تحریر: مولانا امداد علی گھلو
حوزہ نیوز ایجنسی| دنیا کی طاقتور ترین افواج میں شمار کی جانے والی اسرائیلی فوج نے استعماری اور سامراجی طاقتوں کی پشت پناہی کے ساتھ ایران پر حملے کی راہ اپنائی۔ یہ حملہ نہ صرف عسکری اعتبار سے اہم تھا، بلکہ ایک بڑی سامراجی سازش کے تناظر میں ایک خاص اہمیت رکھتا تھا۔ اس میں اسرائیلی فوج کی طاقت، جدید ہتھیار اور اعلیٰ جنگی حربی صلاحیتیں ایران کے استحکام کو نشانہ بنانے کے لئے استعمال ہوئیں؛ ایسے واقعات کی تجزیاتی گہرائی اور عسکری حکمت عملی پر تبصرہ عسکری ماہرین کا موضوع ہے؛ لیکن اس حملے پر ایرانی معاشرے کا جو طرزِ عمل سامنے آیا، وہ عوام کے عزم و استقلال اور اتحاد کا بھرپور عکاس ہے۔
ایران کے عوام نے نہ تو خوف و ہراس کا شکار ہوئے، نہ ہی کسی طرح کی نفسیاتی بے چینی نے اُنہیں متاثر کیا۔ نہ تو شاپنگ ہالز اور دکانوں پر ہجوم جمع ہوا، نہ ہی اسکول بند ہوئے اور نہ ہی عوام میں کسی طرح کی پریشانی کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا۔ اس صورت حال نے دنیا کو حیرت میں مبتلا کر دیا کہ ایرانی عوام کے رویے میں یہ استحکام اور حوصلہ کیوں اور کیسے آیا۔ یہ سوال یقیناً گہرے مطالعے کا تقاضا کرتا ہے۔
ایرانی قوم کے طرزِ عمل کو سمجھنے کے لیے ہمیں اُن کے تاریخی پس منظر کو دیکھنا ہوگا۔ ایران ایک ایسی قوم ہے جو صدیوں سے سامراجی طاقتوں کے مقابلے میں ڈٹی رہی ہے۔ انہوں نے انقلابِ اسلامی کے ذریعے اپنی خودمختاری اور آزادی کو قائم رکھا اور اس کی خاطر بےشمار قربانیاں دیں۔ سامراجی طاقتوں کے خلاف ایران کے عوام کا شعور محض سیاسی نہیں بلکہ اس میں گہری مذہبی اور نظریاتی جڑیں ہیں۔ ایرانی عوام نے اپنی تاریخ سے یہ سبق سیکھا ہے کہ جب بھی کوئی طاقت ان کی آزادی پر حملہ کرتی ہے، اُس کا مقابلہ اتحاد اور عزم سے کیا جاتا ہے۔
ایرانی عوام کے طرزِ عمل میں اس بات کا بڑا کردار ہے کہ اُن کی مزاحمتی ثقافت بہت مضبوط ہے۔ اسرائیلی حملے کے دوران خوف و ہراس کا نہ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ ایرانی عوام کے اندر اتحاد اور یکجہتی کی ایک قوت موجود ہے۔ ان کے ہاں مقاومت کو صرف ایک عمل کے طور پر نہیں بلکہ زندگی کے ایک فلسفے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ عوام کو یقین ہے کہ اسرائیلی حملے سے خوفزدہ ہونا درحقیقت دشمن کی کامیابی ہوگی، اس لئے وہ اپنے اعصاب کو مضبوط رکھتے ہوئے ثابت قدم رہتے ہیں۔
اس غیر معمولی رویے کے پیچھے ایرانی قیادت کی مضبوطی بھی ہے۔ ایران میں رہبرِ اعلیٰ کی قیادت ایک خاص اثر رکھتی ہے، جس سے عوام کے دل میں حوصلہ اور عزم پیدا ہوتا ہے۔ اسرائیلی حملے کے دوران ایرانی قیادت نے نہایت حوصلہ افزائی سے عوام کو متحد رکھا اور خوف کی فضا کو پھیلنے نہیں دیا۔ اس قیادت نے عوام کو باور کرایا کہ ہر مصیبت کا مقابلہ مضبوط ایمان اور استقامت سے کیا جاسکتا ہے۔
نفسیاتی جنگ میں بھی ایرانی عوام کی فتح نے دنیا کو حیرت زدہ کر دیا۔ عوام کا یہ طرزِ عمل ظاہر کرتا ہے کہ انہوں نے نفسیاتی طور پر خود کو مضبوط بنا رکھا ہے اور اسرائیل کی طرح کی جارح طاقتوں کے سامنے ان کے اعصاب کمزور نہیں ہوتے۔ یہ نفسیاتی مضبوطی انہیں اس قابل بناتی ہے کہ بڑے سے بڑے بحران کا سامنا بھی سکون اور استقامت سے کر سکیں۔
یہ بھی قابلِ غور ہے کہ ایران میں نوجوان نسل نے اس واقعے کے دوران جس ذمہ داری کا مظاہرہ کیا وہ قابل ستائش ہے۔ عام طور پر ایسی صورتحال میں نوجوان جلد جذباتی ردعمل دکھا سکتے ہیں، مگر ایرانی نوجوانوں نے اپنے بڑوں کے تجربات اور حکمت عملیوں کو اپنایا اور اس سامراجی اقدام کے خلاف مکمل سمجھداری سے کام لیا۔ یہ عمل ظاہر کرتا ہے کہ ایران میں تربیت اور قومی شعور محض الفاظ تک محدود نہیں بلکہ ہر فرد میں عملی طور پر موجود ہے۔ انہوں نے اس مشکل وقت میں قوم کے سامنے ایسی مثال قائم کی جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایرانی معاشرہ اپنی نظریاتی بنیادوں پر کس حد تک مضبوط ہے۔
اسرائیلی حملے اور اس کے ردعمل نے ایران کے مذہبی اور اخلاقی ڈھانچے کی بنیادوں کو اور زیادہ مضبوط کر دیا۔ اس واقعے سے عوام کے اندر موجود قربانی کا جذبہ اور اتحاد مزید اجاگر ہوا۔ دشمن کے حملے کا سامنا کرنے میں عوام نے جس استقامت کا مظاہرہ کیا، وہ ثابت کرتا ہے کہ وہ ہر آزمائش میں ایک متحد قوم کے طور پر ثابت قدم ہیں۔ اس طرزِ عمل کے پیچھے ایرانی معاشرت کے وہ اصول ہیں جو نوجوانوں اور بزرگوں دونوں کے دلوں میں جاگزیں ہیں۔
ایرانی معاشرے کا اسرائیلی حملے پر جو ردعمل سامنے آیا، وہ محض ایک ردعمل نہیں بلکہ ایک مضبوط پیغام ہے کہ حقیقی استقلال اور آزادی کو خوف اور بے چینی سے شکست نہیں دی جا سکتی۔ ایران کے عوام نے یہ ثابت کر دیا کہ جو قوم اپنے عزم میں ثابت قدم ہو، وہ دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت کے حملے کو بھی اپنی جرأت اور استقلال سے شکست دے سکتی ہے۔ ان کا طرزِ عمل ایک ایسی حکمت عملی ہے جو باقی دنیا کے لیے ایک سبق اور مطالعے کا اہم موضوع ہے۔