تحریر: مولانا امداد علی گھلو
حوزہ نیوز ایجنسی| لبنانی ذرائع سے سامنے آنے والی حالیہ رپورٹوں نے ایک ایسا انکشاف کیا ہے جو نہ صرف غاصب صیہونی فوج کے رویے کو عیاں کرتی ہیں، بلکہ اس کی اندرونی کمزوریوں کو بھی نمایاں کرتی ہیں۔
حزب اللہ کی طرف سے دشمن فوجیوں کو گرفتار کرنے کی کوشش کو ناکام بنانے کے لیے صہیونیوں نے انتہائی قدم اٹھایا اور اپنے ہی سپاہیوں پر ڈرون کے ذریعے میزائل داغ کر انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا۔ یہ واقعہ اس امر کا مظہر ہے کہ اسرائیلی فوج اپنے دشمن کے ساتھ جنگ میں اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے کس حد تک جا سکتی ہے۔
اسرائیلی اسٹریٹیجی کا یہ اقدام نہ صرف فوجی اصولوں کے منافی ہے بلکہ انسانی اقدار کو بھی پامال کرتا ہے۔ یہ اقدام اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ صہیونی حکومت قید میں جانے والے فوجیوں کے ممکنہ اثرات سے کس قدر خوفزدہ ہے۔ حماس کے ہاتھوں گرفتار فوجیوں کی وجہ سے اسرائیل کو شدید سیاسی اور عوامی دباؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور ان کے خاندانوں نے حکومت پر ناقابلِ برداشت دباؤ ڈالا ہوا ہے۔ اگر حزب اللہ ان فوجیوں کو گرفتار کر لیتی، تو نہ صرف اسرائیل کے لیے مزید مشکلات پیدا ہوتیں بلکہ ان گرفتار فوجیوں سے ممکنہ طور پر اسرائیل کی اندرونی اسٹریٹیجی، عسکری منصوبوں اور خفیہ معلومات افشا ہونے کا خطرہ بھی موجود تھا۔
یہ امکان بھی خارج از قیاس نہیں کہ حزب اللہ ان قیدیوں کو میڈیا کے سامنے لا کر ان سے اسرائیلی مظالم اور ان کے اپنے حکومت کے جھوٹے بیانیے کے خلاف بیانات دلواتی۔ اس کے ساتھ ساتھ، ان فوجیوں کی گرفتاری حزب اللہ کی سیاسی اور عسکری فتح کے طور پر دیکھی جاتی اور خطے میں اسرائیل کی ساکھ کو مزید نقصان پہنچتا۔ یہی خوف اسرائیلی فوج کے اس انتہائی قدم کی وجہ بنا۔ یہ حقیقت اسرائیلی اسٹریٹیجی کی ناپُختگی اور اس کے اندرونی خوف کو نمایاں کرتی ہے۔
اس واقعے کے بعد اسرائیل نے ضاحیہ اور نبطیہ کے علاقوں میں ہوائی حملے کر کے اپنا ردعمل ظاہر کیا۔ یہ حملے اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسرائیل اپنی ناکامیوں کو طاقت کے بے رحمانہ استعمال سے چھپانے کی کوشش کرتا ہے؛ لیکن یہ ردعمل اسرائیلی حکومت کی بے بسی کو مزید واضح کرتا ہے، کیونکہ اس قسم کے حملے ایک جارحانہ دفاعی پالیسی کے تحت کیے جاتے ہیں جو فوری نتائج کے لیے تو مؤثر ہو سکتے ہیں؛ لیکن طویل المدتی کامیابی کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں۔
حزب اللہ کے لیے یہ واقعہ ایک عسکری کامیابی سے کم نہیں، کیونکہ اسرائیلی فوجیوں کو قید کرنے کی کوشش میں ناکامی کے باوجود، اس نے اسرائیلی فوج کو اس حد تک مجبور کر دیا کہ وہ اپنے ہی سپاہیوں کو موت کے گھاٹ اتار دے۔ یہ حکمت عملی نہ صرف اسرائیل کی اخلاقی دیوالیہ پن کو ظاہر کرتی ہے بلکہ خطے میں اس کے کمزور ہوتے ہوئے اثر و رسوخ کی بھی عکاسی کرتی ہے۔
یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ اسرائیل کے لیے اب جنگ کے میدان میں اپنی کامیابی کو یقینی بنانا زیادہ مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ حزب اللہ اور دیگر مقاومتی تنظیموں کی حکمت عملی نہ صرف اسرائیل کے عسکری نظام کو چیلنج کر رہی ہے بلکہ اس کے اندرونی انتشار کو بھی نمایاں کر رہی ہے۔ یہی وقت ہے کہ عالمی برادری اس مسئلے پر توجہ دے اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف مؤثر اقدامات کرے۔ بصورت دیگر، یہ خطہ مزید کشیدگی اور عدم استحکام کا شکار ہو سکتا ہے، جس کے اثرات نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ دنیا بھر پر پڑیں گے۔
اسرائیلی فوج کی جانب سے اپنے ہی سپاہیوں کو نشانہ بنانا محض ایک واقعہ نہیں بلکہ اندرونی کمزوریوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس واقعے کے اثرات کئی زاویوں سے دیکھے جا سکتے ہیں:
اسرائیلی فوج کے مورال پر اس اقدام کا گہرا اثر پڑ سکتا ہے۔ ایسے حالات میں جب ایک سپاہی یہ دیکھے کہ دشمن سے بچانے کے بجائے اپنی قیادت نے انہیں ہی نشانہ بنا دیا ہے، تو اس کا اعتماد اپنی فوجی قیادت سے اٹھ جائے گا اور یہ چیز میدان جنگ میں ان کی کارکردگی کو متاثر کرے گی۔
اس واقعے کا اسرائیلی عوام پر بھی خاص اثر پڑے گا۔ فوجی اہلکاروں کے اہل خانہ جو پہلے ہی حکومت کے اقدامات پر تحفظات رکھتے ہیں، اس نئے واقعے کے بعد زیادہ شدید ردعمل دے سکتے ہیں۔ اس وقت اسرائیلی عوام پہلے ہی کئی مسائل کی وجہ سے داخلی طور پر منقسم ہیں اور یہ واقعہ ان اختلافات کو مزید ہوا دے سکتا ہے۔ اگر حزب اللہ نے اس واقعے کو میڈیا کے ذریعے عالمی سطح پر پیش کیا، تو حکومت کو عوامی دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا۔
بین الاقوامی سطح پر یہ واقعہ اسرائیل کے لیے ایک اور شرمندگی کا باعث بنے گا۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اس عمل کو اسرائیلی قیادت کی غیر انسانی پالیسیوں کا عکاس قرار دے سکتی ہیں۔ پہلے ہی فلسطین اور لبنان میں اسرائیلی مظالم پر عالمی سطح پر تنقید جاری ہے اور یہ واقعہ ان آوازوں کو مزید مضبوط کرے گا۔
یہ واقعہ اسرائیلی فوج کی ناکامی اور حزب اللہ کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف حزب اللہ بلکہ دیگر مقاومتی گروہوں کے لیے بھی حوصلہ افزائی کا باعث بنے گی۔
علاوہ ازیں، اس واقعے نے میدان جنگ میں تزویراتی حکمت عملی کے نئے امکانات پیدا کیے ہیں۔ حزب اللہ جیسی تنظیمیں مستقبل میں جدید ٹیکنالوجی اور پیشہ ورانہ مہارت کے ذریعے اسرائیلی فوجیوں کو گرفتار کرنے کی مزید کوششیں کر سکتی ہیں، جو اسرائیل کے لیے ایک بڑا چیلنج ثابت ہوگا۔
اسرائیل نے اپنے فوجیوں کو زندہ گرفتار ہونے سے بچانے کے لیے یہ انتہائی قدم اٹھایا؛ لیکن اس عمل نے اس کی عسکری قابلیت اور اخلاقی حیثیت پر گہری ضرب لگائی ہے۔ حزب اللہ کے ساتھ جاری اس تنازعہ میں یہ واقعہ مستقبل کے ممکنہ حالات اور واقعات کا رُخ متعین کرنے میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔