تحریر: مولانا امداد علی گھلو
حوزہ نیوز ایجنسی | اسرائیل کی 75 سالہ تاریخ ایک ایسی داستان ہے، جس میں امن اور استحکام کا خواب مسلسل سراب بن کر ابھرتا رہا ہے۔ اس خطے میں اسرائیل نے اپنے بے جا قیام کے وقت سے ہی اپنی عسکری طاقت کے بل بوتے پر خود کو ناقابلِ شکست ریاست کے طور پر منوانے کی کوشش کی؛ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے وجود کے ابتدائی سالوں سے ہی مختلف تنازعات اور جنگوں میں الجھتا چلا آ رہا ہے۔
اسرائیلی ناجائز ریاست کو نہ صرف فلسطینی مقاومت نے ہمیشہ للکارا، بلکہ خطے میں موجود دیگر ریاستوں کے ساتھ بھی اس کا تعلق مسلسل کشیدگی کا شکار رہا۔ ان تمام ناکامیوں کے باوجود اسرائیل نے اپنی عسکری طاقت پر بھروسا کرتے ہوئے خود کو محفوظ سمجھنے کی کوشش کی، مگر وقت نے ثابت کیا کہ یہ محض خام خیالی تھی۔
موجودہ صورتحال میں اسرائیل کا وجود ایک ناکام منصوبے کی طرح نظر آتا ہے اور اس کے خاتمے کی علامتیں واضح ہو چکی ہیں۔ اسرائیل کے 75 سالہ سفر میں امن کا خواب کبھی بھی حقیقت نہیں بن سکا اور آج بھی یہ ریاست بدامنی کا شکار ہے۔ اسرائیل کے سامراجی سرپرستوں نے خطے کی سیاسی اور جغرافیائی حقیقتوں کو نظر انداز کیا اور غلط فیصلے کیے، جس کی وجہ سے آج اسرائیل کے لیے اپنی بقا کی جنگ لڑنا بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اسرائیل کی ناکامی کی بنیاد اس کی ابتدائی اسٹریٹیجی میں پنہاں ہے، جسے اس نے طاقت کے بل بوتے پر مضبوط بنانے کی کوشش کی؛ لیکن وہ بنیادی طور پر ناکام رہی۔
اسرائیل کے حالیہ حالات اس بات کے گواہ ہیں کہ اسے خطے میں شدید چیلنجز کا سامنا ہے اور ان چیلنجز کے سامنے اسرائیل کی طاقت کے دعوے بکھرتے جا رہے ہیں۔ فلسطینی مقاومت، جو کہ ایک عرصے تک صرف مقامی سطح پر محدود تھی، آج عالمی سطح پر اسرائیل کے خلاف مضبوط ہو چکی ہے۔ حزب اللہ کی فتوحات اور اس کی منظم قوّت بھی اسرائیل کے لیے مستقل خطرہ بن چکی ہے۔ داخلی سیاست میں بھی شدید بحران جاری ہیں اور عالمی سطح پر اسے جس حمایت کی ضرورت تھی، وہ بھی ماند پڑ رہی ہے۔ امریکہ جیسی سپر پاور نے افغانستان سے پسپائی اختیار کر کے ثابت کر دیا کہ جب کوئی طاقتور ملک ناکام منصوبے میں پھنستا ہے، تو اسے آخرکار پسپائی اختیار کرنا پڑتی ہے۔ اسرائیل کے لیے بھی وقت آ چکا ہے کہ وہ اس حقیقت کو تسلیم کرے اور خطے سے نکلنے کا راستہ اپنائے۔
اسرائیل کے داخلی مسائل بھی اس کی مشکلات میں اضافہ کر رہے ہیں۔ سیاسی بحران اور عوامی مظاہروں نے اس کی قیادت کو غیر مستحکم کر دیا ہے۔ بنیامین نیتن یاہو جیسا غاصب، جو برسوں تک اسرائیل کی طاقت کا مظہر سمجھا جاتا تھا، اب خود کو شدید تنقید اور دباؤ کا شکار پاتا ہے۔ اس کے خلاف مظاہروں نے اسرائیل کی اندرونی کمزوریوں کو مزید نمایاں کر دیا ہے۔ عالمی برادری کا رویہ بھی تبدیل ہو رہا ہے؛ وہ ممالک جو پہلے اسرائیل کے ساتھ کھڑے تھے، اب انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے سبب اس سے دور ہو رہے ہیں۔ یہ تمام عوامل مل کر اسرائیل کی بقا کو ایک نازک مرحلے پر لے آئے ہیں۔
یہ کہنا بجا ہوگا کہ اسرائیل کی موجودہ پوزیشن نہ صرف خطے میں بلکہ عالمی سطح پر بھی کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ اسرائیل کا انجام قریب ہے، اور یہ ناجائز ریاست اپنے قیام کے مقصد کو پورا کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ آج، اسرائیل کے لیے اپنی بقا کی جنگ مزید مشکل ہو چکی ہے، اور اسے اپنے فیصلوں پر دوبارہ غور کرنا ہوگا۔ بہتر یہی ہے کہ وہ خطے سے نکلنے کا فیصلہ کر لے اور اپنے بوریے بسترے سمیٹ کر کوچ کر جائے۔ امریکہ، جو مختلف ریاستوں کے اتحاد سے 'یونائیٹڈ اسٹیٹس آف امریکہ' کہلاتا ہے، اسرائیل کو بھی ایک اور ریاست کے طور پر اپنے ساتھ شامل کر لے۔
خطے میں جاری مقاومت کی لہر نے اسرائیل کے وجود کو ایک سوالیہ نشان بنا دیا ہے۔ جہاں ماضی میں اسرائیل اپنی عسکری برتری کے بل بوتے پر مخالفین کو دبانے میں کامیاب رہا، وہیں آج حالات مختلف نظر آتے ہیں۔ فلسطینی مجاہدین کی استقامت اور حزب اللہ کی متحرک قوّت نے اسرائیل کو اب ایک ایسی جنگ میں الجھا دیا ہے جس کا کوئی واضح حل نظر نہیں آتا۔ مقاومتی تنظیمیں اب نہ صرف مقامی بلکہ عالمی سطح پر پذیرائی حاصل کر چکی ہیں، جس نے اسرائیل کی خارجہ پالیسی کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔
علاوہ ازیں، اسرائیل کی سفارتی تنہائی بھی اس کے لیے ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہے۔ حالیہ برسوں میں، عرب ممالک کے ساتھ ہونے والے معاہدات کے باوجود، عوامی سطح پر ان معاہدات کو پذیرائی نہیں ملی۔خطے میں اسرائیل کے خلاف نفرت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
اسرائیل کی اندرونی کشمکش داخلی حالات کو مزید گھمبیر بنا رہی ہے۔ عوامی احتجاجات نے اسرائیل کے معاشرتی ڈھانچے میں ایک دراڑ ڈال دی ہے۔
اسرائیل کے حکمران طبقے کے درمیان بڑھتی ہوئی سیاسی رسہ کشی نے حکومتی معاملات کو مفلوج کر دیا ہے، جس کے باعث ریاست کی کارکردگی پر سوالات اٹھنے لگے ہیں۔
عوام اب اپنے مستقبل کو محفوظ نہیں دیکھ پا رہے ہیں، اس چیز نے انہیں پریشان کر رکھا ہے۔
وقت کا پہیہ اسرائیل کو ایک ایسے موڑ پر لے آئے گا جہاں واپسی ممکن نہیں ہوگی اور اس کے سامراجی سرپرست بھی اسے اس بحرانی کیفیت سے نکالنے میں ناکام رہیں گے۔ اسرائیل کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ عسکری قوّت کے بل بوتے پر دائمی امن ممکن نہیں اور شاید پسپائی ہی اب اس کے لیے واحد راستہ رہ جائے۔