۲۵ آذر ۱۴۰۳ |۱۳ جمادی‌الثانی ۱۴۴۶ | Dec 15, 2024
زینب

حوزہ/علامہ کاشفی کا بیان ہے کہ جب کربلا میں صبح کا ابتدائی حصہ ظاہر ہو گیا تو آسمان سے آواز آئی یا خلیل اللہ ارکبی۔ اے اللہ کے بہادر سپاہیوں! تیار ہو جاؤ۔ موقع امتحان اور وقت موت آرہا ہے۔ (روضتہ الشہداء،  صفحہ 312، مہیج الاحزان، صفحہ  102)

تحریر: ڈاکٹر شجاعت حسین

حوزہ نیوز ایجنسی| علامہ کاشفی کا بیان ہے کہ جب کربلا میں صبح کا ابتدائی حصہ ظاہر ہو گیا تو آسمان سے آواز آئی یا خلیل اللہ ارکبی۔ اے اللہ کے بہادر سپاہیوں! تیار ہو جاؤ۔ موقع امتحان اور وقت موت آرہا ہے۔ (روضتہ الشہداء، صفحہ 312، مہیج الاحزان، صفحہ 102)

اگر اسلامی تاریخ میں سن 61 ہجری کا مطالعہ کیا جائے تو حضرت زینبؑ و ام کلثومؑ، بضعت مصطفیٰ لخت جگر فاطمتہ الزہراؑ، دختر شیر خدا اور نواسیٔ رحمتہ للعالمین کا بڑا سخت ترین وقت رہا ہے، وہاں ایک محقق، مصنف، صحافی یا مورخ کے لیے بھی سیرت زینب و ام کلثوم پر قلم کاری آسان نہیں کیونکہ ان کے مصائب ہی فضائل و کمال ہیں۔ اتنی فصیح و بلیغ شخصیتیں جن کا احاطہ ایک مقالہ میں پیش کرنا اسی مثال کے مترادف ہے کہ سمندر کو کوزہ میں ڈالنا۔ کسی ایک پہلو پر بھی روشنی ڈالنا ممکن نہیں۔ یہ مشکل صورت حال خطبا ٕ و ذاکرین کو بھی سدا درپیش رہتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ دختران شیر خدا توحید کی بقا کے لیے قربان ہو گئیں لیکن آج تک کوئی عالم، فاضل، ذاکر، محقق، مورخ، دانشور یا ادیب انہیں ادراک انسانی کی حد تک بھی جامع خراج تحسین پیش کرنے سے قاصر رہا ہے، 1385 سال گزر چکے ہیں اور ابھی کتنا وقت درکار ہے یہ معین کرنا مشکل ہے۔

حضرت امیر المومنین علیؑ ابن ابوطالب علیہ السلام کی دونوں بیٹیاں، زینبؑ و اُمٍٍّ کلثومؑ نے بعد شہادت سیدالشہدا جو کمال و فضائل کربلا سے کوفہ اور کوفہ سے بازار شام اور دربار یزید (ملعون) میں مظاہرے کئے ان کارناموں سے عرب کے کتب خانے بھرے پڑے ہیں۔ یہ معلومات ایک معروف علامہ محمد علی حسنین نجفی(پاکستان) نے دی۔ وہ تحقیق و تدریس کے لیے مصر کی ایک مشہور یونیورسٹی میں ممتاز مفکر و فلسفی، تنتاوی، طریقت سے ملاقاتیں کیں، جنھوں نے صحیفۂ کاملہ کا پیش لفظ لکھا ہے، اور اس کو زبورٍ آلٍ محمدؐ قرار دیا ہے، مزید کہتے ہیں کہ حیدر کرار حضرت علی علیہ السلام کی دو شہزادیوں نے یزید ابن معاویہ (لعنت اللہ) کی 38 لاکھ مربع کلومیٹر میں پھیلی حکومت کو محض دو سال نو مہینوں میں ختم کر دی۔ دونوں شہزادیوں نے صرف دو محاذ قائم کئے: داخلی اور معاشی۔ معاشی بحران پیدا کیا۔ وہ یوں ہوا کہ ملکتہ العرب، خدیجتہ الکبراؑ کی زندگی کے دوران روم سے تجارتی معاہدہ عمل میں آیا تھا جسے ذہانت سے منسوخ کرایا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ درآمدات و برآمدات مفلوج ہو گۓ، یزید کی حکومت کا دیوالیہ ہو گیا اور داخلی محاذ پر زینبؑ و ام کلثومؑ کی عزاداری، خطبے، کربلا کے مقصد و پیغام کی تشہیر نے مضبوط، منظم، ظالم و فاسق حکومت کو نیست و نابود کر دیا۔

سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کی دو شریکتہ المقاصد بقائے دیں ہمشیرہ، شیر خدا کی بیٹیاں، حضرت زینبؑ اور حضرت اُمّ کلثوم سلام اللہ علیہا نے توحید کی چھاؤں میں، رسالت کی آغوش میں، عصمت و طہارت کی گود میں اور پانچ امامتوں کے ماحول میں زندگی گزاری۔ قارئین اور عزاداران سید الشہدا آپؑ دونوں کو توحید میں تلاش کریں، رسالت میں ڈھونڈیں، سیدہ عالمیانؑ کی حیات مقدسہ میں تلاش کریں، مدینتہ العلم و سلونی سلونی کے فصاحت، بلاغت اور لب و لہجے میں مشاہدہ کریں، مظہر شجاعت حیدرٍ کرار ہیں، حکمت صُلحٍ حسنؑ میں دیکھیں، آپؑ کے صبر، شکر و قربانیٔ حسین علیہ السلام میں موجزن پائیں گے۔ تفسیر، تقریر، تحریر و تدریس کے میدان میں لاثانی تھیں۔ تدریس، درس گاہٍ زینبؑ و ام کلثومؑ ہیں۔ اس درس کا سلسلہ آپ دونوں بہنوں نے اپنی والدۂ ماجدہ کے دوران ہی آغاز کر دیا تھا۔ (مراقد اہل بیت درشام از سید احمد فہری، صفحہ 68)

زینب کا لغوی معنی ہے "زین اَب" یعنی باپ کی زینت ہیں۔ قبولیت دعا کے لیے نامٍ زینب کافی ہے۔ مرحوم میرزا ابوالقاسم قمی رحمہ علیہ، صاحب الکتاب قوانین الاوصول، جو عظیم علماء و مراجع میں سے تھے، حضرت زینبؑ کے اسم مقدس سے توسل کیا کرتے تھے اور استجابتٍ دعا کا سبب سمجھتے تھے۔ (مسافرۂ شام، علامہ ابوالقاسم الدیباجی، صفحہ 250)۔

حضرت اُمٍّ کُلثوم کے نام کے معنی کے لیے ایک قابل غور واقعہ راقم الحروف قارئین و عزادار شہدائے کربلا کے لیے تحریر کرنا لازم سمجھتا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ عزاداری میں شرکت تو ہے لیکن تحقیق و تدریس و عمل سے دوریاں محسوس کی گئیں ہیں۔ واقعہ یوں ہے کہ قری 25 سال قبل دوران ملاقات عالمی شہرت یافتہ ادیب، تاریخنویس، صحافی، مدیر اعلیٰ اور پارلیمنٹیرین، خشونت سنگھ نے اُم کلثُوم کے معنی راقم الحروف سے دریافت کیا جن کے ہمراہ ان کے سب سے بڑے بھائی، مرحوم انجینئر ناظم حسین اور سنیر فوٹو صحافی، مرحوم فدا علی بھی تھے۔ راقم نے غیر اعتمادی میں بتایا کہ ہو سکتا ہے (کل کے معنی مکمل + ثوم کے معنی چاند) = مکمل چاند۔ ذاتی جواب سے مطمئن نہیں تھا، لہٰذا اپنے دفتر پہنچ کر کچھ علماء کرام و ذاکرین حضرات سے دریافت کرنے پر بھی معلوم نہ ہو سکا۔ شعبۂ شیعہ دینیات (اے ایم یو، علی گڑھ) کے چیئرمین و ڈین بھی موقع پر جواب نہ دے سکے۔ بہر کیف، اُم کلثُوم کے معنی ہے وہ مخمل کا دھاگا جو پرچم (علم) میں لگایا جاتا ہے۔ کافی محنت، مشقت اور تحقیق کے بعد معلوم ہو سکا۔ یہ تحریر کرنے سے جگر خراش ہے، ذہن اضطراب ہے لیکن سچائی پوشیدہ رکھنے سے ایمان میں کمی کہی جائے گی۔ بعد ازاں، یہ مفید ذکر ہے، رہبر معظم آیت العظمٰی سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ تنقید کرنا اور اس کو سننا فرض ہے۔ تنقید اصلاح کے لیے ہوتا ہے۔

حضرت زینبؑ و اُم کلثُومؑ کی عظمت، فضائل اور خصوصیت کی وجہ سے ان کے مشہور القاب ہیں جو آپؑ کی فضیلت و کمال کی طرف اشارہ کرتے ہیں: عارفہ، عالیہ، معظمہ، ولیہ، عالمہ غیر معلمہ، فاضلہ، امینہ، نائبتہ الزہرا، نائبتہ الحسین، عابدہ، عقیلتہ النساء، عقیلہ بنی ہاشم، شریکتہ الشہداء، بلیغہ، فصیحہ و شریکتہ الحسین۔ امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا: اے پھوپھی جان! "آپ (اللہ کے فضل سے) بغیر کسی تعلیم دینے والے کے عالمہ ہیں اور بغیر کسی سکھانے والے کے فہمیدہ ہیں۔ (بحار الانوار، جلد 45، صفحہ 164) ایثار و قربانی، فراست اور دانشمندی، استقامت، استقلال، صداقت، جرآت، تواضع، مہمان نوازی، زہد، تقویٰ، عبادت، ریاضت، خلق و کرم، سادگی و پاکیزگی کی مجسمہ تھیں۔

آپؑ دونوں بہنیں شرم و حیا ٕ کا سرچشمہ تھیں اور سختی کے ساتھ پردہ کی پابند تھیں۔ مدینے اور کوفے میں مولا علیؑ کی ظاہری خلافت کے دوران کسی نامحرم کی نگاہ ان پر نہیں پڑی تھی۔ (تنقیح المقال، جلد 3، صفحہ 79) بشیر ابن حزیم اسدی کہتا ہے کہ خدا کی قسم، میں نے ایسی باعفت اور با حیا ٕ عورت کو نہیں دیکھاجو اتنے مستحکم انداز سے عوام سے خطاب کرے۔ (احتجاج طبرسی، جلد 2، صفحہ 109)

سید الشہداء، حضرت امام حسین علیہ السلام نے کربلا کا باب معرکہ خون کے ذریعہ تلوار پر فتح حاصل کر رقم کیا اور یہ آٹھ دنوں میں ہو گیا اُس وقت آپؑ کے ہمراہ حضرت عباس علمبردار جن کی انگڑائ لینےپر لشکر یزید سمجھتی کہ حملہ ہو گیا، حضرت اکبرؑ ہم شبیہ پیمبرؐ، اور دوسرے شجاع دوست و اقرباء موجود تھے لیکن زینبؑ اور اُم کلثومؑ کو اپنی ذمہ داریاں مکمل کرنے، باب رقم ہونے اور سلسلۂ بازیابی و کامرانی میں سولہ ماہ کا طویل لمحہ انتہائی اذیت سے گزارنا پڑا۔ بہرحال، کوفہ اور شام کو فتح کر کربلا کی آبرو کی حفاظت کی۔ دراصل آپؑ دونوں بہنوئی کے بغیر نامکمل رہتی۔ سرکار عالی مقام، حضرت امام حسین علیہ السلام کا سر اقدس نیزے پر قرآن پڑھ رہے تھے آپ تفسیر کرتی جا رہی تھیں، پتھر کھارہی تھیں اور فنافی اللہ کی منزل سے بھی گزر رہی تھیں۔ یہ قابل غور و فکر امر ہے کہ سیدانیوں کے امتحان نے صنف نازک کو معراج عطا کی۔ کاش! آج کی خواتین حضرات ان کرداروں کو نمونۂ عمل سمجھتیں، اپناتیں، اپنے گھر اور سماج کی عورتوں اور بچیوں کو ان کرداروں کو اپناکر عزادار ہونے کا مثال قائم کرتیں اور عصری ذمہ داریاں نبھاتیں۔

حضرت امام حسینؑ نے امت کی اصلاح کے لیے جو عظیم قیام کیا اس میں بنیادی و اہم کردار زینبؑ و ام کلثومؑ ہیں۔ ویسے تو واقعہ کربلا میں کئی خواتین موجود تھیں لیکن ان سب میں نمایاں شخصیت حضرت زینبؑ ہیں جن کی باعظمت شخصیت کے پیش نظر واقعہ کربلا کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا مرحلہ "تلوار کے ساتھ جہاد اور شہادت" ہے، جبکہ دوسرا مرحلہ "پیغامٍ شہادت کو عام لوگوں تک پہنچانا اور واقعہ کربلا کو تا قیامت تک کے لیے زندۂ جاوید کر دینا" ہے۔ واقعہ کربلا کے ان دو مرحلوں میں سے پہلے مرحلے کی قیادت امام حسین علیہ السلام نے کی جبکہ دوسرے مرحلے کی قیادت سیدہ زینبؑ نے کی:

حدیثٍ عشق دو باب است کربلا و دمشق

یکے حسینٔ رقم کرد و دیگرے زینبؑ

دوسری ثانئ زہراؑ ہیں یہ اوصاف تمام

اُمٍ کلثوم پہ واجب ہے درود اور سلام

سیدہ زینبؑ اور سیدہ اُم کلثومؑ کے خطبات بازارٍ کوفہ، دربارٍ ابن زیاد (لعنت اللہ) اور دربارٍ یزید (لعنت اللہ) میں ہیں۔

آپؑ نے اپنے خطبہ کا آغاز کوفہ کے فریب خوردہ لوگوں کو مخاطب کرکے کربلا کے اصل حقائق سے لوگوں کو آگاہ کرایا کہ یزید اور اُس کے سپاہیوں نے کربلا میں ایک ایسی عظیم شخصیت کو تین دن کا بھوکا پیاسہ شہید کیا ہے جو رسول اکرمؐ کا فرزند، ہدایت کا چراغ اور تم سب لوگوں پر خدا کی حجت تھا۔

آپؑ نے عبیداللہ بن زیاد کے تحقیر آمیز جملات کے ایسے مختصر، گفتگو کی شکل میں، حَسین اور فصیح و بلیغ جواب دیئے جو ابن زیاد کے لیے کسی نشتر سے کم نہیں تھے اور وہ اپنے ہی دربار میں ذلیل و رسوا ہو گیا۔

خطبہ کا تیسرا، اہم اور آخری مقام یزید ملعون کا سجا ہوا دربار ہے۔ آپؑ نے دندان شکن خطبہ کے ذریعہ یزید کے ساتھ تمام بنی اُمیہ کو ذلّت و رسوائی کے ایسے غلیظ ڈبّے میں پھینک دیا کہ اب قیامت تک بنی اُمیہ ذلیل و رسوا ہوتے رہیں گے۔

یزید اور یزیدیوں کو یہ خبر ہی نہ تھی اور نہ شعور تھا کہ حسین علیہ السلام کی بہنیں، زینبؑ و اُم کلثوم، حسینؑ کے ہمراہ آرہی ہیں جیسا کہ فرعون اور فرعون والوں کو یہ معلوم ہی نہ تھا اور نہ شعور تھا کہ موسیٰ کے ساتھ موسیٰ کی بہن بھی آرہی ہے (سورۃ قصص 28:11)

دونوں شہزادیاں مدینہ منورہ، مکہ معظمہ، کربلا، شب عاشور، روز عاشور، عصر کا ہنگام، بعد قتل شہدائے کربلا، شام غریباں، یتیم بچوں کی پاسبانی، پامال و بے سر لاشوں کے درمیان، کوفہ، دربار ابن زیاد، قادسیہ، تکریت، وادئ نخلہ، موصل، نصیبین، عین الورد و دعوات، معرۃ النعمان، شیراز، سیبور، حماۃ، حمص، بعلبک، بازار شام، دربار یزید اور زندان میں شانہ بہ شانہ رہیں۔ صبر، شکر، لب و لہجہ، علم و عمل گویا ہر مقام پر یکسانیت، خیر النساء کی دو آنکھیں ہوں۔ دختر فاتح خیبر و خندق نے دربار یزید نیست و نابود کیا۔ یزید کے تخت کو ایسا غرق کیا کہ یزید کی نشانی ہی ختم کر دی اور جو یزیدی اس کی نشانی تلاش کرتا رہا وہ بھی گمراہی کی تاریکی میں غرق ہوتا رہا:

چراغ را کہ ایزد بر فروزد

کسے گرپف کند، ریشش بسوزد

زینبؑ و اُم کلثومؑ کی کل طاقت زبان میں سمٹ آئ تھی، وہ نہ نبی ہیں نہ امام لیکن ولی ہیں، اسیری و بیکسی میں بھی نہایت عزم و ہمت کے ساتھ دربار یزید میں داخل ہوئیں، جہاد باللسان کر کے محاذ فتح کیا۔ کون ا نکار کر سکتا ہے کہ جو ان کے مصائب ہیں وہی تو فضائل و کمال ہیں۔ ان دونوں بہنوں کے خطبوں کے ان جملات سے ایک درس یہ بھی ملتا ہے کہ کسی بھی گفتگو کا موقع و محل کے مطابق ہونا ضروری امر ہے کیونکہ کوئی بھی گفتگو اس وقت مو ئثر ہوتی ہے جب وہ اپنے موقع و محل کے مطابق ہو، لہذا ہر خطیب کا موقع شناس ہونا ضروری ہے۔ پروردگار نے انسان اشرف المخلوقات بنایا، شرف بخشی، عقل عطا کی، حصول علم کے ذریعہ زبان کا استعمال کر زینبؑ و اُم کلثوم نے اپنے آپ کو پہچنوایا، اہلبیت علیہم السلام کی پہچان کروائی، حضرت محمد مصطفٰی ﷺ کی شناخت کروائی اور اور اللہ کا نمائندہ ہونے کی خصوصیات بتائیں۔

قارئین و عزادار ذہن نشین کریں کہ حضرت علی علیہ السلام کے لب و لہجہ میں خطبے دیئے باوجود اس کے زینبؑ و اُم کلثومؑ میں اعتماد، لیاقت، ذہانت، صلاحیت، شعور، متنوع ترسیل، سامعین، درباری اور عدو و اغیار کا علم، صداقت، پر جوش ترسیل، خود آگاہی، خود کی بہتری، کلیدی پیغام کی سمجھ، آواز سے آگاہی، ممکنہ شعبوں کی سمجھ، موضوع پر گرفت، زبردست اور اثر انگیز الفاظ، قرآن اور اس کی تفسیر سے آشنائی وغیرہ اہم ہیں جو ان میں پنہاں تھیں جو ہر خطبہ سے عیاں ہے، واقعی میں خصوصیات سے مزین تھیں۔

خصوصی طور پر کنیزانٍ اسیرانٍ کربلا توجہ دیں کہ صرف اور صرف حضرت علی علیہ السلام کے لب و لہجے ہی نہیں بلکہ کربلا کا پیغام پہنچانے کے لیے ہر مناسب موقع کی تلاش میں رہیں، کربلا کی تحریک کو پایہ تکمیل تک پہنچانے آس و جستجو میں منہمک نظر آئیں۔ اپنے جد امجد کے اسلام کی حفاظت اور نشر و اشاعت کی۔ بنی اُمیہ کی کافرانہ اور ظالمانہ ماہیت کو برملا کیں۔ شریعت کی پاسبانی فرمائیں۔ یہ حقیقت ہے کہ آپؑ توحید، رسالت و امامت کی سرپرست، مشن حسینؑ کی نگراں، اور کربلا کی ترجمان اور سالار قافلہ ہیں، عزادارئ سید الشہداء کی بنیاد رکھیں۔ ظالم کے گھر میں شہیدانٍ کربلاکا ماتم کیا۔ فضائل و مصائب محمدؐ اور آلٍ محمدؐ بیان کیا۔ اسیری کی حالت میں بھی فریب خوردہ کو مقصدٍ حسین علیہ السلام سے آگاہ کیا۔خواتین دیکھیں کہ ظلم و زیادتی کے خلاف مظلوم کو آواز بلند کرنے کا سبق سکھایا۔ باطل کے خلاف پرچمٍ حق بلند کرنے کا بہترین طریقہ و سلیقہ سکھایا۔

کلام آخر ہے شہزادی اُمٍ کلثوم کا مولا علیؑ کے نام لینے والوں سے فرمان ہے کہ بہترین عقیدہ رکھیں اور خدا کے آگے سرخرو ہو جائیں۔ اللہ تم سب کی مدد کرے اور ایمان کامل کرے شاہٍ کربلا کے صدقے سے۔ میرے مظلوم بھائ کے رونے والو! اگر تم جان جاؤگے کہ تم اپنے رب کو کتنے عزیز ہو تو تمھارا فخر غرور کی حد تک پہنچ جائے۔ ( بحوالہ کتاب "حرفٍ غیب")

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .