تحریر: ڈاکٹر شجاعت حسین
چشمٍ بینا کا چمکتا ہوا تارا صادقؑ
قلزمٍ جہل میں حکمت کا کنارا صادقؑ
موڑ دے کبر کے طوفاں کو وہ دھارا صادقؑ
ظلمتٍ کذب میں اک ضو کا منارا صادقؑ
آپ نے ضوئے عمل نوعٍ بشر کو بخشی
روشنی فقہٍ محمدؐ کی سحر کو بخشی
جب فلسفہ کی تاریخ میں یہ کہا جاتا ہے کہ سقراط نے انسانوں کے لئے آسمان سے فلسفہ نازل کیا تو امام صادق علیہ السلام نے آسمان، زمین، انسان اور دین و شرائع کا درس دیا ہے۔ امام جعفر صادقؑ اپنے زمانے کی فکری طاقت تھے۔ آپ کے کام صرف اسلامی دروس، علوم قرآن، سنت اور عقیدہ پر اکتفا نہیں کیا بلکہ آپؑ نے کائنات اور اس کے رموز و اسرار کا بھی درس دیا۔ اپنی عقل کو آسمانوں، شمس و قمر، بحر و بر اور ستاروں کے مدار پر محیط کر دیا۔
آپؑ نے ایک یونیورسٹی قائم کی جس کا نام جعفریہ یونیورسٹی مدینہ ہے۔ اس یونیورسٹی کے متعلق کتاب حیات الا الصادق میں مفصل طور پر گفتگو کی گئی ہے۔ جس یونیورسٹی کی امام صادق علیہ السلام نے بنیاد ڈالی اس کا بڑا مرکز یثرب میں تھا۔ اور جامع نبوی عظیم میں آپؑ اپنے محاضرات و دروس دیا کرتے تھے اور بعض اوقات آپؑ کے بیت الشرف کے صحن میں بھی یہ دروس کا اہتمام ہوتا تھا۔
عالم اسلام کے مختلف مقامات کے بزرگان فضیلت جلدی جلدی اس درسگاہ سے کسب فیض کے لئے حاضر ہونے لگے۔ امامؑ کی یونیورسٹی کے طالب علموں کی تعداد چار ہزار تھی۔ اس سلسلے میں حافظ ابو عباس بن عقدہ ہمدانی کوفی، ڈاکٹر محمود خالدی، معتبر محققین و محدثین کی کتابیں دستیاب ہیں جس کا مطالعہ کرکے مزید تفصیلات حاصل کی جا سکتی ہیں۔
امام جعفر صادق علیہ السلام کی ولادت 17 ربیع الاوّل یوم دوشنبہ 83 ہجری یعنی آج سے 1363 سال قبل اور انگریزی کیلنڈر کے اعداد و شمار کے مطابق 702 عیسوی یعنی 1322 سال قبل مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ (ارشاد مفید، صفحہ 414)۔ آپ کی ولادت کے بعد ایک دن حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ میرا یہ فرزند ان چند مخصوص افراد میں سے ہے جن کے وجود سے خدا نے بندوں پر احسان فرمایا ہے اور یہی میرے بعد جانشین ہوگا۔
اگر ہم اپنی محدود زندگی اور قیمتی وقت کا استعمال کتابوں کی ورق گردانی میں کریں تو نتیجہ یہ نکال پائیں گے کہ اصل میں یوروپ کی ترقی یافتہ دنیا کہ سائنسدانوں اور دانشوروں کی اپنے معیارات اور نقطۂ نظر کے مطابق علمی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ یہ نتائج جن پر ان یوروپی دانشوروں نے رسائی حاصل کی ہے دراصل وارث پیغمبراکرمؐ، مذہب اہلبیتؑ کے موسس و بانی، الٰہی سلسلۂ خلافت و امامت کے چھٹے تاجدار اور اسلامی شاہراہ ہدایت کے روشن منارے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے کرامات سے منسوب ہیں۔ آپ کی تصانیف کا شمار نہیں کیا جاسکتا۔ آپؑ نے بے شمار کتابیں و رسالے اور مقالات سے دُنیا والوں کو فیضیاب فرمایا ہے۔
آپؑ نے علم دین، علم کیمیا، علم رجز، علم فال، علم فلسفہ، علم طبیعیات، علم ۂیت، علم منطق، علم طب، علم سمیات، علم تشریح الاجسام و افعال الاعضا وغیرہ پر خامہ فرسائی فرمائ ہے۔ (حوالے کے لیے شیخ کلینی، شیخ طوسی، شیخ مفید، شیخ صدوق اور علامہ مجلسی کی کتابیں دیکھیں)
امام جعفر صادق علیہ السلام جدید علمی دور کے موجد ہیں، عرفان کے بانی ہیں، شیعی ثقافت کی تشکیل کی، آپؑ کی نظر میں علم ادب ضروری ہے اور اس کا لازمی طور پر مطالعہ کیا جائے۔
قارئین کرام کو امام صادقؑ کے اس مختصر جملے پر توجہ دینی چاہیے: "یتیم وہ نہیں جس کا باپ مر گیا ہو بلکہ وہ ہے جو علم و ادب سے بے بہرہ ہو۔"
آپ نے فرمایا کہ ایک عام انسان کا ایمان بالکل سطحی اور غیر مستحکم ہے۔ لیکن وہ مومن جو علم و ادب کا حامل ہے اسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیوں اور کس پر ایمان رکھتا ہے اور اس لیے مرتے دم تک اس کا ایمان سلامت رکھتا ہے۔
اہل تشیع میں یہ ادراک و فہم ہونی چاہیے کہ امام صادقؑ کو ادب سے زیادہ دلچسپی تھی یا علم سے؟ آپ کے ذہن میں شعر کی زیادہ اہمیت تھی یا علم طب کی؟ ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے جنہیں علم اور ادب دونوں سے یکساں دلچسپی رہی ہو۔ کیونکہ تمام نوع بشر کی فکر استعداد کچھ اس انداز کی ہے کہ وہ ادب سے دلچسپی رکھتے ہیں یا علم سے۔ آج کے شعراء کرام کے معلومات میں اضافے کے لیے یہ بھی قابل ذکر ہے کہ عربوں میں ادب کا اطلاق شعر پر ہوتا تھا جبکہ یہ جاہلیت کا دور تھا اور زبان کا نثری ادب سے رشتہ استوار کرنے والی ہستی امام صادقؑ کی ذات گرامی ہے۔ آپ علم و ادب کو نہ صرف مذہبی ثقافت کے اعتبار سے ضروری سمجھتے تھے بلکہ ارتقاء بشر اور مستحسن صفات کی تقویت کے لیے بھی اسے ضروری سمجھتے تھے۔
عام طور پر لوگوں کو ثقافت کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہے اور شروع کے پانچ اماموں کا بھی کوئی قابل ذکر کام اس شعبہ میں نہیں ہے۔ قارئین کرام غور کریں، امام صادقؑ نے مذہب شیعہ کی خدمت دو طریقوں سے کی۔ ایک تو یہ کہ آپؑ نے علوم کی تدریس کے ذریعے اہل تشیع کو دانشمند بنایا جس کے سبب ایک شیعی ثقافت وجود میں آئی۔ شیعی ثقافت کے وجود میں آنے سے اس مذہب کو بڑی اہمیت و تقویت حاصل ہوئی۔ اور شیعہ مذہب کے ہر فرد کو احساس ہے کہ ثقافت ان کی تقویت کا باعث ہے۔ (یونان کی طرح) بعض قدیم قومیں آج اس لیے وجود میں ہیں کہ ان کی اپنی ثقافت ہے ورنہ وہ رفتہ رفتہ صفحۂ ہستی سے ختم ہو جاتی، دوسری ظالم حکومتیں انھیں مٹی میں ملا دیتی ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ شیعہ کو ختم کرنے کی بہت کوشش کی گئی، ظالم و جابر بادشاہوں کی ایک طویل فہرست ہے کے اکیلے مضبوط و مستحکم ثقافت نے ہی بحفاظت ابتک سلامت رکھا۔ اور اس کا تاج امام جعفر صادق علیہ السلام کے سر ہے۔
امام صادقؑ نے محسوس کیا کہ مذہب شیعہ کے لیے ایک معنوی اساس کی ضرورت ہے تاکہ آئندہ ادوار میں کسی کے آنے اور کسی کے جانے سے اس مذہب پر کوئی منفی اثرات مرتب نہ ہوں۔ آپؑ تدریس کے آغاز سے ہی اپنا لائحۂ عمل کو جانتے تھے۔ آپؑ اچھی طرح جانتے تھے کہ شیعہ مذہب کو باقی رکھنے کے لیے بس یہی ایک طریقہ ہے کہ اس کے لیے ایک ثقافت تشکیل پائے۔
یہ بات واضح کرتی ہے کہ یہ شخصیت نہ صرف علمی لحاظ سے فہم و فراست کی حامل تھی بلکہ آپؑ کو سیاسی تدبر حاصل تھا۔ اور آپؑ کو علم تھا کہ مذہب شیعہ کی تقویت کے لیے کسی ثقافت کی تشکیل طاقتور فوج تیار کرنے سے بہتر ہے۔ کیونکہ ایک طاقتور فوج ممکن ہے اپنے سے زیادہ طاقتور فوج کے ہاتھوں مغلوب ہو جائے لیکن ایک مضبوط، مستحکم اور وسیع ثقافت ہرگز تباہی کا شکار نہیں ہو سکتی۔ آپؑ نے یہ بھی اندازہ لگایا کہ اس ثقافت کو جلد از جلد وجود میں آجانا چاہیے تاکہ وہ ان تمام فرقوں پر فوقیت رکھے جو اسلام میں ظہور پذیر ہو رہے تھے اور ابھی ثقافت سے ان کا دور کا رشتہ بھی نہ تھا۔
آخر میں یہ بھی لکھ دیا جائے۔ امام صادق علیہ السلام سے کسی چاہنے والے شخص نے پوچھا کہ متعدد علوم میں کون سا علم دوسروں پر ترجیح رکھتا ہے تو آپ نے جواب دیا کہ کُلی حیثیت سے تو کوئی علم دیگر علوم پر ترجیح نہیں رکھتا لیکن استفادہ کے مواقع ایک دوسرے میں امتیاز پیدا کرتے ہیں۔
یہ لمحۂ فکریہ صرف علماء کرام، ذاکرین، مقررین، مبلغین، واعظین، متکلم، خطبا ٕ اور شعراء کرام کے لیے نہیں ہے بلکہ تمام مومنین و مومنات کو تدبر و تفکر کرنے کی ضرورت ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کی عظمت و جلالت کا اعتراف کرنے کہ باوجود، اُن کے اُسوۂ حسنہ کو اپنانے، اور اُن کی ہدایت کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش نہیں کرتے، اُن کے لیے یہ بات خصوصی و لازمی طور پر لمحۂ فکریہ ہے کہ عظمت و جلالت کا زبانی اعتراف تو آپؑ کے دشمنوں بلکہ یوں لکھا جائے کہ آپؑ کے قاتلوں نے بھی کیا ہے۔ لیکن کیا کسی عظیم المرتبت امام کی بزرگی کا اعتراف ہی چاہنے والوں کی نجات کے لیے کافی ہوسکتا ہے۔ کیا خالق کائنات نے ہادیان برحق کو ان کمالات سے صرف اسی لیے نوازا تھا کہ اُن کی محبت کا دعویٰ کرنے والے، انسان کمالات کا صرف اعتراف کرلیں؟
حالانکہ حقیقت تو یہ ہے کہ آپؑ کو امام برحق اور ہادی خلق ماننے کا تقاضہ یہ ہے کہ آپ کی ہدایات پر مکمل عمل کیا جائے۔ آپؑ کے اُسوۂ حسنہ کو اپنی عملی زندگی میں اپنایا جائے اور واجبات و محرمات کے سلسلے میں آپؑ کی واضح تعلیمات کو پیش نظر رکھا جانا فریضہ اور باعث نجات ہیں۔ کیا یہ حدیث ذہن نشین نہیں ہے کہ آپؑ 'کشتیٔ نجات' اور 'چراغ ہدایت' ہیں۔