تحریر: مولانا امداد علی گھلو
حوزہ نیوز ایجنسی| گزشتہ چند ماہ کے دوران، اسرائیل اور اس کے اتحادیوں نے محورِ مقاومت کو کمزور کرنے کی بھرپور کوششیں کیں، لیکن میدانِ جنگ میں مسلسل ناکامیوں نے انہیں نفسیاتی اور عسکری طور پر بے حال کر دیا ہے۔ اسرائیل یہ امید لگائے بیٹھا تھا کہ وہ چند ہفتوں میں حماس اور حزب اللہ کو ختم کر دے گا، لیکن یہ خواب ناکامی کی دلدل میں دھنس چکا ہے۔ اپنی شکستوں پر پردہ ڈالنے کے لیے صہیونیوں نے تکفیری گروہوں کو میدان میں اتار دیا ہے۔
حلب کے حالات خراب کرنے کی اسرائیلی کوشش کا مقصد حزب اللہ کی کامیابی کو پس منظر میں دھکیلنا اور لوگوں کی توجہ اس اہم کامیابی سے ہٹا کر حلب کی جنگ پر مرکوز کرنا تھا، تاکہ محورِ مقاومت کو مسلسل دباؤ اور پریشر میں رکھا جا سکے۔
حالیہ دنوں میں، اسرائیل اور اس کے حامی خفیہ طور پر "احرار الشام" اور دیگر تکفیری گروہوں جیسے "تحریر الشام" کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ ادلب سے حلب تک ان گروہوں کی نقل و حرکت اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اسرائیل میدان جنگ میں براہ راست کامیابی حاصل کرنے سے قاصر ہے اور اپنی جنگی اسٹریٹیجی کو تکفیری پراکسیوں کے ذریعے جاری رکھنا چاہتا ہے۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اسرائیل کا ان گروہوں کی طرف رجوع کرنا دراصل اس کی کمزوری و ناکامی کا اعتراف ہے۔ اگر صہیونی طاقتیں مقاومت کو براہ راست ختم کرنے کی صلاحیت رکھتیں، تو انہیں چند "کرائے کے دہشت گردوں" پر انحصار کرنے کی ضرورت نہ ہوتی۔ اس طرح کے حربے نہ صرف اسرائیل کی عسکری ناکامی کو بے نقاب کرتے ہیں بلکہ اس بات کا ثبوت بھی ہیں کہ مقاومت کے خلاف ان کے پاس اب کوئی واضح اسٹریٹیجی نہیں رہی۔
حزب اللہ اور دیگر مقاومتی تنظیمیں دشمن کی ان نئی سازشوں کا بخوبی ادراک رکھتی ہیں اور اسی لیے وہ اپنی حکمت عملی میں مزید پُختگی اور مؤثر اقدامات یقینی بنائیں گی۔ یہ وقت ہے کہ دشمن کی کمزوریوں کو نہ صرف پہچانا جائے بلکہ ان کے پراکسی ہتھکنڈوں کو بھی ناکام بنایا جائے۔ مقاومتِ اسلامی صہیونی عزائم کو بے نقاب کرنے کے ساتھ ساتھ، تکفیری گروہوں کو عوامی سطح پر غیر مؤثر بنانے کے لیے معلوماتی جنگ میں بھی اپنی کامیابی یقینی بنائے گی۔
جیسا کہ گزشتہ تحریروں میں ذکر کیا گیا ہے، موجودہ دور میں جنگ کا ایک اہم پہلو معلوماتی جنگ ہے۔ مقاومت کے دلسوز کارکنان، چاہے وہ لبنان میں ہوں یا فلسطین میں، اس جنگ میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ صہیونیوں کی کمزوریوں اور ان کے پراکسی ہتھکنڈوں کو عام عوام تک پہنچانا نہایت اہم ہے تاکہ ان کے عزائم کو ناکام بنایا جا سکے۔
اسرائیل کی یہ حرکتیں اس کی کمزوری اور گھبراہٹ کو ظاہر کرتی ہیں۔ اگر مقاومت اپنی حکمت عملی کو مضبوط اور متحد رکھے گی تو اس سازش کو بھی دیگر تمام صہیونی منصوبوں کی طرح ناکام بنانا آسان رہے گا۔ تکفیری گروہوں کے ذریعے جو جنگ چھیڑی گئی ہے، وہ دراصل مقاومت کے خلاف نہیں بلکہ خود اسرائیل کی اپنی ناکامیوں کا اعتراف ہے۔
تکفیری گروہوں کو متحرک کرنے میں ترکی کا کردار نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ حالیہ دنوں میں، انقرہ نے ان گروہوں کو نہ صرف عسکری امداد فراہم کی ہے بلکہ سیاسی پشت پناہی بھی کی ہے۔ ترکی کی یہ پالیسی، جو بظاہر اس کے اپنے علاقائی مفادات کے تحفظ کے لیے ہے، درحقیقت اسرائیل کے فائدے میں ہے۔ ترکی کی جانب سے شام کے شمالی علاقوں میں مداخلت اور تکفیریوں کو مسلح کرنا، اسرائیلی منصوبے کا ایک حصہ دکھائی دیتا ہے، جس کا مقصد شام کو غیر مستحکم کر کے محور مقاومت کو مختلف محاذوں پر مصروف رکھنا ہے۔
اس ساری صورتحال میں امریکہ اور دیگر مغربی طاقتوں کی خاموشی ایک اہم نکتہ ہے۔ یہ طاقتیں، جو انسانی حقوق اور جمہوریت کے نام پر دنیا بھر میں مداخلت کرتی ہیں، شام میں تکفیری گروہوں کی حمایت اور اسرائیلی سازشوں پر آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔ یہ رویہ اس بات کا مظہر ہے کہ شام میں جاری جنگ، دراصل ایک عالمی سامراجی منصوبے کا حصہ ہے، جس کا مقصد اسرائیل کے مفادات کا تحفظ اور خطے میں مقاومت کی طاقت کو کمزور کرنا ہے۔
تکفیری گروہ، جو اسلام کا نام لے کر اپنی کاروائیاں کرتے ہیں، اپنی نظریاتی بنیادوں پر بھی شکست کھا چکے ہیں۔ ان کا اسرائیل کے ساتھ غیر علانیہ تعاون اور مقاومت کے خلاف کاروائیاں ان کے حقیقی چہرے کو بے نقاب کر چکی ہیں۔ آج عوام کے اندر یہ شعور پیدا ہو چکا ہے کہ یہ گروہ صرف اور صرف سامراجی اور صہیونی منصوبوں کے لیے ایک آلہ کار ہیں۔ مقاومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان گروہوں کے خلاف معلوماتی جنگ میں بھی کامیابی حاصل کرے تاکہ عوام کو ان کے اصل عزائم سے مزید آگاہ کیا جا سکے۔
حلب پر حملے کو صرف ایک جنگی کاروائی کے طور پر نہیں بلکہ ایک بڑی اسٹریٹجک سازش کے طور پر دیکھنا ضروری ہے۔ حلب شام کا ایک اہم شہر ہے، جو نہ صرف اقتصادی اور عسکری اعتبار سے بلکہ مقاومت کے لیے ایک مرکزی مقام کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر یہ شہر کمزور پڑتا ہے، تو اس کے اثرات نہ صرف شام بلکہ پورے خطے پر مرتب ہوں گے۔ اس لیے مقاومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ حلب کی حفاظت کو اپنی ترجیحات میں شامل کرے اور وہاں جاری جنگ کو دشمن کی شکست میں بدل دے۔
مقاومت کو موجودہ حالات میں دو سطحوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک طرف، تکفیری گروہوں کے خلاف میدان جنگ میں کامیابیاں حاصل کرنا اور دوسری طرف، سامراجی طاقتوں کی سازشوں کو بے نقاب کرنے کے لیے عالمی سطح پر مؤثر سفارتکاری۔ اس کے علاوہ، عوامی سطح پر اتحاد کو فروغ دینا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ دشمن کی تقسیم کرنے کی کوششوں کو ناکام بنایا جا سکے۔