تحریر: مولانا امداد علی گھلو
حوزہ نیوز ایجنسی| لبنان کی موجودہ صورتحال اور اس کے دفاع میں حزب اللہ کے کردار کو سمجھنے کے لیے رہبر معظم حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای کی ایک ملاقات کا ذکر بہت اہمیت رکھتا ہے۔ مارچ 2010 میں لبنان کے اس وقت کے وزیرِ ثقافت طارق میتری اور وزیراعظم سعد حریری تہران میں حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی حسینی خامنہ ای سے ملنے گئے؛ اس ملاقات میں حزب اللہ کے اسلحے کا موضوع پیش کیا گیا، جس پر حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے نہایت بلیغ انداز میں ایک استعارے کے ذریعے لبنان کی صورتحال کو واضح کیا۔
آیت اللہ العظمٰی سید علی حسینی خامنہ ای نے سعد حریری سے دریافت کیا کہ کیا انہوں نے وکٹر ہیوگو کا مشہور ناول "گوژپشت نوتردام" پڑھا ہے۔ یہ ناول پیرس کی ایک حسین عورت، اسمیرالڈا، کی کہانی بیان کرتا ہے جس کی خوبصورتی نے اسے طاقتور افراد کے لیے باعثِ کشش بنا دیا تھا۔ ہر طاقتور شخص اسے حاصل کرنا چاہتا تھا، اور اسمیرالڈا کو ان لوگوں کے استحصال سے بچانے کے لیے اپنے دفاع کے طور پر ایک تیز خنجر رکھنا پڑا۔ حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی حسینی خامنہ ای نے لبنان کو اسمیرالڈا سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ لبنان "بحیرہ روم کی دلہن" ہے، جس کی دلکشی اور مقام عالمی طاقتوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے، جبکہ اسرائیل کی شکل میں ایک سنگین خطرہ بھی موجود ہے۔ ایسی صورتحال میں، حزب اللہ کا اسلحہ لبنان کے لیے وہی حیثیت رکھتا ہے جو اسمیرالڈا کے لیے اس کا خنجر رکھتا تھا: ایک دفاعی ڈھال۔
یہ استعارہ عالمی منظرنامے میں لبنان کی صورتحال اور حزب اللہ کے کردار کو سمجھنے کے لیے انتہائی جامع اور مؤثر ہے۔ لبنان کی سرحد پر اسرائیلی جارحیت، غزہ میں اسرائیلی ظلم و ستم اور مشرق وسطیٰ میں طاقت کی کشمکش کو مدّنظر رکھتے ہوئے، یہ امر واضح ہے کہ لبنان جیسے چھوٹے ملک کے لیے اپنی آزادی اور خودمختاری کو برقرار رکھنا کس قدر مشکل ہے۔ ایک طرف طاقتور ممالک ہیں جو اپنے مفادات کی خاطر مشرق وسطیٰ میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانا چاہتے ہیں اور دوسری طرف اسرائیل ہے، جو خطے میں دہشت اور خوف کا باعث بنا ہوا ہے، نسل کشی اس کا پیشہ اور خاص وطیرہ ہے۔
حزب اللہ کے اسلحے کو اکثر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور اس پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ یہ لبنان میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ ہے۔ مگر اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ حزب اللہ نے نہ صرف لبنان کے دفاع میں ایک کلیدی کردار ادا کیا ہے بلکہ اسرائیلی جارحیت کا بھی ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے۔ حزب اللہ کے دفاعی اقدامات نے لبنان کو ایک مضبوط دفاعی حیثیت فراہم کی ہے اور اس کے اثرات آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ حزب اللہ کے اسلحے کو ختم کرنے کا مطالبہ دراصل لبنان کو اس کے دفاع سے محروم کرنے کے مترادف ہے اور یہ شاید لبنان کی خودمختاری اور سالمیت کو بھی داؤ پر لگا سکتا ہے۔
آیت اللہ العظمٰی سید علی حسینی خامنہ ای کے اس استعارے کے ذریعے پیغام بالکل واضح تھا: اگر لبنان کے عوام اور ان کی حکومت کو اپنے دفاع کی ضرورت ہے تو حزب اللہ کا کردار ناگزیر ہے۔ بین الاقوامی سطح پر لبنان کے دفاعی نظام کو کمزور کرنے کی کوششیں دراصل ایک خودمختار ریاست کو غیر مستحکم کرنے کی کوششیں ہیں۔ لبنان کو چاہیے کہ وہ اپنے دفاعی وسائل اور حزب اللہ جیسی مضبوط تنظیم کے کردار کو اہمیت دے، کیونکہ یہ محض ایک گروہ نہیں بلکہ ایک دفاعی قوت ہے جو لبنان کے استحکام کی ضامن ہے۔
اس تجزیے میں ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حزب اللہ کا اسلحہ اور اس کا کردار کسی جارحیت کے لیے نہیں، بلکہ اغیار کی جارحیت کو روکنے، لبنان کی حفاظت اور خصوصا اسرائیلی حملوں سے بچاؤ کے لیے ہے۔ عالمی برادری کو بھی چاہیے کہ وہ لبنان کو اپنے دفاعی وسائل برقرار رکھنے کی اجازت دے اور اسرائیل کی جانب سے پیدا ہونے والے خطرات کے سدِباب کے لیے اقدامات کرے۔ لبنان جیسے ملک کو عالمی طاقتوں کے دباؤ میں آکر اپنے دفاعی حصار کو کمزور نہیں کرنا چاہیے۔
حزب اللہ کا دفاعی کردار اسمیرالڈا کے خنجر کی مانند ہے، جو لبنان کو ہر اس جارحیت سے محفوظ رکھتا ہے جو اس کی آزادی اور خودمختاری کے لیے خطرہ ہو۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ لبنان جنگ چاہتا ہے، بلکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر لبنان نے اپنے دفاعی وسائل کھو دیے تو اسے دشمن کے لیے آسان ہدف بنا دیا جائے گا۔