تحریر: منظوم ولایتی
حوزہ نیوز ایجنسی| قومیں ناکام اور تباہ کیوں ہوتی ہیں؟Why ?Nations Fail یہ وہ سوال ہے جس پر باقاعدہ کتب لکھی جا چکی ہیں۔ اسی طرح اس سوال کا جواب دنیا کا ہر صاحب شعور اور پڑھا لکھا شخص اپنے فہم و عقل کے مطابق دیتا ہے مگر ایک جواب جو ایک عام بندہ بھی سمجھ سکتا ہے وہ یہ ہے کہ جب انصاف کسی ملک یا معاشرے سے عنقا ہو جائے اور طبقاتی فرق حد سے بڑھ جائے اور وہاں کے وسائل اشرافیہ کے باندی بن جائیں تو پھر اس ملک و قوم کا کوئی وقار نہیں بچتا۔ دنیا پھر ایسی قوموں کو سنجیدہ ہی نہیں لیتی۔ جس کی وجہ سے بادل خواستہ وہ قوم تباہ ہو جاتی ہے۔
اِس بات کو سمجھنے کیلیے پارا چنار کے موجودہ حالات پر غور فرمائیں کہ وہاں کیا انسانی المیہ جنم لے رہا ہے. شیعہ سنی کی بحثوں کو ایک منٹ کیلیے بھول جائیں۔ فرض کریں پاراچنار میں نہ شیعہ بستے ہیں اور نہ سنی بلکہ صرف انسان بستے ہیں۔بات انسانیت کی بنیاد پر کریں۔ سب کو نظر آرہا ہے کہ غزہ کیلیے دنیا آواز اٹھا رہی ہے وہاں بھی صہیونی بربریت دکھا رہے ہیں اور مظلوم کی آواز بننا چاہیے لیکن پاکستان کا غزہ بھی دنیا کی توجہ چاہتا ہے۔خاص طور پر پاکستان کے ارباب بست وکشاد کی کرم فرمائی کا پاراچنار منتظر ہے۔ دوائیان تک ناپید ہیں، جس کی وجہ سے بچے مر رہے ہیں مگر ہر طرف "ھُو کا عالم" ہے!!
بھلا ہو ایدھی فاونڈیشن کا جنہوں نے سنا ہے آج ائیر ایمبولینس کے تھرو ادویات کی ایک کھیپ کی ترسیل کی ہے اور کچھ سخت مریضوں کو پشاور شفٹ کیا ہے۔ لیکن سوال پھر وہی ہے کہ کیا یہ کام ریاست کا نہیں تھا؟ وہ کہاں کھڑی ہے؟ پاکستان بھر کے عوام یہ جاننا چاہتے ہیں کہ قوم کے پیسوں سے خریدے گئے جہاز اور ہیلی کاپٹرز اگر آج ساٹھ دنوں سے محصور پاراچنار تک دوائی تک نہیں پہنچا سکتے تو کیا وہ اچار ڈالنے کیلیے ہیں؟ یا صرف اشرافیہ کی عیاشیوں کیلیے ہیں؟! کیا کوئی ہے قوم کو جواب دینے والا؟؟
اب پارا چنار کے حالات اور انسانیہ المیہ سے متعلق کچھ گزارشات پیش کرنے کے بعد اب ایک اور سانحہ کی طرف بھی احباب کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔
آپ سب نے سنا ہوگا کہ پرسوں گلگت سکردو روڈ پر ملوپہ کے مقام پر ایک گاڑی لینڈ سلائیڈنگ کی زد میں آئی جس کی وجہ سے پانچ جوان اللہ کو پیارے ہوگئے۔ اللہ تعالی انہیں غریقِ رحمت فرمائے۔
سوال پھر وہی ہے کہ ملوپہ پڑی پر آئے روز واقعات کیوں جنم لیتے ہیں؟ کہوں سانحات انسانی جانوں کو دیمک کی چاٹ لیتے ہیں؟ کیا کسی نے اس حوالے سے سوچا؟
راقم کا تعلق چونکہ اسی علاقے سے ہے اسلیے ملوپہ صورتحال کو اچھی طرح سمجھتا ہے لہذا کچھ عرائض لکھ دیتا ہوں شاید کسی کے دل میں اتر جائے میری بات۔
ملوپہ پڑی شینگوس اور ستک کے بیچ یلبو کا ملحقہ علاقہ دموسر داس اور گنجی کے کھمی داس کے بالمقابل واقع ہے۔ یہ پڑی کچی ہے یعنی پہاڑ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اوپر سے بارش ہو یا نہ ہو لینڈ سلائیڈنگ کا سلسلہ سارا سال جاری رہتا ہے۔ کیوں کہ پھتر اور خشک مٹی ہے جیسے ہی ہوا کی وجہ سے ہی صحیح ایک کنکری گری بس بہانہ مل گیا اور طوفانی شکل میں ملبہ گر پڑا اور لینڈ سلائیڈنگ ہوگئی اور کئی لوگ ملبت تلے دب گئے۔
دوسری طرف سے مشکل یہ ہے کہ گلگت سے جاتے ہوئے ملوپہ پہاڑی پر خطرناک چڑھائی ہے حتی بعض اوقات وزنی گاڑیاں پنڈی سے لوڈ لاکر یہاں آکر گرا دینے پر مجبور ہوتی ہیں۔ ہم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ ٹرک والے یہاں اپنا سامان انلوڈ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں چونکہ چڑھائی کی وجہ سے گاڑی نہیں نکلتی۔
اب ایسے حالات میں جب اوپر لینڈ سلائیڈنگ کے فل چانسز ہوں اور گلگت سے جاتے ہوئے خطرناک چڑھائی بھی ہو، ساتھ میں موڑ بھی ہو نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ حادثات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ یہ سلسلہ بہت پہلے سے چل رہا ہے۔
اب حالیہ سالوں میں جب گلگت سکردو روڈ وسیع کیا جارہا تھا تو چھے سات کے قریب ٹنلز رکھے گئے تھے اور ملوپہ پہاڑی پر بھی ٹنل بنانا تھا لیکن ایف ڈبلیو او کمپنی نے بنانے کے اعلانات کے باجود نامعلوم وجوہات کی بنا پر سارے ٹنلز ختم کردئیے جس کی وجہ سے اب ہر ہفتے یہی سنتے رہتے ہیں کہ روندو کے فلاں علاقے میں حادثہ ہوا اور اتنے لوگ جاں بحق ہوئے۔
اب سوال یہ ہے کہ ملوپہ پڑی میں انسانی جانوں کو محفوظ بنانے کا طریقہ کیا ہوگا؟ راقم کی نظر میں دو راہِ حل ہیں۔ ایک یہ کہ چھماچھو میں ایک پل بنا کر گلگت سکردو روڈ کو جوچی، سبسر، سبلو (یلبو) کی طرف لاتے ہوئے دموسرداس کی طرف لاکر گنجی سے پھر ستک نالہ متصل کیا جائے یوں ملوپہ سے ہم سب کی جان چھٹ سکتی ہے۔دوسرا راہِ حل یہی ہے کہ ملوپہ پڑی میں ٹنل بناکر ہمیشہ ہمیشہ کیلیے انسانی جانوں کی سلامتی کو یقینی بنایا جائے۔
یاد رہے اگر ان دو راہِ حل پر غور نہیں کیا گیا تو اہلِ بلتستان کیلیے یہ پڑی اسی طرح موت کا کنواں بنی رہے گی اور آئے روز انسانی المیہ جنم لیتا رہے گا۔
آپ کا تبصرہ