۱۴ آذر ۱۴۰۳ |۲ جمادی‌الثانی ۱۴۴۶ | Dec 4, 2024
تجمع دانشجویی در حمایت از پیروزی جبهه مقاومت +عکس 

حوزہ/ تاریخ وہ آئینہ ہے، جس میں ماضی کی کامیابیاں اور ناکامیاں واضح نظر آتی ہیں۔ مگر افسوس، مسلم دنیا کے حکمران اس آئینے میں جھانکنے سے ہمیشہ گریز کرتے ہیں۔ سقوط بغداد، سقوط غرناطہ، سقوط دہلی اور سقوط ڈھاکہ جیسے واقعات ہمیں یہ سبق دیتے ہیں کہ جب قیادت مصلحت پرستی، ذاتی مفادات اور بزدلی کا شکار ہو جائے، تو قومیں ایسی شکستوں کا سامنا کرتی ہیں جو ان کے ضمیر پر نسلوں تک بوجھ بن کر رہتی ہیں۔

تحریر: مولانا امداد علی گھلو

حوزہ نیوز ایجنسی| تاریخ وہ آئینہ ہے، جس میں ماضی کی کامیابیاں اور ناکامیاں واضح نظر آتی ہیں۔ مگر افسوس، مسلم دنیا کے حکمران اس آئینے میں جھانکنے سے ہمیشہ گریز کرتے ہیں۔ سقوط بغداد، سقوط غرناطہ، سقوط دہلی اور سقوط ڈھاکہ جیسے واقعات ہمیں یہ سبق دیتے ہیں کہ جب قیادت مصلحت پرستی، ذاتی مفادات اور بزدلی کا شکار ہو جائے، تو قومیں ایسی شکستوں کا سامنا کرتی ہیں جو ان کے ضمیر پر نسلوں تک بوجھ بن کر رہتی ہیں۔

بغداد کے حاکم نے جب تاتاریوں کے سامنے ہتھیار ڈالے تو نہ صرف ان کی حکمرانی ختم ہوئی بلکہ امت مسلمہ کی وحدت بھی پارہ پارہ ہو گئی۔ غرناطہ کے آخری بادشاہ ابو عبداللہ نے دشمن کے سامنے گھٹنے ٹیک کر تاریخ میں اپنا نام شرمندگی کے ساتھ "آنسو بہانے والے بادشاہ" کے طور پر لکھوا دیا۔ سقوط دہلی کے دوران مغل بادشاہ اپنی حکمتِ عملی اور جرأت سے محروم ہو کر عظیم سلطنت کھو بیٹھے اور سقوط ڈھاکہ میں جنرل نیازی نے ہتھیار ڈال کر نہ صرف پاکستان کی سالمیت بلکہ اپنے وقار کو بھی خاک میں ملا دیا۔
ان تمام تاریخی سانحات کا ایک مشترکہ پہلو یہ ہے کہ قیادت نے اپنی جان تو بچا لی، مگر شکست اور ندامت کا داغ نسلوں کے لیے چھوڑ دیا۔ نہ بغداد کے حاکم کو اپنی جان بچانے کا کوئی فائدہ ہوا، نہ غرناطہ کے بادشاہ کو پناہ ملی اور نہ سقوط ڈھاکہ کے ذمہ دار تاریخ کے کٹہرے سے بچ سکے۔ اس کے برعکس، ٹیپو سلطان اور سراج الدولہ جیسے رہنما آج بھی غیرت، آزادی اور عزت کی علامت ہیں، کیونکہ انہوں نے اپنی جان قربان کر کے شجاعت کی داستانیں رقم کیں۔
آج کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ مسلم دنیا کے حکمران ان عبرتناک تاریخی واقعات سے سبق سیکھنے کے بجائے اپنی بزدلی کو چھپانے میں مصروف ہیں۔ فلسطین، کشمیر اور لبنان کے مظلوم عوام کے خون سے تاریخ لکھی جا رہی ہے، مگر مسلم قیادت عملی اقدام کے بجائے خاموشی اور بے حسی کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ اسرائیل اور دیگر عالمی طاقتیں مسلم دنیا کے وسائل اور سرزمین کو تاراج کر رہی ہیں، مگر بیشتر حکمران اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے انہی طاقتوں کے ساتھ تعلقات مضبوط کر رہے ہیں۔
فلسطین کے بچے، کشمیر کے نوجوان، اور لبنان کے مظلوم اپنے خون سے حریت کا پیغام دے رہے ہیں، مگر مسلم دنیا کے نام نہاد رہنما عالمی کانفرنسوں میں امن اور مفاہمت کی باتیں کر کے اپنی بے عملی کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ حکمران زبانی حمایت تو کرتے ہیں، مگر عملاً وہ مغربی طاقتوں کے ساتھ سازباز اور معاہدوں کے ذریعے امت کے وقار کو مجروح کر رہے ہیں۔
مسلم دنیا کی بزدلی کے اس ماحول میں حزب اللہ، حماس، انصار اللہ، حشد الشعبی اور دیگر مقاومتی تحریکوں نے قربانی اور شجاعت کی جو مثالیں قائم کی ہیں، وہ ان نام نہاد حکمرانوں کے لیے لمحہ فکریہ ہیں۔ سید حسن نصراللہ، سید ہاشم صفی الدین، اسماعیل ہنیہ اور یحییٰ سنوار جیسے رہنما امت مسلمہ کے حقیقی ہیرو ہیں، جنہوں نے اپنے خون سے مقاومت کے چراغ روشن کیے ہیں۔
یہ رہنما جانتے ہیں کہ ان کے سامنے اسرائیل جیسی طاقت ہے، جسے مغربی ممالک کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ مگر ان کے عزم، ایمان اور جرأت نے اسرائیل کی عسکری برتری کو کئی بار خاک میں ملا دیا ہے۔ یہ مجاہدین یہ بھی جانتے ہیں کہ جنگ صرف ہتھیاروں سے نہیں بلکہ جذبہ ایمانی، اخلاص، اور قربانی کے عزم سے جیتی جاتی ہے۔
مسلم دنیا کو ان مجاہدین کی قربانیوں سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر آج بھی حکمران اپنی خاموشی کو ترک کر کے مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہو جائیں تو تاریخ ان کا نام بھی عزت کے ساتھ یاد کرے گی۔ بصورت دیگر، یہ حکمران انہی حکمرانوں اور بادشاہوں کی طرح تاریخ میں شرمندگی کے ساتھ یاد کیے جائیں گے جنہوں نے اپنی قوم کو دشمن کے حوالے کر دیا۔
مسلم دنیا کے حکمرانوں کی بے عملی اور بزدلی اس وقت اور زیادہ نمایاں ہو جاتی ہے جب ہم مقاومت کے شہداء اور رہنماؤں کی قربانیوں کا جائزہ لیتے ہیں۔ شیخ احمد یاسین، سید عباس موسوی، سید حسن نصراللہ، سید ہاشم صفی الدین، اسماعیل ہنیہ اور یحییٰ السنوار جیسے رہنما آج بھی اسرائیلی جارحیت کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بنے رہے ہیں۔ یہ رہنما اپنی جانوں، خاندانوں، اور آسائشوں کی پروا کیے بغیر جانتے تھے کہ مقاومت کے بغیر نہ صرف فلسطین آزاد نہیں ہو سکتا بلکہ امت مسلمہ بھی غلامی کی زنجیروں میں جکڑی رہے گی۔
یہ شہداء امت مسلمہ کے لیے وہ روشن چراغ ہیں جن کے خون سے آزادی کی راہیں منور ہوتی ہیں۔ حزب اللہ اور حماس کے وہ مجاہدین، جنہوں نے اسرائیلی بمباری کے سامنے سینہ سپر ہو کر قربانی دی، ثابت کرتے ہیں کہ جذبہ ایمانی اور غیرت دینی وہ طاقت ہے جس کے سامنے بڑی سے بڑی عسکری قوّت بھی بے بس ہو جاتی ہے۔ یہ شہداء نہ صرف اپنے وطن بلکہ پوری امت مسلمہ کی عزت اور بقا کے محافظ ہیں۔

جب اسرائیل اپنی جدید ترین ٹیکنالوجی اور مغربی پشت پناہی کے باوجود حزب اللہ اور حماس کے مجاہدین کے ہاتھوں شرمندگی اٹھاتا ہے، تو یہ حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ طاقت کا حقیقی سرچشمہ ایمان، اخلاص اور قربانی ہے۔ ان شہداء نے اپنی قربانیوں سے یہ پیغام دیا ہے کہ اگر ہم اپنے ضمیر کو زندہ رکھیں اور جذبہ حریت کو اپنائیں، تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں شکست نہیں دے سکتی۔

مسلم دنیا کے حکمرانوں کو اب یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے اور مفادات کی سیاست نہ صرف انہیں تاریخی طور پر رسوا کرے گی بلکہ امت کے اتحاد کو بھی مزید نقصان پہنچائے گی۔ فلسطین کی آزادی اور امت مسلمہ کی عزت اس وقت تک ممکن نہیں جب تک یہ حکمران اپنے ذاتی مفادات کو ترک کر کے مقاومت کے نظریے کو عملی طور پر اپنانے کا عزم نہ کریں۔

انہیں مقاومت کے شہداء کی قربانیوں سے سبق سیکھنا ہوگا اور اپنے اندر امت کے لیے غیرت و حمیت کا جذبہ پیدا کرنا ہوگا۔ اگر وہ واقعی امت مسلمہ کی قیادت کا دعویٰ رکھتے ہیں، تو انہیں عملی اقدامات کے ذریعے مظلوموں کے حق میں کھڑا ہونا ہوگا اور اپنے عوام کو مقاومت کی اہمیت سے روشناس کرانا ہوگا۔

مقاومت کے رہنماؤں نے اپنی قربانیوں سے واضح کر دیا ہے کہ عزت و آزادی کے لیے جان دینا ایک فخر ہے، جبکہ بزدلی اور غلامی کو قبول کرنا ہمیشہ کے لیے رسوائی کا سبب بنتا ہے۔ اسرائیل کے خلاف یہ جنگ محض ایک علاقائی تنازعہ نہیں بلکہ حق و باطل کی جنگ ہے اور اس میں صرف وہی کامیاب ہو سکتے ہیں جو ایمان، غیرت، اور قربانی کے جذبے سے سرشار ہوں۔

حزب اللہ اور حماس کی جرأت و شجاعت نے یہ ثابت کیا ہے کہ امت مسلمہ کے پاس صرف دو راستے ہیں: یا تو وہ مقاومت کا راستہ اختیار کرے اور عزت و آزادی کا حصول ممکن بنائے، یا پھر بے حسی اور بزدلی کے راستے پر چل کر ہمیشہ کے لیے غلامی کی زنجیروں میں جکڑی رہے۔

یہ وقت ہے کہ مسلم دنیا کے عوام اپنے حکمرانوں کو ان کی بزدلی اور بے عملی پر جوابدہ ٹھہرائیں۔ عوام کو مقاومت کے رہنماؤں اور شہداء کی قربانیوں سے سبق لیتے ہوئے اپنے اندر غیرت اور حریت کا جذبہ پیدا کرنا ہوگا۔ اگر آج ہم خاموش رہے تو تاریخ ہمیں بھی ان بزدل قیادتوں کے ساتھ شامل کرے گی جنہوں نے مصلحتوں کے لیے اپنی قوموں کی عزت و غیرت کو داؤ پر لگا دیا۔

مقاومت کے مجاہدین نے ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ کامیابی انہی کے قدم چومتی ہے جو اپنے خون سے آزادی کی تاریخ لکھتے ہیں۔ اب امت مسلمہ پر منحصر ہے کہ وہ اپنی تقدیر کس سمت میں لے جاتی ہے۔ کیا ہم مقاومت کے چراغ کو روشن رکھیں گے یا بزدلی کے اندھیروں میں گم ہو جائیں گے؟ یہ فیصلہ امت کے ہر فرد کے ہاتھ میں ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .