے مراد وہ فرد ہے جو بلوغت کی عمر کو پہنچ چکا ہے یا نزدیک ہے۔
(غلام ) سے مراد وہ فرد ہے جو ابھی تک بالغ نہیں ہوا ہے یا بلوغت کی عمر کو پہنچ چکا ہے۔
(فتی) سے مراد وہ انسان ہے جو بلوغت کی عمر کو پہنچ چکا ہے اور اس کا چہرہ تر وتازہ ہوتا ہے ۔
(شاب) اس شخص کو کہتے ہیں جس کی عمر 30 سے 40 سال کے درمیان ہوتا ہے۔
البتہ احادیث اور عربی نصوص میں اس کے خلاف بھے شواہد ملتے ہیں۔بعض اسلامی نصوص کے مطابق جوانی کی حد بندی بلوغت سے تیس سال تک بیان کی ہے۔ امام صادق علیہ السلام ایک روایت میں فرماتے ہیں:(إِذَا زَادَ الرَّجُلُ عَلَي الثَّلَاثِينَ فَهُوَ كَهْلٌ وَ إِذَا زَادَ عَلَي الْأَرْبَعِينَ فَهُوَ شَيْخٌ)
اگر کسی آدمی کا تیس سال مکمل ہو جائے تو اسے درمیانی عمر (ادھیڑ عمر) کہا جاتا ہے اور اگر کسی آدمی کا چالیس سال مکمل ہو جائے تو اسے شیخ (بوڑھا) کہا جاتا ہے۔اس روایت کے مطابق جوانی کی انتہائی حد تیس سال ہے ۔
جوانی کی ابتدا کے بارے میں سورہ یوسف میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے :( وَ لَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ آتَيْناهُ حُكْماً وَ عِلْماً وَ كَذلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنينَ) جب وہ بڑا ہوا تو ہم نے اسے علم اور حکمت عطا کی اور ہم نیک لوگوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں۔ اس آیت کے مطابق بلوغت کے اختتام کو جوانی کا آغاز سمجھا جا سکتا ہے۔
علامہ طباطبائی رہ "بلوغ اشد" کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس سے مراد جوانی کا آغاز ہے اور یہ بات واضح ہے کہ چالیس سال جوانی کا آغاز نہیں ہے۔
پیغمبر اسلام ﷺ نے جوانوں کے دل کی نرمی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تمام لوگوں کو ان کے ساتھ حسن سلوک اور نیکی کی تلقین کی ہے، فرماتے ہیں:( اوصيكُمْ بِالشُّبّانِ خَيْرا فَاِنَّهُمْ اَرَقُّ اَفـْئِدَة) میں آپ لوگوں کو جوانوں کے ساتھ نرمی برتنے کی سفارش کرتا ہوں، کیونکہ ان کا دل نرم ہوتا ہے۔
زندگی کے راستے پر چلنے اور اس کے نشیب و فراز سے گزرتے ہوئے انسان ایک کوہ پیما کی مانند ہے جو ایک دن پہاڑ کی بلند ترین چوٹی پر پہنچنے کے لیے سخت راستوں کو عبور کرتا ہے اور دوسرے دن پہار کی چوٹی سے نچلی سطح تک دوبارہ واپس آجاتاہے۔
فراز اور بلندی پر چلتے ہوئے، ہر روز جو اس کے پاس سے گزرتا ہے، اس کی بینائی وسیع تر ہوتی جاتی ہے اور وہ مزید نقطہ نظر کو دیکھتا ہے، اور جب وہ پہاڑ کی چوٹی پر قدم رکھتا ہے، تو وہ ہر جگہ دیکھ پاتا ہے اور انتہائی شاندار نظاروں کا مشاہدہ کرتا ہے۔لیکن اس کے برعکس جب وہ نشیب کی طرف اترنا شروع کر دیتا ہے تو ہر دن اس کی بینائی محدود ہو جاتا ہے اور دیکھنے کے مقامات یکے بعد دیگرے چھپ جاتے ہیں یہاں تک کہ تمام خوبصورت نظارے بالکل غائب ہو جاتے ہیں۔ جوانی کے ایام زندگی کے بلند ترین اور اعلیٰ ترین منزلیں ہیں۔ جوانوں کی نظر میں بہت سے خوبصورت ،خوشگوار اور دلکش نظارے موجود ہوتے ہیں۔ جوانوں کی روح امیدوں اور خوابوں سے لبریز اور محبت اور امید سے بھری ہوتی ہے۔
قرآن کریم نے زندگی کے تین اہم ادوار کا ذکر کیا ہے جن کی خصوصیات کمزوری، طاقت اور ثانوی کمزوری ہیں، جو بچپن، جوانی اور بڑھاپا ہیں۔ اسلامی نصوص میں جوانی کے بارے میں دو قسم کے محتوا قابل استفادہ ہیں ۔ ایک :وہ روایتیں جو جوانی کی اہمیت اور قدر کو بیان کرتی ہیں۔ دوسرا:وہ روایات جن میں جوانی کی توصیف اور نوجوانوں کی جسمانی، جذباتی اور روحانی خصوصیات وغیرہ بیان ہوئی ہیں۔ دین اسلام میں جوانی کا زمانہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے جس کا انسانی زندگی کے کسی دوسرے دور سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔
امام خمینی (رہ) جوانی کی اہمیت کے بارے میں فرماتے ہیں: اپنی جوانی کی طاقت کو اپنے ہاتھوں ضائع ہونے نہ دیں کیونکہ جتنی جوانی کی طاقتیں ختم ہوتی جائی گی، انسان میں فاسد اخلاقی صفات کی جڑیں اتنی ہی زیادہ ہوتی جائی گی ۔۔۔ انسان میں جب تک جوانی کی طاقت موجود ہو ،جب تک اس کی روح لطیف اور پاک ہو اور جب تک فساد کی جڑیں طاقتور نہ ہو وہ اپنی اصلاح کر سکتا ہے۔
امام خمینی(رہ) ایک اور مقام پر فرماتے ہیں: جوانی کے دنوں میں قلبی اور باطنی تصور کا اثر زیادہ بہتر ہوتا ہے؛ کیونکہ جوان کا دل نرم اور سادہ ہوتا ہے اور اس کی پاکیزگی زیادہ ہوتی ہے۔
جوانوں کے پختہ ارادے اور استقامت کو دیکھتے ہوئے فرماتے ہیں : پیارے جوانوں، تم نے ثابت کر دیا کہ تم تمام طاقتوں کا مقابلہ کر سکتے ہو اور اپنے ملک کی حفاظت کر سکتے ہو۔
جوانوں کے انحراف اور اس نسل کے ذہن میں بیگانہ ثقافت کے اثر اور نفوذ سے جوانوں کو آگاہ کرنے کی نصیحت امام رہ ہمیشہ کیا کرتے تھے۔ دوسروں کی ثقافت سے یونیورسٹیوں کو پاک و پاکیزہ کرنے کی ضرورت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، امام تمام لوگوں، جوان نسل اور ذمہ داروں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ یونیورسٹیوں کو مغرب اور مشرق زدگی اور انحراف کے خطرے سے بچانے کی کوشش کریں: میں پہلے مرحلے میں تمام نوجوانوں اور جوانوں کو اور دوسرے مرحلے میں ان کے والد، ماؤں اور دوستوں کو اور اگلے مرحلے میں ملک کی حفاظت کرنے والے مردوں، دانشوروں، دلسوز روشن فکروں کی حکومت کو وصیت کرتا ہوں کہ اس اہم معاملے (یونیورسٹیوں کو انحراف کے خطرے سے بچانا جو کہ آپ کے ملک کو نقصان سے بچاتا ہے) میں دل و جان سے کوشش کریں اور یونیورسٹیوں کو آنے والی نسلوں کے ہاتھ سونپ دیں۔
رہبر معظم انقلاب جوانی کی اہمیت کے بارے میں فرماتے ہیں: انہیں چاہیے کہ وہ جوانوں کے مسائل، جوانوں کی ضروریات اور نوجوانوں کے مستقبل کے لیے منصوبہ بندی کرنے کو اوّل درجہ کا اور سنجیدہ مسئلہ سمجھیں۔ جوانی ہر انسان کی زندگی کا ایک لاجواب، منفرد اور بے نظیر حصہ ہے۔ کسی بھی ملک میں جہاں نوجوانوں اور نوجوانوں کے معاملے کو صحیح طریقے سے حل کیا جاتا ہے وہ ملک ترقی کی راہ میں بڑی کامیابی حاصل کرتا ہے ۔ اگر یہ ہمارے ملک جیسا ملک ہو جہاں نوجوان آبادی ملک کی کل آبادی کا ایک بڑا حصہ ہے تو یہ مسئلہ اور زیادہ اہمیت کا حامل ہو جاتا ہے۔
رہبر معظم امام خامنہ ای (مد ظلہ العالی) فرماتے ہیں: جوان اپنی نئی شناخت بنانے کے مرحلے میں ہوتا ہے اور چاہتا ہے کہ اس کی نئی شخصیت کو پہچانا جائے۔
رہبرِ معظم انقلاب جوانی کے دور کی خصوصیات کچھ یوں بیان کرتے ہیں:
۱۔ نئی شخصیت:
جوان اپنی نئی شناخت بنا رہا ہوتا ہے اور چاہتا ہے کہ اس کی نئی شخصیت کو پہچانا جائے۔
۲۔ رغبت و انگیزہ اور جوش جذبہ:
ایک جوان میں احساسات اور کچھ انگیزہ ہوتے ہیں، اس کی جسمانی اور روحی نشوونما ہوتی ہے اور وہ ایک نئی دنیا میں قدم رکھتا ہے۔
۳۔ سوالات کرنا:
جوان کو بہت سے نامعلوم مسائل کا سامنا ہوتا ہے اور نئے مسائل اس کے لیے سوالات کھڑے کرتے ہیں۔
۴۔ توانائی سے بھرپور ہونا:
جوان محسوس کرتا ہے کہ اس میں مختلف قوتیں موجود ہیں۔ جسمانی اور فکری صلاحیتیں معجزے کر سکتی ہیں، پہاڑوں کو ہلا سکتی ہیں، لیکن جب انہیں لگتا ہے کہ ان صلاحیتوں کا استعمال نہیں ہو رہا تو وہ برا محسوس کرتے ہیں۔
۵۔ رہبر کی ضرورت:
جوانوں کو ایک نئی دنیا میں رہنے کے لیے جس کا انہوں نے تجربہ نہیں کیا ہوا ہوتا ہے رہنمائی اور فکری مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ رہبر معظم نے ایرانی جوانوں کے بارے میں فرمایا: میرا یقین ہے کہ ایرانی جوان مومن، پاک دامن، پاکیزہ جواہر ہیں، دینی پس منظر رکھتے ہیں اور معنوی پہلوؤں میں دلچسپی رکھتے ہیں۔وہ چاہتے ہیں کہ جوان، حضرت علی ؑ کو اپنا رول ماڈل بنائیں:جوانی میں امیر المومنین علی ؑ کی شان و شوکت ایک لازوال مثال ہے جسے تمام جوان اپنا رول ماڈل بنا سکتے ہیں۔ مکہ میں اپنی جوانی کے دوران، آپ ؑ ایک بے لوث انسان، ایک ذہین انسان، ایک فعال جوان، ایک سرکردہ جوان اور ایک پیش قدم جوان تھے۔ مدینہ کے دور میں آپ علیہ السلام فوج کے کمانڈر تھے، باہوش، جوان مرد اور بہت سخی تھے۔ حکومتی اور سماجی مسائل کے میدان میں ایک کامیاب جوان تھے۔
جوان، جوانی کی اہمیت اور اس دور کی اہم خصوصیات معصومین علیہم السلام کے کلمات کی روشنی میں بیان کرنے کی کوشش کریں گے۔
۱۔جوان، خدا وند متعال کی سب سے پیاری تخلیق
بعض روایات کے مطابق خدا وند متعال کی شیرین ترین مخلوق جوان فرزند اور تلخ ترین حادثہ جوان فرزند کی جدائی ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : (وَ قَالَ اِبْنُ أَبِي لَيْلَى لِلصَّادِقِ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ : أَيُّ شَيْءٍ أَحْلَى مِمَّا خَلَقَ اَللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ فَقَالَ «اَلْوَلَدُ اَلشَّابُّ» فَقَالَ أَيُّ شَيْءٍ أَمَرُّ مِمَّا خَلَقَ اَللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ قَالَ «فَقْدُهُ» فَقَالَ أَشْهَدُ أَنَّكُمْ حُجَجُ اَللَّهِ عَلَى خَلْقِهِ)
ابن ابی لیلیٰ (قاضی اہل سنت) نے امام صادق علیہ السلام سے کہا: خدا کی مخلوقات میں سے سب سے پیاری اور شیرین ترین مخلوق کون سی ہے؟ امام نے فرمایا: جوان بیٹا، اس نے پھر پوچھا: اللہ کی مخلوقات میں سب سے زیادہ کڑوی مخلوق کون سی ہے؟ امام نے فرمایا:جوان بیٹے کی موت، تو ابن ابی لیلیٰ نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کی امت پر اس کی طرف سے حجت ہیں (یعنی آپ ائمہ معصومین علیہم السلام خدا وند متعال کے واجب الاتباع رہبر اور رہنما ہیں۔)
۲۔جوانی، ایک مجہول فضیلت
امیر المومنین امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:قال علی علیهالسلام: (شَیْئانِ لایَعْرِفُ فَضْلَهُما اِلّا مَنْ فَقَدَهمُا؛ اَلشبَّابُ وَالْعافِیةُ)
دو چیزیں ایسی ہیں جن کی قدر وقیمت کا کسی کو علم نہیں ہے جب تک کہ کوئی ان کو کھو نہ دے۔ ایک جوانی اور دوسری صحت۔
یہ بات بذات خود والدین اور مربی کی ذمہ داری کو بیان کرتی ہے کہ جوانوں کو عمر کے اس حصہ میں جوانی کی اہمیت اور فضیلت سے آشنا کریں کیونکہ جب تک اس کی اہمیت کا اندازہ اور علم نہ ہو تب تک انسان اس کی اہمیت اور قدر کو نہیں جانتا ہے اور زندگی کے اس اہم حصہ کو بیہودہ اور فضول کاموں میں صرف کردیتا ہے ۔
۳۔جوانی ایک بہترین و نایاب فرصت
جوانی ،ایک اہم اور پرخطر دور ہے کیونکہ طاقت اور قدرت اس دور میں غالب رہتا ہے۔ صلاحیتوں اور رجحانات کو کس سمت میں لے کر جانا ہے اسی حساب سے اس کا مثبت یا منفی اثر پڑتا ہے۔
جوانی انسان کے لیے اللہ کی عظیم نعمتوں میں سے ایک ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(يَا أَبَا ذَرٍّ اغْتَنِمْ خَمْساً قَبْلَ خَمْسٍ شَبَابَكَ قَبْلَ هَرَمِكَ وَ صِحَّتَكَ قَبْلَ سُقْمِكَ وَ غِنَاكَ قَبْلَ فَقْرِكَ وَ فَرَاغَكَ قَبْلَ شُغْلِكَ وَ حَيَاتَكَ قَبْلَ مَوْتِكَ)
اے ابوذر! پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت شمار کرو: جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، صحت کو بیماری سے پہلے، دولت کو غربت سے پہلے، سکون کو مصیبت سے پہلے اور زندگی کو موت سے پہلے۔
۴۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جوانی سے لطف اندوز ہونے کے لئے دعا
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ایک جوان صحابی عمر و بن خزائی جس نے آپ کے لئے پانی لایا اور آپ نے اس پانی کو پی لیا اور آپ اس جوان صحابی سے بہت خوش ہوئے تو آپ نے اس کے حق میں دعا کی اور فرمایا:(اللهم امتعه بشابه) اے رب! اسے اپنی جوانی سے لطف اندوز کر دے۔
اس سے معلوم ہوا کہ تمام نوجوان اپنی جوانی سے فائدہ نہیں اٹھاتے، اسی لیے نبی اکرم ﷺ نے اس نوجوان کے لیے دعا فرمائی۔ جوانی سے لطف اندوز ہونے کا کیا مطلب ہے؟ جوانی سے فائدہ اٹھانے کا مطلب ہر قسم کی جنسی خواہشات کی تسکین یا بیہودہ اور فضول سرگرمیوں میں جوانی کو ضائع کرنا ،نہیں ہے اگر کوئی ایسا سمجھتے ہیں تو گویا وہ جوانی سے فائدہ مند نہیں ہو رہے ہیں ۔ایک اور بیان میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: جو نوجوان اپنی پاکدامنی کی حفاظت کرتے ہوئے حرام قسم کی جنسی لذتوں سے دور ہے تو خداوند متعال کے نزدیک اس کا ثواب بہتر صدیق کے برابر ہے ۔جوانی سے ہی پاک دامن رہنا انبیاء کرام علیہم السلام کا شیوہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے بھی نوجوانوں اور جوانوں کے لئے حضرت یوسف علیہ السلام کو بعنوان نمونہ پیش کیا ہے ۔ جوانی سے لطف اندوز ہونے کا مطلب یہ ہے(أهرَمَ شَبابَهُ في طاعَةِ اللّه)یعنی اپنی جوانی کو خدا کی اطاعت کرتے ہوئے بڑھاپے تک پہنچانا۔
خدا کی اطاعت سے مراد فقط نماز پڑھنا نہیں ہے بلکہ اور بھی بہت ساری چیزیں اطاعت الٰہی کے مصادیق ہیں جن میں سے ایک ہر قسم کی گناہوں کو ترک کرنا ہے ۔ اپنی دامن کو پاک و پاکیزہ رکھنا بھی اطاعت الٰہی ہے۔ تعلیم حاصل کرنا، دوسروں کو علم سکھانا اور دوسروں کی خدمت کرنا یہ سب اطاعت الٰہی ہیں ۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دعای خیر کا اثر یہ ہوا کہ عمرو اسی سال کی عمر میں بھی جوانی کی صفات کے مالک تھے ۔امام علی علیہ السلام کے خاص اصحاب میں آپ کا شمار ہوتا تھا اور آخر کار معاویہ کے کارندوں کے ہاتھوں گرفتار اور شہید ہوئے اور سرکو جسم سے الگ کر کے معاویہ کے لئے تخفے کے طور پر لےجایا گیا۔
جوانی سے لطف اندوز ہونے کے مقابلے میں کبھی انسان عمر کے اس اہم اور قیمتی حصے سے فائدہ حاصل نہیں کر سکتے اور ابتدائے جوانی میں ہی اس دنیا سے چلے جاتے ہیں یا وہ جوانی سے بھر پور انداز میں لطف اندوز نہیں ہو سکتے، جیسا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :(وَ قَالَ النَّبِیُّ (ص) مَنْ لَمْ یَتَوَرَّعْ فِی دِینِ اللَّهِ ابْتَلَاهُ اللَّهُ تَعَالَى بِثَلَاثِ خِصَالٍ إِمَّا أَنْ یُمِیتَهُ شَابّاً أَوْ یُوقِعَهُ فِی خِدْمَةِ السُّلْطَانِ أَوْ یُسْکِنَهُ فِی الرَّسَاتِیقِ) جو اللہ کے دین کے حوالے سے تقوی نہیں رکھتا، اللہ تعالیٰ اسے تین چیزوں میں سے ایک چیز میں مبتلا کر دیتا ہے : ۱۔ جوانی میں موت ۲۔بادشاہ کی خدمتگار ۳۔ گاؤں میں سکونت۔
حوالہ جات:
۱۔شباب قریش، عبدالمتعال الصعیدی، ص 1
۲۔غرر الحکم و درر الکلم، فصل 42، ح11
۳۔کنز العمال، ج15، ح43059
۴۔ بحار الانوار، ج1، ص222
۵۔چہل حدیث، ص 499
۶۔چہل حدیث، ص 499
۷۔ فرهنگ معين، ج 1، ذيل واژه جوان.
۸۔ معاونت مطالعات و تحقيقات سازمان ملي جوانان، جوانان در نظام بينالملل، صص 18 و 19.
۹۔ محمود منصور، روانشناسي ژنتيک تحول رواني از تولد تا پيري، ص 204.
۱۰۔مجلسی،بحار الانوار،ج۶۰،ص۳۵۱۔
۱۱۔ حرّ عاملي، وسائل الشيعه، ج 7، ص302، ح 9411.
۱۲۔یوسف،۲۲۔
۱۳۔طباطبائي، محمدحسين، الميزان، ج 11، ص158.
۱۴ ۔شباب قریش، عبدالمتعال الصعیدی، ص 1
۱۵۔صحیفه نور، ج 7، ص 211
۱۶۔چہل حدیث، ص 499
۱۷۔صحیفہ نور، ج16، ص18
۱۸۔ صحیفہ نور، ج1، ص185
۱۹۔کیهان، 13/8/1375۔
۲۰۔ مقام معظم رہبری، دیدار با جوانان، کیہان 1379/2/1
۲۱۔ مقام معظم رہبری، دیدار با جوانان، کیہان 1379/2/1
۲۲۔ صدوق، من لا یحضرالفقیہ،ج۱ص۱۸۸۔
۲۳۔آمدی،غرر الحکم،ج۴،و۱۸۳،ش ۵۷۶۴۔
۲۴۔مجلسی،بحارالانوار،ج۷۷،روایت۳۔
۲۵۔قمی ،عباس،سفینہ البحار،ج۲،و۲۶۰۔
۲۶۔ مجلسی،بحار الانوار،ج۷۶،و۱۵۶۔