۲۶ آبان ۱۴۰۳ |۱۴ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 16, 2024
مولانا امداد علی گھلو

حوزہ/عراق میں حالیہ دنوں ایک اہم بیان سامنے آیا ہے، جس میں قومی حکمت تحریک کے سربراہ، سید عمار الحکیم نے واضح طور پر کہا کہ عراق اس وقت کسی بڑی علاقائی جنگ کے لیے تیار نہیں ہے۔ نجف میں ایک پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے وضاحت کی کہ عراق حماس اور حزب اللہ کی حمایت تو کر سکتا ہے، لیکن یہ حمایت صرف سیاسی، میڈیا اور انسانی امداد کے ذریعے ہی ممکن ہوگی۔

تحریر: مولانا امداد علی گھلو

حوزہ نیوز ایجنسی| عراق میں حالیہ دنوں ایک اہم بیان سامنے آیا ہے، جس میں قومی حکمت تحریک کے سربراہ، سید عمار الحکیم نے واضح طور پر کہا کہ عراق اس وقت کسی بڑی علاقائی جنگ کے لیے تیار نہیں ہے۔ نجف میں ایک پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے وضاحت کی کہ عراق حماس اور حزب اللہ کی حمایت تو کر سکتا ہے، لیکن یہ حمایت صرف سیاسی، میڈیا اور انسانی امداد کے ذریعے ہی ممکن ہوگی۔

عمار حکیم نے اپنے بیان میں یہ نقطہ اٹھایا کہ عراق نے ماضی میں مختلف جنگوں اور چیلنجوں کا سامنا کیا ہے۔ دو دہائیوں کی جنگوں، دہشت گردی، اور غیر ملکی مداخلت کے بعد عراق نے حالیہ دو سالوں میں داخلی استحکام حاصل کیا ہے۔ لہذا، وہ کسی نئی جنگ میں ملوث ہونے کے حق میں نہیں ہیں۔ یہ موقف بظاہر عراق کی داخلی سلامتی کو ترجیح دینے کی ایک حکمت عملی کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، مگر اس کے پیچھے کچھ اہم پہلوؤں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

یہ کہنا کہ عراق اس وقت جنگ کے لیے تیار نہیں ہے، ہمیں ماضی کی یاد دلاتا ہے جب عراق نے داعش کے خلاف جنگ میں حصہ لیا تھا۔ اس وقت عراق نہ صرف غیر تیار تھا بلکہ امریکہ کے زیرِ قبضہ تھا۔ اچانک داعش کے ابھرنے سے عراق کا ایک بڑا حصہ دہشت گردوں کے قبضے میں چلا گیا اور شیعہ، سنی، کُرد، سب کے خون سے زمین رنگین ہوئی۔ اگر اُس وقت ایران نے عراق کی مدد نہ کی ہوتی تو شاید عراق مکمل طور پر داعش کے ہاتھوں تباہ ہو جاتا۔

یہی صورتحال اب بھی درپیش ہے؛ صرف فرق یہ ہے کہ اس بار داعش کی جگہ ان کے سرپرست یعنی سامراج اور اسرائیل نے لے لی ہے۔ عراق کی غیر جانبداری کی پالیسی کو اس تناظر میں دیکھنا ضروری ہے کہ دشمن خطے میں اپنے ناپاک منصوبے کو مکمل کرنے کے درپے ہے۔

عراق کی عوام ہمیشہ سے مقاومت کے لیے تیار رہی ہے، چاہے وہ داعش کے خلاف ہو یا کسی اور دشمن کے۔ عراقی جوانوں نے اپنے خون سے وطن کی حفاظت کی ہے اور اپنے مقدّسات کی عزت کو برقرار رکھا ہے۔ مگر عمار حکیم جیسے رہنما اگر صرف سیاسی اور انسانی امداد کی بات کریں تو یہ ایک بڑی ذمہ داری سے فرار کے مترادف سمجھا جا سکتا ہے۔

حالیہ دنوں میں غزہ اور لبنان پر اسرائیلی جارحیت کے پیش نظر یہ کہنا کہ عراق کسی بھی قسم کے عسکری محاذ کے لیے تیار نہیں، ایک سوالیہ نشان ہے۔ دشمن، چاہے وہ اسرائیل ہو یا داعش، خطے کے ممالک کو ایک ایک کر کے اپنے جال میں پھنسانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر عراق آج پیچھے ہٹ جاتا ہے تو کل اس کے لیے بھی مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

آج کے دور میں جب دشمن ایک منظم منصوبے کے تحت اسلامی ممالک کو کمزور کرنے کی کوشش میں ہے، تو یہ وقت ہے کہ عراق جیسے ممالک اپنی دفاعی صلاحیتوں کو مستحکم کریں اور مقاومتی بلاک کے ساتھ کھڑے ہوں۔ عمار حکیم کا یہ کہنا کہ عراق جنگ کے لیے تیار نہیں، شاید داخلی سیاست کے تقاضے ہوں، مگر حقیقت یہ ہے کہ عراق کا دفاع خطے کے دیگر ممالک کی مقاومت کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔

لہذا، عراق کو چاہیے کہ وہ صرف سیاسی اور انسانی امداد تک محدود نہ رہے، بلکہ عملی میدان میں بھی اپنے کردار کو مضبوط کرے۔ ورنہ، وہ وقت دور نہیں جب دشمن بغداد کے دروازے پر ہوگا اور پھر عراق کے پاس بھی کوئی دوسرا راستہ نہیں بچے گا سوائے استقامت اور مقاومت کے۔

آج اگر ہم نے دشمن کے منصوبے کو نہیں سمجھا اور متحد نہیں ہوئے، تو کل تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ عمار حکیم کو بھی اپنے بیانات میں ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور قوم کو ایک نئے جذبے کے ساتھ متحد کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

عمار حکیم کے اس بیان پر غور کرتے ہوئے یہ بات بھی اہم ہے کہ عراق کی موجودہ سیاسی صورتحال اور خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پس منظر میں، صرف غیر جانبداری کا موقف اپنانا ممکنہ طور پر ایک بڑی حکمت عملی کا حصہ بھی ہو سکتا ہے۔ عراق حالیہ برسوں میں داخلی طور پر دہشت گردی اور عدم استحکام کے متعدد مراحل سے گزرا ہے اور اس وقت اس کی پہلی ترجیح اندرونی امن و استحکام کو برقرار رکھنا ہے۔ تاہم، اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ عراق کی جغرافیائی اہمیت اور قدرتی وسائل ہمیشہ سے دشمن کے لیے کشش کا باعث رہے ہیں۔

آج خطے کی صورتحال تیزی سے بدل رہی ہے۔ غزہ میں فلسطینی عوام اور لبنان میں حزب اللہ کی مقاومت نے خطے میں ایک نیا توازن پیدا کر دیا ہے۔ ایسے وقت میں عمار حکیم جیسے رہنماؤں کی جانب سے صرف سیاسی، میڈیا اور انسانی مدد کی بات کرنا ایک محدود حکمت عملی کو ظاہر کرتا ہے۔ جبکہ خطے کے دیگر ممالک جیسے کہ ایران، یمن اور شام نے عسکری میدان میں واضح موقف اپنایا ہے۔ اس پس منظر میں، عراق کی طرف سے مؤثر کردار ادا نہ کرنے کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ وہ دشمن کے لیے آسان ہدف بن جائے۔

عراقی رہنماؤں کو سمجھنا ہوگا کہ دشمن کی پیش قدمی صرف ایک مخصوص علاقے تک محدود نہیں رہے گی۔ اگر آج عراق فلسطینی اور لبنانی مقاومت کے ساتھ نہیں کھڑا ہوتا تو کل اس کی اپنی سرحدوں پر وہی جنگ دستک دے سکتی ہے جس سے وہ بچنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لہذا، عراق کے لیے بہتر ہوگا کہ وہ فقط غیر جانبداری کی پالیسی پر تکیہ نہ کرے بلکہ خطے میں ایک متحد مقاومتی بلاک کی تشکیل کے لیے آگے بڑھے۔ اس وقت مشترکہ حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ دشمن کی تمام چالوں کا مقابلہ کیا جا سکے۔

عمار حکیم کا بیان، بظاہر داخلی امن کی ترجیحات پر مبنی ہے؛ لیکن یہ یاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ داخلی استحکام کا تحفظ، خطے کے مجموعی استحکام سے جڑا ہوا ہے۔ عراق کو حماس اور حزب اللہ کی طرح ایک فعال کردار ادا کرنے کے لیے اپنی دفاعی اور عسکری طاقت کو بروئے کار لانا ہوگا۔ کیونکہ محض سیاسی بیانات اور انسانی امداد دشمن کی جارحیت کو روکنے کے لیے کافی نہیں ہوں گے۔

یہ وقت ایک بڑی مقاومتی حکمت عملی اپنانے کا ہے جس میں عراق، لبنان، یمن، شام، ایران اور دیگر ممالک مل کر ایک مضبوط دفاعی محاذ تشکیل دیں۔ اگر عراق نے خطے کے دیگر مقاومتی ممالک کے ساتھ ہاتھ نہیں ملایا تو اسے آنے والے وقت میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ دشمن کے ارادے واضح ہیں اور وہ کسی بھی لمحے خطے میں ایک نئی جنگ چھیڑ سکتا ہے۔

اس لیے، عراق کو چاہیے کہ وہ اپنے تاریخی کردار کو یاد کرے اور خطے کی مقاومت کی صفوں میں شامل ہو کر نہ صرف اپنی داخلی سلامتی کو یقینی بنائے بلکہ پورے خطے کے اسلامی ممالک کے دفاع کے لیے ایک مؤثر طاقت بن کر ابھرے۔

اگر آج عراق پیچھے ہٹتا ہے، تو کل پورا خطہ مزید عدم استحکام کا شکار ہو سکتا ہے اور اس وقت شاید عراق کے پاس کوئی دوسرا راستہ باقی نہ بچے سوائے ایک ناگزیر جنگ میں کودنے کے۔ اس لیے ضروری ہے کہ عمار حکیم جیسے رہنما خطے کی حساس صورتحال کو مدّنظر رکھتے ہوئے دور اندیشی اور جرأت مندانہ فیصلے کریں تاکہ آنے والی نسلیں ایک محفوظ اور مستحکم عراق میں پروان چڑھ سکیں۔

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .