تحریر: امداد علی گھلو
حوزہ نیوز ایجنسی | یحییٰ سنوار ایک شجاعانہ معرکے میں شہید ہوئے، جہاں انہوں نے ہمیشہ دشمن کے ناپاک منصوبوں کو ناکام بنایا۔ انہوں نے یہ ثابت کیا کہ ایک طوفان برپا کیا جا سکتا ہے اور ظلم و جبر کے نظام کو دنیا سے مٹایا جا سکتا ہے۔ فلسطینی مجاہدین ایک اور عظیم ساتھی کی شہادت کا غم برداشت کر رہے ہیں؛ لیکن انہیں یہ یقین ہے کہ مظلوم قومیں اپنے شہیدوں کے مقدس خون سے زندہ و سرشار رہتی ہیں۔ شہید سنوار مقاومت اور استقامت کی ایک علامت تھے، اور ان کی زندگی کے آخری لمحات دنیا بھر کے حریت پسندوں کے لیے ایک مثال بن چکے ہیں۔
نڈر و بے باک مجاہد یحییٰ سنوار کی شہادت فلسطینیوں کے لیے نئی طاقت اور جذبے کا باعث بنے گی اور اسرائیل کی تباہی کو ناگزیر بنا دے گی۔
میدانِ مقاومت کے بہادر ہیرو یحیٰ سنوار نے دہائیوں تک بہادری سے لڑائی لڑی اور اپنے دیرینہ خواب کو پورا کر لیا، یعنی فلسطین و القدس کی آزادی کی راہ میں شہادت کے عظیم مرتبے پر فائز ہوئے۔
اس نڈر اور بے باک کمانڈر نے اپنی زندگی کے آخری لمحات تک، صہیونی دہشت گرد فوج کے گھیرے میں زخمی ہونے کے باوجود بھی میدانِ جنگ کو نہیں چھوڑا اور اپنے نوجوانوں اور بچوں کو یہ سبق دیا کہ فلسطین کبھی ہار نہیں مانے گا۔
صیہونی قابض ریاست اور اس کے دہشت گرد حامیوں کو ایک بار پھر دیکھنا پڑے گا کہ اسلامی مقاومت کے بہادر رہنماؤں کا قتل نہ صرف مشرق وسطیٰ کی مقاومت کے راستے کو نہیں روک سکے گا بلکہ ان شہادتوں سے مقاومت کی ثقافت اور ظالموں کے خلاف لڑنے کا جذبہ پورے عالم اسلام میں پھیلے گا۔
ناجائز صہیونی ریاست اپنے جرائم کے ذریعے مقاومت اسلامی کو روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکے گی۔ جنگ اور خونریزی کا خاتمہ صرف مقبوضہ علاقوں کی آزادی، فلسطینی مہاجرین کی واپسی اور فلسطینیوں کے مکمل حقوق کی فراہمی سے ہی ممکن ہے۔
شہید سنوار اپنے دین کی حفاظت، اپنی قوم کی عزت، اور اپنے غصب شدہ وطن کی آزادی کے راستے کے علمبردار تھے۔ وہ شخص جو ہمیشہ بے چین رہا اور مسلسل لڑتا رہا، اگرچہ اس کی پوری زندگی اپنے مقدس وطن کی آزادی کے لیے جنگ، قید اور مشکلات برداشت کرتے گزری؛ لیکن ان کی شہادت نے انہیں ایک لافانی تاریخی مثال و نمونہ بنا دیا۔
یحییٰ سنوار نے اپنی آخری سانسوں تک، اپنے کٹے ہوئے ہاتھوں اور وہاں موجود ایک لکڑی کے ٹکڑے کے ساتھ، جدید ٹیکنالوجی سے لیس اور مسلح دشمنوں کے سامنے ڈٹ کر بہادری سے جنگ کی۔ وہ اسرائیلی فوج کے چند قدم کے فاصلے پر کھڑے تھے اور اپنی قربانی کے ذریعے تمام نسلوں کو مقاومت اور آزادی کا سبق سکھایا۔
یحییٰ سنوار اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے بانی ارکان میں سے تھے۔ انہوں نے اپنی جوانی کے بہترین سال اسرائیلی جیلوں میں گزارے، بیس سال سے زیادہ قید کاٹنے کے بعد وہ وفاء الاحرار کے تبادلے میں سرخرو ہو کر آزاد ہوئے۔
رہائی کے فوراً بعد انہوں نے دوبارہ اسی جہادی راہ کو اپنایا اور آرام کی زندگی کو مسترد کیا۔ وہ حماس کی جہادی کاروائیوں کی نگرانی کرتے رہے اور القدس کی آزادی کی راہ میں مزاحمت کے محاذوں کے اتحاد میں اہم کردار ادا کیا۔ بعد میں وہ غزہ میں حماس کے سربراہ بنے اور ان کی قیادت کے دوران حماس کی جہادی، سیاسی اور تبلیغی سرگرمیوں میں بے مثال اضافہ ہوا، جس کا اختتام طوفان الاقصیٰ پر ہوا۔
اس دوران انہوں نے قومی اتحاد اور مشترکہ مزاحمتی کارروائیوں کو بھی فروغ دیا، یہاں تک کہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد انہیں اندرون اور بیرون ملک حماس کی قیادت سونپی گئی۔
جب مزاحمتی گروہوں، خاص طور پر حماس نے اس عظیم جنگ کا آغاز کیا، جس نے فلسطینی قوم اور امت کی جدوجہد کی تاریخ میں ایک اہم موڑ پیدا کیا، تو وہ جانتے تھے کہ آزادی کی قیمت بہت زیادہ ہے۔ ہر قوم کو آزادی سے پہلے یہ قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ یہ گروہ اپنی قوم کے بیٹوں کی قربانی دینے کے لیے تیار تھے، اس لیے انہوں نے اپنے کمانڈروں اور مجاہدین کو قربان کیا؛ لیکن دشمن کے سامنے جھکنے یا اپنے جائز حقوق کی لوٹ مار کے خلاف خاموشی اختیار کرنے سے انکار کیا۔
فلسطین کی آزادی، آخری صہیونی کے نکالے جانے اور فلسطینیوں کے جائز حقوق کی مکمل واپسی تک ان کی جہادی راہ کبھی نہیں رکے گی۔ اس کا بہترین ثبوت یہ ہے کہ طوفان الاقصیٰ جنگ کے ایک سال بعد بھی انہوں نے بھاری قیمت چکانے کے باوجود شکست تسلیم نہیں کی اور ہتھیار نہیں ڈالے اور صہیونیوں کی وحشیانہ نسل کشی کے باوجود ڈٹے رہے۔
ظالم و قاتل دشمن اگر یہ سوچتا ہے کہ بڑے مقاومتی رہنماؤں جیسے اسماعیل ہنیہ، سید حسن نصراللہ اور یحییٰ سنوار کے قتل سے وہ مقاومت کی آگ کو بجھا یا اسے پیچھے ہٹا سکتا ہے تو یہ اس کی خام خیالی ہے، بلکہ یہ تحریک اس وقت تک جاری رہے گی جب تک اس کے جائز مقاصد پورے نہیں ہو جاتے۔
شہادت کے رتبے پر فائز رہنماؤں نے اپنی قوم اور امت کے لاکھوں مجاہدین کو پیچھے چھوڑا ہے جو اللہ کے حکم سے اس وقت تک صہیونی قابضین سے لڑنے کے لیے پُرعزم ہیں، جب تک فلسطین اور مسجد الاقصیٰ کو ان کی ناپاکی سے پاک نہیں کر لیا جاتا۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ جہاد، یا تو فتح کی ضمانت ہے یا شہادت کی عظیم منزل۔