ترجمہ و ترتیب: نصر اللہ فخر الدین
حوزہ نیوز ایجنسی | اربعین کی اہمیت کو سمجھنے کے لئے پہلے ہمیں واقعہ کربلا کی طرف پلٹنا ہوگا، یہ واقعہ اسلام و تشیع کی تاریخ کا سب سے حیرت انگیز واقعہ ہے۔اس دوران حالات کچھ ایسا رخ اختیار کرتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کا سامنا ان افراد سے ہو جاتا ہے جن کے ہاتھوں میں عالم اسلام کی وسیع حکومت کی باگ ڈور ہے، یہ حکمران پیغمبر اکرمؑ کی جانشینی کے دعویدار ہیں جبکہ ان کا سربراہ یزید جیسا فاسد انسان ہے۔ یزید کے ہاں دینی احکام کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اس کے متعلق کہا گیا ہے کہ وہ فسق و فجور اور برائیوں کا دلدادہ تھا ۔ وہ قرآن اور دینی معارف کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا تھا۔
ایک ایسا (فاسق) انسان بنی امیہ کی تگ و دو (جد و جہد)سے جہانِ اسلام کا حاکم بن جاتا ہے ۔ وہ اس امام حسین علیہ السلام سے بیعت کا مطالبہ کرتا ہے جن کی اتنی بڑی شان و منزلت ہے، جو پاک و مطہر ہے، جو قرآن ناطق اور نواسئہ رسول خدا ہے۔امام عالی مقام علیہ السلام ہیہات منا الذلہ کا نعرہ بلند کرتے ہیں اور یہ طے کرتے ہیں کہ اب ضروری ہو گیا ہے کہ اپنے آپ کو اور اپنے خاندان کو دین خدا کی بقا کی خاطر قربان کریں۔ امام علیہ السلام امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو اپنے قیام کا عنوان قرار دیتے ہیں۔
سوال: زیارت اربعین خاص طور پر اربعینِ حسینی کی تعظیم و تکریم کے فلسفے کے بارے میں وضاحت فرمائیں!
جواب: اربعین اور زیارت اربعین دو پہلؤوں سے قابلِ تحقیق ہیں ۔ یعنی روایات کے زاویے سے بھی اور تاریخی اعتبار سے بھی۔ تاریخی اعتبار سے اسیرانِ اہلبیت جن میں امام سجاد علیہ السلام اور حضرت زینب سلام اللہ علیہا بھی شامل تھے، شام سے مدینہ کی طرف واپس لائے جا تے ہیں۔ چونکہ شہدائے کربلا کے سر بھی اسیروں کے ساتھ تھے اس لیے شام سے واپسی پر امام سجاد علیہ السلام نے قافلہ سالار سے مطالبہ کیا کہ وہ انہیں کربلا کے راستے سے لے چلیں تا کہ شہداء کے سروں کو ان کے پاکیزوں جسموں کے ساتھ دفن کیا جاسکے۔امام علیہ السلام کا مطالبہ قبول ہو جاتا ہے اور اسیران اہلبیت علیہم السلام کربلا لائے جاتے ہیں۔
(معتبر اور صحیح قول کی بناء پر) اسیرانِ اہلبیت علیہم السلام کربلا پہنچ جاتے ہیں ۔البتہ کربلا میں اسیرانِ اہلبیت کے داخل ہونے کی داستان بہت غمناک اور دلفگار ہے۔ امام سجاد علیہ السلام قدرتِ امامت اور اپنے علم لدنی کی بنیاد پر شہداء کے سروں کو ان کے جسموں کے پاس دفن کرتے ہیں ۔ان میں امام حسین علیہ السلام کا سرِ مطہر بھی تھا۔
سوال: کیا جابر بن عبداللہ انصاری کا اربعین کے دن کربلا آنا ہی زیارت اربعین جیسی سنت کی پیدائش کا سبب بنا ہے؟
جواب: ہماری تاریخ میں مذکور ہے کہ حضرت امام سجاد علیہ السلام و حضرت زینب سلام اللہ علیہا اور دیگر اسیران اہلبیت علیہم السلام کے کربلا میں پہنچنے کے ساتھ جابر بن عبداللہ انصاری بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ کربلا پہنچے تھے۔ وہان ان کی امام سجاد علیہ السلام و دیگر اسیران کے ساتھ ملاقات ہوئی۔ وہاں ان سب نے شہدائے کربلا کی یاد میں نوحہ خوانی اور عزاداری کی۔
امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے: خدا کی قسم اگر امام حسین علیہ السلام کی زیارت کی فضیلت کے بارے میں تمہیں بتادوں تو یقیناً ت لوگ حج کو مکمل طور پر چھوڑ دوگے اور تم میں سے کوئی حج کے لئے نہیں جائے گا ۔کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ پروردگار عالم نے مکہ کو اپنا حرم قرار دینے سے پہلے کربلا کو اپنا بابرکت اور امن کا حرم قرار دیا ہے؟ ابن ابی یعفور نے عرض کیا ؛ پروردگار عالم نے حجِّ بیت اللہ کو لوگوں پر واجب قرار دیا ہے جبکہ امام حسین علیہ السلام کی زیارت کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے؟
امام نے فرمایا: ایسا ہی ہے،یعنی یہ ایسی چیز ہے جسے پروردگار عالم نے ایسا ہی قرار دیا ہے۔ کیا تم نے امیر المؤمنین علیہ السلام کا کلام نہیں سنا ہے ؟ بے شک پاؤں کے تلوے مسح کرنے کے لئے پاؤں کے اوپر والے حصے کی نسبت زیادہ سزاوار ہے لیکن خداوند عالم نے پاؤں کے اوپروالے حصے پر مسح کرنے کو واجب قرار دیا ہے۔ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ حرم میں احرام باندھنا بہتر ہے، لیکن خداوند عالم نےحرم سے باہر احرام باندھنے کو فرض کیا ہے۔(وسائل الشیعہ، ج۱۴، ص۵۱۴)
ایک عرصے تک اس زمانے کے حالات (بنی امیہ کی سلطنت و حکومت) کی وجہ سے امام حسین علیہ السلام اور شہدائے کربلا کے مزارات اور مدفن کو مخفی رکھا گیا۔ اہل بیت عصمت و طہارت علیہم السلام کی طرف سے واقعہ کربلا کو یاد کرنے اور بیان کرنےکی تاکید ہوئی ہے۔ ان میں زیارتِ امام حسین علیہ السلام کی فضیلت اور اہمیت پر زیادہ زور دیا گیا ہے اور اس کے لیے بہت زیادہ ثواب بیان ہوا ہے، یہاں تک کہ امام حسن العسکری علیہ السلام فرماتے ہیں:
مؤمن کی پانچ علامات ہیں: ۱۔ (روزانہ) اکیاون رکعت نماز پڑھنا، ۲۔ زیارتِ اربعین پڑھنا، ۳۔ دائیں ہاتھ
کی انگلی میں انگشتری پہننا، ۴۔ مٹی پر سجدہ کرنا، ۵۔ نماز میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کو بلند آواز سے پڑھنا۔
زیارتِ امام حسین علیہ السلام کی اہمیت کی یہ وجہ ہے کہ عاشورا کا تاریخی واقعہ بہت بڑا اور عظیم سانحہ تھا ۔ امام عالی مقام نے اپنے عظیم فریضے اور ذمہ داری کی بنیاد پر یزید جیسے فاسد حاکم کی بیعت کو قبول نہیں کیا اور ظلم و ستم کے خلاف قیام کیا اور یوں عاشورا کی تاریخی اور جاودانی داستان شجاعت رقم کی۔
امام حسین علیہ السلام کی زیارت خاص کر زیارتِ اربعین کے حوالے سے مختلف تجزیے پیش کیے جا سکتے ہیں۔ شیعہ علماء و فقہا زیارت امام حسین علیہ السلام کو بہت تاکیدی مستحبات میں شمار کرتے ہیں۔ شاید ایک نظر سے زیارت امام حسین علیہ السلام واجب بھی ہو کیونکہ جب ہمیں یہ احساس ہو کہ دشمن نام ِحسین، ذکر ِحسین،یادِ حسین اور قیامِ عاشورا کے اہداف کو بے اہمیت بنانے کے درپے ہے چاہےاور انہیں عالمِ بشریت سے چھپانے کی کوشش کر رہا ہے تو اب دینی قیادتوں پر ضروری ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لئے جائیں اور اہل بیت علیہم السلام کے شیعوں اور پیروکاروں کو بھی زیارتِ کربلا کی رغبت دلائیں۔
پس حضرت امام حسین علیہ السلام کے تاریخی اور شجاعت آفرین قیام کا ذکر کرنا، آپؑ کی شان و منزلت کا احترام کرنا اور آپؑ کے قیام کے اہداف کو بیان کرنا دین مبین اسلام کی حفاظت اور اسلام کو زندہ رکھنے کے لئے بہت اہم ہیں۔
تمدن سازی میں اربعین مارچ کا عظیم کردار
طویل المدتی پالیسی سازی کے اعتبار سے اسلامی معاشرے کا ہدف اسلامی و انسانی تہذیب و تمدن کی طرف حرکت اور اُس تک رسائی ہے۔ اسلامی تہذیب و تمدن خاص خصوصیات کی حامل ہے ۔ دینی اعتقادات کی تقویت، عاقلانہ طرز عمل، دیگر ملتوں کے ساتھ ہماہنگی، فکری سطح کی بلندی،علم و دانش سے بہرہ مندی اور خودسازی تہذیب سازی اور تمدن سازی کے لوازمات میں شامل ہیں۔
اربعین مارچ کی ایک اہم بات یہ ہے کہ جب مختلف ممالک کے شیعہ اور دیگر مسلمان حضرات سرزمینِ عراق کی طرف زیارتِ اربعین کے لئے آتے ہیں تو وہاں پر شیعوں اور دیگر مسلمانوں کے درمیان ملاقات اور گفتگو کا راستہ فراہم ہوتا ہے۔ اربعین مارچ کے راستے میں تمام ممالک کے لوگوں کے درمیان گفت و شنید اور باہمی ہماہنگی کا امکان زیادہ فراہم ہوتا ہے ۔وہاں قیامِ حسینی کے اہداف اور عالمِ اسلام کو درپیش مسائل پر بحث و گفتگو ہوسکتی ہے۔ عالمِ اسلام کو موجودہ مشل حالات سے نجات دلانے کے لئے مختلف راہ حل پیش کیے جا سکتے ہیں۔ اس طرح کے اقدامات تہذیب و تمدن کی ترقی اور پیشرفت کا باعث بنتے ہیں۔ ماضی بعید اور گزشتہ چند سالوں کے اربعین مارچ کے جو نتائج کتابوں ، گفتگو اور نشر شدہ ویڈیوز کی شکل میں ہمارے پاس موجود ہیں ان کے مطابق اربعین مارچ نے تہذیب و تمدن سازی اور عالمِ اسلام کی ترقی و پیشرفت میں بہت اہم اثرات چھوڑے ہیں۔
اسلام کے دیگر مذاہب اور فرقوں کے ہاں امام حسین علیہ السلام کی شخصیت، مقام و منزلت اور آپ ؑ کے قیام کے اہداف کی قدر و قیمت کی بناء پر اربعین مارچ میں دیگر مذاہب اور فرقوں کے پیروکار بھی حاضر ہوتے ہیں۔ یہ لوگ دیکھتے ہیں کہ دینا بھر کے عاشقانِ حسینی ایمان اور مضبوط ارادے کے ساتھ اربعین مارچ میں شریک ہیں جبکہ سہولیات بہت ہی سادہ ہیں تو وہ معنوی اور روحانی اعتبار سے منقلب اور تبدیل ہو جاتے ہیں ۔ اسی طرح اربعین مارچ کے ثقافتی پروگرامز اور دیگر اقدامات بہت سے دوسرے ادیان و مذاہب کے پیروکاروں کو اربعین، اسلام اور عاشورا کے اہداف سے متاثر کر کے دین اسلام اور مکتب حسینی کا دلدادہ بنانے کا باعث بناے ہیں ۔ یہ اربعین مارچ کا تہذیبی اور تمدنی نتیجہ ہے۔ اس بنا پر مکمل اسلامی تہذیب و تمدن پر مبنی معاشرے تک پہنچنے کے لئے اربعین مارچ سے بہت زیادہ استفادہ کیا جاسکتا ہے۔