تحریر: ضامن علی
حوزہ نیوز ایجنسی | مزاحمتی نظریے کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ مزاحمت، خلقت کی ابتداء سے شروع ہوئی اور آج تک جاری ہے۔ مزاحمت، حضرت موسٰی علیہ السّلام نے فرعون کے مقابلے میں فرمائی، ختمی مرتبت حضرت رسول خدا صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے قریش کے مقابلے میں مزاحمت کا مظاہرہ فرمایا، امام علی علیہ السّلام نے بنو امیہ کے خلاف زبردست مزاحمت کا مظاہرہ فرمایا، امام حسن مجتبٰی علیہ السّلام نے نیز بنو امیہ کے مقابلے میں مزاحمت کی اور امام حسین علیہ السّلام نے یزید پلید کے خلاف مزاحمت کی اور خدا کے دین اور رسول خدا صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کے آئین کا دفاع کرتے ہوئے رہتی دنیا تک ابی الاحرار قرار پائے، ابی الاحرار حسین ابن علی ابنِ ابی طالب علیہم السّلام نے آخری وقت میں جب دشمن، ناموسِ رسالت کے خیموں کی جانب بڑھنے لگے تو فرمایا: .... يا شيعَةَ آلِ أَبي سُفْيانَ! إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ دينٌ، وَ كُنْتُمْ لا تَخافُونَ الْمَعادَ، فَكُونُوا أَحْراراً في دُنْياكُمْ هذِهِ، وَارْجِعُوا إِلى أَحْسابِكُمْ إِنْ كُنْتُمْ عَرَبَاً كَما تَزْعُمُونَ. آل ابو سفیان کے پیروکاروں سے مخاطب ہو کر فرمایا: ... اے آل ابو سفیان کے پیروکارو! اگر تمہارا کوئی دین نہیں ہے اور تم قیامت سے نہیں ڈرتے تو کم از کم اپنی دنیا میں آزاد رہو اور اگر تم اپنے آپ کو عرب سمجھتے ہو تو اپنے عربی کردار پر قائم رہو! یعنی حریت پسندی ضروری ہے، ورنہ مفاد پرست عناصر اور حکمران، سادہ لوح عوام پر مرضی سے حکومت کریں گے۔
مزاحمت، یعنی اپنے نظریے کا دفاع کرنے کو کہا جاتا ہے، اب ممکن ہے یہ نظریہ باطل بھی ہو سکتا ہے اور حق بجانب بھی ہو سکتا ہے، فی الحال ہماری بحث حق و صداقت پر مبنی نظریے سے ہے۔
ایک نظریے کو پیش کرنے اور پھر اسے پروان چڑھانے میں یقیناً طویل عرصہ درکار ہوتا ہے اور یہ سخت اور دشوار کام بھی ہے۔
جب کسی معاشرے میں ایک نظریہ قائم ہو، خواہ وہ مزاحمتی نظریہ ہو یا دینی و سیاسی نظریہ؛ پروان چڑھنے کے بعد پھر اسے ختم کرنا ناممکن ہوتا ہے۔
اگر ہم مذکورہ بالا نکات کی روشنی میں مزاحمت کو انبیاء علیہم السّلام کی روش یا شیوہ قرار دیں تو بے جا نہ ہوگا۔
یقین جانیں کہ دنیا میں آزادی پسند اور حق کے لیے مزاحمت کرنے والے ہی زندہ رہتے ہیں؛ تاریخی اعتبار سے بہت سی مثالیں اور واقعات موجود ہیں، لیکن ہم اختصار کی خاطر ان تمام واقعات اور مثالوں پر قلم فرسائی سے قاصر ہیں۔
دور حاضر کی مزاحمتوں کی جانب اشارہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مزاحمتی نظریے کو ختم کیا جانا بھول ہے۔
حزب اللہ لبنان، حماس، جہاد اسلامی، انصار اللہ یمن اور سوریہ کی مزاحمت یہ تمام مزاحمتی تحریکیں، انقلابِ اسلامی کے نتیجے میں وجود میں آئیں؛ ان سب کا رول ماڈل امام خمینی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی الٰہی تحریک، یعنی انقلابِ اسلامی ہے، کیونکہ انقلابِ اسلامی کا شعار ہی استکباری طاقتوں سے برسر پیکار رہنا اور عالمی سطح پر مظلوموں کی حمایت تھا اور انقلابِ اسلامی اپنے وعدوں کے مطابق مسلم مظلوم قوموں کی مدد اور حمایت جاری رکھے ہوئے ہے اور اس حوالے سے متعدد گوہر بھی گنوا دیئے ہیں۔
غاصب اور امریکی ناجائز اولاد اسرائیل نے حزب اللہ لبنان کے سابق سربراہ سید عباس موسوی کو بم سے اڑا کر کہا تھا کہ ہم نے حزب اللہ کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا ہے، اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ موسیٰ خدا کی مصلحت سے زندہ رہے گا اور اس کے خواب کو چکناچور کرے گا، سید عباس موسوی کے بعد سید حسن نصر اللّٰہ آئے اور بتیس سال تک حزب اللہ کی قیادت کی اور حزب اللہ کو پہلے سے کئی گنا مستحکم اور مضبوط کیا اور ان قابض اور غاصب ریاست کے ہاتھوں شہادت کے بعد، آج بھی غاصب اسرائیل پریشان ہے اور دعویٰ کر رہا ہے کہ سید زندہ ہیں اور کمانڈ کر رہے ہیں، اس بات سے دشمن کی کمزوری اور ضعف کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
خیر سے ان شاءاللہ؛ رہبرِ انقلابِ اسلامی حضرت آیت اللہ العظمٰی امام سید علی حسینی خامنہ ای مدظلہ کے فرمان کے مطابق، حزب اللہ کلمہ طیبہ کا تناور شجر ہے اور کامیابی بھی حزب اللہ کو ہی حاصل ہو گی اور غاصب اسرائیل واقعی معنوں میں کلمہ خبیثہ ہے اور اسے زمین کی سطح سے اکھاڑ پھینکا جائے گا۔
شہید اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد اب مزاحمتی محاذ کے لیے یحییٰ سنوار کی شہادت بھی یقیناً ناقابلِ فراموش نقصان ہے، لیکن نظریے کو ختم کیا جانا ناممکن ہے، کیونکہ لگ بھگ 75 سال سے جاری اس مزاحمت میں تحریکِ حماس نے بڑے بڑے کمانڈروں کی قربانیاں پیش کی ہیں، لہٰذا مزاحمت پہلے سے زیادہ جوش و جذبے کے ساتھ جاری رہے گی۔
نظریات کو شکست دینا ممکن ہوتا تو شیخ یاسین کی شہادت کے بعد ہی مزاحمت کا سلسلہ رک جاتا، لیکن شیخ یاسین نے پہلے ہی اسماعیل ہنیہ جیسے فرزند توحید و اسلام کو آمادہ رزم کیا تھا، تاکہ حق و باطل کی یہ تحریک رکنے نہ پائے۔
شہادت کی غیبی خبروں سے آگاہ شہید قدس، شہید اسماعیل ہنیہ نے شہادت سے پہلے ہی امام مقاومت، امام سید علی حسینی خامنہ ای مدظلہ سے ملاقات میں کہا تھا کہ جب ایک سردار جاتا ہے تو دوسرا سردار اس کی جگہ براجمان ہوتا ہے، یعنی مزاحمت کے تسلسل کی جانب اشارہ کر رہے تھے۔
اسماعیل ہنیہ کی المناک شہادت کے فوراً بعد یحییٰ سنوار کو تحریکِ حماس کے سربراہ کے طور پر منتخب کیا گیا، یوں دشمن کا خواب ایک مرتبہ پھر چکناچور ہوا، ان شاءاللہ دشمن کا یہ باطل خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔
فلسطین کے کیمپ میں پیدا ہونے والے نڈر اور بہادر کمانڈر یحییٰ سنوار کو نیز لباس رزم اور حالت جنگ میں گزشتہ دنوں شہید کیا، یوں یہ عظیم کمانڈر بھی اپنے دیگر بہادر اور شجاع ساتھیوں کی صف میں شامل ہوئے۔
شہید یحییٰ سنوار کی زندگی اور غاصب اسرائیل کے خلاف جنگ اور جدوجہد پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے، لیکن ہم اختصار کی خاطر صرف نظر کرتے ہیں۔
اس مرد میدان اور مجاہد نے جو وعدہ کیا تھا اسے پورا کر کے شہادت کے عظیم درجے پر فائز ہوئے، آپ کو شہید کے وہ تاریخی جملے یاد ہوں گے کہ نظریات بلٹ پروف ہیں اور صلح یا مذاکرات کچھ نہیں، یا فتح ہوگی یا پھر کربلا برپا ہوگی، شہید نے واقعی معنوں میں کربلا برپا کی اور خون کے آخری قطرے تک خدا کی زمین پر بدترین مخلوق یعنی صیہونیوں سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش فرمایا۔
انا لله و انا الیه راجعون.
آخر میں اتنا ضرور کہیں گے کہ کسی بھی نظریے کی حقانیت اور کامیابی کی اس سے بڑھ کر کوئی دلیل ہو ہی نہیں سکتی کہ اس نظریے کے بانی و قائدین ان نظریات کی بقاء کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کریں۔