۴ مهر ۱۴۰۳ |۲۱ ربیع‌الاول ۱۴۴۶ | Sep 25, 2024
News ID: 402614
24 ستمبر 2024 - 21:12
انقلاب کی آمد کا انتظار نہ کر!

حوزہ/ تواریخ گواہ ہیں کہ مسلمانوں نے تعلیم و تربیت میں معراج پاکر دین و دنیا میں سربلندی اور ترقی حاصل کی، لیکن جب بھی مسلمانوں نے تعلیم سے دوری اختیار کی وہ غلام بنا لیے گئے یا پھر جب جب بھی انہوں نے تعلیم کے روحانی فوائد اور اس کی معراجی بالیدگی کے مواقع سے خود کو محروم کیا تب تب اس نے بحیثیت قوم اپنی شناخت کھو دی اور دوسری قوم کے سرداران ان پر مسلط ہوگئے۔

تحریر: مولانا محمد رضا ایلیاؔ مبارکپوری

حوزہ نیوز ایجنسی| تواریخ گواہ ہیں کہ مسلمانوں نے تعلیم و تربیت میں معراج پاکر دین و دنیا میں سربلندی اور ترقی حاصل کی، لیکن جب بھی مسلمانوں نے تعلیم سے دوری اختیار کی وہ غلام بنا لیے گئے یا پھر جب جب بھی انہوں نے تعلیم کے روحانی فوائد اور اس کی معراجی بالیدگی کے مواقع سے خود کو محروم کیا تب تب اس نے بحیثیت قوم اپنی شناخت کھو دی اور دوسری قوم کے سرداران ان پر مسلط ہوگئے۔

آج مسلمانوں کے تعلیمی ادارے تعلیم دشمنوں کے نشانہ پر ہیں، طرح طرح کی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، طرح طرح کے مسائل سے دوچار ہو رہے ہیں۔ دشمن طاقتیں تعلیم سے دور کر کے ہمیں اور ہمارے بچوں کو موبائل گیمنگ، میچ فکسنگ، بیہودہ ریلیز، دیر رات تک چائے اور کھانے کے ہوٹلوں میں وغیرہ وغیرہ جیسے’’ مستقبل برباد مشن‘‘ کے ہاتھوں میں سونپ کر موت کے دہانے پر لاکر کھڑا کر دیا ہے اور ہم اپنے بچوں کو خوشی خوشی اس موت کے دلدل میں جاتے ہوئے دیکھ رہے ہیں اور تماشائی بنے ہوئے ہیں۔

ہر زمانے میں اسلام نظم وضبط اور حکمت کا دین رہا اور رہے گا اور مسلمانوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا ہے اور دیکھا جاتا رہے گا۔کیا ان قابل عزت دار انسانوں کو اب غلام کہنا صحیح ہے ؟؟ یا پھر حقیقت میں ہم ان کے منصوبوں کے غلام ہو چکے ہیں؟ کیا یہ ممکن ہے کہ مسلمانوں کی تاریخ کو جھٹلا دیا جائے اور انھیں یہ کہا جائے کہ جو شان و شوکت تم نے حاصل کی تھی وہ سازگار حالات کی وجہ سے تھی۔ وہ دن اب جاچکے ہیں اور پھر کبھی واپس نہیں آئیں گے۔

ہمارے معاشرے میں کچھ ایسے سماج دشمن عناصر بھی موجود ہیں جو اپنی سرداری، چوہدراہٹ، جاگیرداری کی طاقت وقوت کو استعمال کرتے ہوئے اپنے مفاد کی وجہ سے اپنے اثر و رسوخ والے علاقوں میں بچوں کی تعلیم میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں یہ بھی ایک قسم کی تعلیم دشمنی ہے جس کا تصفیہ کرنا ضروری ہے۔

زمین کی گہرائیوں تک اپنی جڑیں مضبوط کرنے والے درخت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا بہت مشکل ہوتا ہے، لیکن ہمیں اپنے اندر کے مرض تفرقہ بازی جیسی مشکلات کو حل کرنا ہو گا۔ عیسائیت اور یہودیت اسی فراق میں اپنی نظریں جمائے ہیں۔ مسلمان مشرق و مغرب، شمال و جنوب یہاں تک کہ دنیا کے ہر گوشے میں ہیں جو صرف اور صرف آپسی تفرقہ بازی جیسے حالات میں پھنسے ہوئے ہیں جس کا فائدہ دوسری قوموں کو مل رہا ہے ۔

ایک انگریز جاسوس کہتا ہے کہ اس بات سے ہم خوش ہیں کہ اب حالات مکمل طور پر تبدیل ہو چکے ہیں۔ ہماری وزارت اور دوسری عیسائی حکومتوں کی سخت جدوجہد کے نتیجے میں مسلمان زوال پذیر ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف عیسائیت اور یہودیت روز بروز ترقی کر رہی ہے۔ اب وقت آپہنچا ہے کہ ہم وہ مقامات دوبارہ حاصل کر لیں جو ہم صدیوں پہلے کھو چکے تھے۔ عظیم برطانیہ کی طاقتور مملکت اس نیک کام یعنی اسلام کی تباہی کا راستہ ہموار کرے گی۔

(انگریز جاسوس کے اعترافات اور انگریزوں کی اسلام دشمنی، مصنف محمد صدیق، ص-11)

آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے بچوں کے روشن مستقبل کی خاطر اپنے تعلیمی نظام کے مقاصد کو واضح کریں اور جہالت جیسے مہلک مرض کی طرف سب سے زیادہ توجہ دیں ۔ ہمیں ایسا تعلیمی ماحول اور نظام وضع کرنا ہو گا جو ہمارے اور معاشرے کے درمیان پل صراط کا کام کرے اس کے بعد ہی ہم اس نتیجے پر پہنچ سکیں گے جہاں پر ہم فخر سے یہ کہتے ہوئے نظر آئیں گے کہ ہم نے اس ملک اور قوم کی خدمت کی ہے ۔ اس کا واحد راستہ علم اور زبان کا سیکھنا ہے ۔

رسول خداﷺنے فرمایا : علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر واجب ہے اور حضرت علیؑ نے فرمایا: علم حاصل کرو گہوارے سے قبر تک۔ آپ کا ایک اور فرمان ہے کہ یتیم وہ نہیں جس کے والد کا انتقال ہو جائے بلکہ یتیم وہ ہے جس کے پاس علم و ادب نہ ہو۔ آپ علیہ السّلام نے نیز فرمایا: ہم اللہ کی تقسیم سے راضی ہیں کہ اس نے ہمارے لیے علم رکھا اور جاہلوں کے لیے مال رکھا۔ فرمایا کہ اے انسان تو کیا یہ سمجھتا ہے کہ تو ایک چھوٹی سی مخلوق ہے، ہر گز نہیں تمہارے اندر ایک عالم اکبر پوشیدہ ہے۔

اب ہمیں فیصلہ کرنا ہو گا کہ کیا ہم سب علم والے زمرے میں ہیں یا جاہلوں والے میں ہیں؟ اگر ہم سب حقیقی عاشق رسولﷺ و آل رسولؐ ہیں تو اس امر پر پوری سنجیدگی سے فکر و غور کرنا ہو گا۔

آخر میں، میں اپنی بات ایک واقعہ پر ختم کرتا ہوں جو ہمارے لیے بہترین مشعل راہ ہے اور ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

ابوہاشم بیان کرتے ہیں کہ میں ایک دن مولا امام علی نقی ؑ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے مجھ سے ہندی زبان میں گفتگو کی جس کا میں جواب نہ دے سکا تو آپ نے فرمایا کہ میں تمہیں ابھی تمام زبانوں کا عالم بنائے دیتا ہوں یہ کہہ کر آپ نے ایک سنگریزہ اٹھایا اور اسے اپنے منہ میں رکھ لیا اور اس کے بعد اس سنگریزہ کو مجھے دیتے ہوئے کہا کہ اسے چوسو! میں نے منہ میں رکھ کر اسے اچھی طرح چوسا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میں (73) زبانوں کا عالم بن گیا جن میں ہندی بھی شامل تھی ۔ اس کے بعد سے پھر مجھے کسی زبان کو سمجھنے اور بولنے میں کسی بھی طرح کی کوئی مشکل درپیش نہیں آئی۔

اس واقعے سے متعدد نکات نکل کر ہمارے سامنے آتے ہیں اور یہ بات صاف طور پر ظاہر ہوتی ہے کہ اگر انسان علم کے شہر اور اس کے دروازے پر اپنا سر عاجزانہ اور ملتجانہ طور پر جھکا دے تو کوئی کام مشکل نہیں ہے۔ ہمارے آقا ہمیں یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہمیں ایک زبان تک بالکل محدود نہیں رہنا چاہیے، بلکہ جب تک ہم دیگر زبانوں میں ماہر نہیں ہوں گے دوسری قوموں تک اپنے پیغام کو کیسے پہنچا سکیں گے؟؟ جب اس کا محب اپنے آقا کے لعاب دہن سے اتنی صلاحیت کا مالک ہو سکتا ہے تو اس کے آقا کا کیا عالم ہو گا؟ اہل علم کم سے کم اپنے آپ کو اس لائق تو بنا لیں کہ اس کا آقا اپنے لعاب دہن سے متعدد زبان کے دروازے کھول دیں ۔

تاریخ گواہ ہے کہ انکساری اور حسن اخلاق دو ایسے انمول تحفے ہیں جس کے سبب ہم سب کچھ حاصل کر سکتے ہیں۔ اس کا مطلب کیا ہوا کبھی ہم نے سوچا؟ یہ واقعہ ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے یہ واقعہ کیوں رونما ہوا ؟ اگر ہم حقیقی عاشق رسولﷺ و آل رسولؑ ہیں تو ہمیں ان کی بارگاہ میں استدعا کرنی چاہیے، مولا ہمیں بھی ایسے سنگریزے کی سخت ضرورت ہے جس سے علوم کے 73 دروازے کھلے۔

دور کر دو میری مشکل اے میرے مشکل کشاء؟

تبصرہ ارسال

You are replying to: .