تحریر: مولانا امداد علی گھلو
حوزہ نیوز ایجنسی| غاصب صیہونی ریاست اسرائیل، جو ہمیشہ اپنی جارحیت اور استعماری عزائم کے ذریعے خطے پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے، آج اپنی عسکری ناکامیوں اور شکست خوردگی کے باعث نئے راستوں کی تلاش میں ہے۔ حزب اللہ اور محور مقاومت کی شاندار کامیابیوں نے اسرائیل کی عسکری برتری کے دعوؤں کو مٹی میں ملا دیا ہے۔ نتیجتاً، اسرائیل نے اپنی بقاء کی جنگ میں تکفیری گروہوں کو ایک بار پھر متحرک کر دیا ہے، تاکہ خطے میں اپنی پراکسی جنگوں کے ذریعے مقاومتی تحریکوں کو دبایا جا سکے۔
حال ہی میں شام کے مختلف علاقوں، خصوصاً مشرقی اور شمالی حلب میں، داعش اور دیگر تکفیری عناصر کی سرگرمیوں میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ان گروہوں نے نہ صرف شام کی افواج پر حملے کیے بلکہ جنوبی محاذ پر شدت پیدا کرنے کے لیے اپنی قوّتوں کو منتقل بھی کیا ہے۔ یہ تمام کاروائیاں اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ صہیونی ریاست اپنی ناکامی کے بعد ان دہشت گرد گروہوں کو ایک نئے حربے کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ اسرائیل کے ساتھ ان گروہوں کے تعلقات کوئی راز نہیں رہے، بلکہ تاریخ میں بارہا یہ ثابت ہوا ہے کہ صہیونی ریاست ان تنظیموں کو عسکری اور مالی مدد فراہم کرتی رہی ہے۔
اس وقت شام کی فضائی افواج بھرپور کوشش کر رہی ہیں کہ ان دہشت گردوں کی نقل و حرکت کو روکا جا سکے اور ان کے منصوبوں کو ناکام بنایا جا سکے؛ لیکن ان واقعات کا پس منظر یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ یہ حملے محض شام تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ ان کا اگلا ہدف عراق ہو سکتا ہے۔ داعش کی پرانی اسٹریٹیجی کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش خطے میں ایک نیا بحران پیدا کرنے کی سازش ہے، جس کا مقصد مقاومت کی قوّتوں کو تقسیم کرنا اور انہیں داخلی مسائل میں الجھانا ہے۔
تکفیری عناصر کی ان سرگرمیوں سے واضح ہوتا ہے کہ یہ گروہ نہ تو اسلام کی حقیقی روح کی نمائندگی کرتے ہیں اور نہ ہی ان کے اہداف مسلمانوں کے مفادات سے ہم آہنگ ہیں۔ ان گروہوں کو اسرائیل کی جانب سے استعمال کرنا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ صہیونی ریاست، اپنی براہ راست شکست کے بعد، اپنے مخالفین کو کمزور کرنے کے لیے متبادل حربوں کا سہارا لے رہی ہے۔ ان تکفیریوں کی جارحیت، جو مسلمانوں کے درمیان تفریق اور انتشار پھیلانے کے لیے ڈیزائن کی گئی ہے، اسرائیل کے لیے ایک اہم ہتھیار بن چکی ہے۔
یہ امر حیران کُن ہے کہ ان گروہوں کے پاس جدید ترین ہتھیار اور وسائل موجود ہیں، جنہیں وہ مسلم ممالک کی افواج اور عوام کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہی توانائیاں اور وسائل اسرائیل کے خلاف مقاومت میں استعمال ہوتے تو کیا صورت حال مختلف نہ ہوتی؟ لیکن یہاں یہ حقیقت بھی واضح ہوتی ہے کہ صہیونی استعمار کے خلاف جنگ ایک عظیم نصب العین اور گہرے نظریے کی متقاضی ہے، جو ان حیوان صفت گروہوں کے بس سے باہر ہے۔ ان کے لیے جنّت کی بشارت اسرائیل کے خلاف جہاد میں نہیں بلکہ مسلمانوں کے خون بہانے میں مضمر ہے۔
داعش اور تکفیری گروہوں کی تحریر الشام کے نام سے حالیہ سرگرمیاں اس بات کی بھی نشاندہی کرتی ہیں کہ اسرائیل خطے میں اپنی شکست کے بعد سیاسی اور عسکری میدان میں دباؤ کو کم کرنے کے لیے انہیں میدان میں لایا ہے۔ یہ عمل اس بات کا ثبوت ہے کہ صہیونی ریاست نہ صرف اپنے اندرونی مسائل، مثلاً عوامی احتجاجات اور حکومتی بحرانوں سے نمٹنے میں ناکام ہو چکی ہے بلکہ اس کی عسکری طاقت بھی حزب اللہ اور دیگر مقاومتی تنظیموں کے خلاف بے بس ہو گئی ہے۔
اس تمام صورت حال کا ایک روشن پہلو بھی ہے: محور مقاومت، خصوصاً حزب اللہ، نے نہ صرف اسرائیل بلکہ اس کے پراکسی عناصر کو بھی بے نقاب کر دیا ہے۔ ان کی قربانیاں اور عزم، جو استقامت اور حقیقی جہاد کی مثال ہیں، یہ ثابت کرتے ہیں کہ صہیونی عزائم کے خلاف کھڑا ہونا صرف انفرادی طاقت سے ممکن نہیں بلکہ اللہ پر غیر متزلزل ایمان، اجتماعی اتحاد اور مضبوط نظریے کی ضرورت ہے۔
یہی مقاومتی تحریکیں، جو صہیونی استعمار کے خلاف سینہ سپر ہیں، اس بات کا عملی ثبوت ہیں کہ دشمن کی تمام چالوں کے باوجود، خطے کے باشعور عوام اسرائیل اور اس کے آلہ کاروں کے خلاف مقاومت جاری رکھیں گے، حتیٰ کہ فلسطین اور القدس کی آزادی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو جائے۔
مزید برآں، خطے میں جاری اس صورتحال نے نہ صرف سیاسی توازن کو متاثر کیا ہے بلکہ عالمی طاقتوں کے رویوں کو بھی عیاں کر دیا ہے۔ خاص طور پر مغربی ممالک کی جانب سے ان تکفیری گروہوں کی غیر مستقیم حمایت اور ان کے خلاف کاروائی کرنے میں پس و پیش ظاہر کرتی ہے کہ ان کے اس خطے میں کیا مفادات پوشیدہ ہیں۔ امریکہ اور اس کے اتحادی، جو بظاہر دہشت گردی کے خاتمے کے دعوے کرتے ہیں، درحقیقت ایسے عناصر کی پشت پناہی کے ذریعے خطے میں اپنے سیاسی و اقتصادی مفادات کو محفوظ بنانا چاہتے ہیں۔ علاوہ ازیں، یہ بھی واضح ہوتا جا رہا ہے کہ مقاومتی تحریکوں کی کامیابیاں نہ صرف اسرائیل بلکہ ان کے بین الاقوامی حواریوں کے لیے بھی ایک بڑا دھچکا ثابت ہو رہی ہیں۔ ان کامیابیوں نے اس بات کو بھی آشکار کیا ہے کہ مزاحمت محض عسکری طاقت تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک نظریاتی اور عوامی تحریک ہے، جس کے اثرات دیرپا اور گہرے ہیں۔
یہ بھی ضروری ہے کہ امت مسلمہ ان چالوں کو سمجھتے ہوئے متحد ہو اور اپنے وسائل و طاقت کو صہیونی سازشوں کے مقابلے کے لیے منظم کرے۔ اس وقت فلسطین کی آزادی، القدس کی بازیابی، اور مقاومتی اتحاد کا استحکام صرف ایک خطے کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری امت کے مستقبل کی جنگ ہے۔ اگر اس موقع پر مسلمان اتحاد اور بیداری کا مظاہرہ کریں تو نہ صرف صہیونی ریاست کے منصوبے ناکام ہوں گے بلکہ ایک نئی تاریخ رقم ہوگی، جس میں عدل و انصاف کی حکمرانی قائم ہو سکے گی۔