۲۹ شهریور ۱۴۰۳ |۱۵ ربیع‌الاول ۱۴۴۶ | Sep 19, 2024
photos/Arbaeen marche de Najaf à Karbala

حوزہ/ جو کوئی حسین ابن علی کی قبر کی زیارت کے لئے اپنی منزل سے پیدل نکلتاہے خداوند اس کے ہر قدم کے بدلے ایک حسنہ لکھ دیتاہے اور ایک گناہ محو کردیتاہے۔

تحریر: شیخ بشیر صادقی

حوزہ نیوز ایجنسی | مکتب اہل بیت کے پاس غدیر،عاشورااور اربعین جیسی انسان ساز،محکم اور مضبوط آئیڈیالوجیز موجود ہیں۔ان کے ذریعے ہم انسانی تخلیق کے اصل ہدف اور مقصد تک آسانی کے ساتھ پہنچ سکتے ہیں۔انہی محکم خدائی نظریات کی وجہ سے مذہب اہل بیت کو دیگر تمام مکاتب فکر کی نسبت ممتاز اور منفرد مقام حاصل ہے نیز فکری طور پر مضبوط اور مدلل اعتقادات کا حامل ہے جسے دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دےسکتی۔ اسلامی آئیڈیا لوجی کا ناقابل شکست ہونااس کی طاقت کا نتیجہ ہے۔ اسی لیے تاریخ میں ہمیشہ اس مکتب کی اقلیت بھی باطل کی اکثریت پر غالب رہی ہے اور باطل اپنی تمام تر ناپاک سازشوں کے باوجود مغلوب اور شکست سے دوچار رہاہےجبکہ حق اور اس کے پیروکار ہمیشہ تمام تر مشکلات کے باوجود فتح یاب اور سربلند رہے ہیں ۔

یہ درس اس مکتب کے ماننے والوں کو عاشورا ہی سے ملاہے جہاں مضبوط دینی اعتقاد اور اخلاص کے نتیجے میں کم افراد کا خون کئی ہزار کی تعداد پر مشتمل لشکر کی تلواروں پہ غالب آیا ہے۔ علی کی بہادر بیٹی نے اپنے بھائی کے یتیموں کے ساتھ اسارت کی سختیوں اور اپنے عزیزوں کی ناقابل برداشت شہادت اور دردناک مصائب کے باوجود آل امیہ کی ظاہری فتح اور ان کی خوشی وشادمانی کواپنے دشمن شکن خطبوں کے ذریعے پاؤں تلے روند ڈالا اور یزید کو اس کے اپنے دربار میں ہی ذلیل ورسوا کرکے قیامت تک کے لئے بنی امیہ اور یزیدیت کے منحوس چہرے کوانسانیت کے سامنے بے نقاب اور نمایاں کردیا۔اس حق گوئی کے نتیجے میں رہتی دنیا تک حسین علیہ السلام اور حسینیت زندگی کا استعارہ ہیں جبکہ یزیداور یزیدیت ذلت آمیز موت کا استعارہ ہیں ۔یوں حق وباطل میں واضح لکیر کھنچ گئی۔

لیکن حسینی جوانوں کو اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ ان حقائق سے آگاہی حاصل کریں کہ

ہم ہرسال عاشورا اور اربعین کیوں مناتے ہیں ؟ نیز ہم اس قدر غدیر کو اہمیت کیوں دیتے ہیں؟

ان باتوں کے فلسفے کو جاننے کےلئے ضروری ہے کہ پہلے خود واقعہ عاشورا کے مقصد کو جان لیں اور خود اس قیام کےفلسفے کو جاننے کی کوشش کریں جسے مظلوم کربلا نے مختلف مقامات پر بیان فرمایا۔ آپ نے امت محمدی کو اس تحریک کی حقیقت کی طرف متوجہ کرانے اورسوئی ہوئی امت کو جگانے کی بھر پور کوشش کی۔

اگر ہم ان اہداف کو ذہن میں رکھیں تو معلوم ہوگا کہ اربعین حقیقت میں آزاد،باضمیر اور حق پرستوں کا اپنے امام کے ساتھ تجدید عہد کا دن ہے۔اسی لیے وہ ہرسال اپنے امام کے پاس نجف سے کربلا پیدل چل کر جاتے ہیں اور یہ عہد کرتے ہیں کہ:

اے میرے مولا! ہم اس وقت نہیں تھے جس وقت آپ یزیدی فکر سے ٹکراکر ظالموں کی نابودی،دین کی بالادستی ، کفر والحاد اور شرک سے اسلام کو نجات دینے اورقیامت تک کے لئے دین اور دینداری کے اصل چہرے سے دنیا کو روشناس کرانے جبکہ باطل اور اہل باطل کے سیاہ چہرے سے پردہ اٹھانےکےلئے کربلا کی طرف نکلے تھے۔ اس وقت آپ نے اس راہ میں مدد کے لئے پکارتےہوئے ھل من ناصر ینصرنا؟ھل من مغیث یغیثنا؟ھل من ذاب یذب عن حرم رسول اللہ؟ کی صدا بلند کی تھی۔ آپ کی صدا پر چندمحدود افراد کے علاوہ کسی نے لبیک نہیں کہا۔ لیکن اسی محدود لشکر کے ساتھ آپ نے ہزاروں یزیدی لشکر کا مقابلہ کیا اور رہتی دنیاتک کےلئے حق وباطل کے درمیان اپنے اور اپنے عزیزوں کے خون سے لکیر کھینچ لی۔

ہم آپ کے ساتھ تجدید عہد کرتے ہیں کہ ہم اسی راہ کو جاری رکھیں گے۔ہم تعداد میں کم ہی کیوں نہ ہوں لیکن حسینی راہ پر چلتے ہوئے ہرزمانے کے یزیدوں اور یزیدی فکر کے ساتھ ٹکراجائیں گےاور اس راہ میں پیش آنے والی مشکلات کو برداشت کریں گے۔ہم قربانیاں دیں گے۔

یہ سلسلہ ۶۱ہجری سے لے کر اب تک چلاآرہاہے۔ آج بھی دنیا میں ایک طرف حسینی خیمہ گاہ برپا ہے جو لوگوں کو دین اسلام کی طرف بلارہاہے۔

اس خیمہ گاہ سے سماج میں اسلامی نظام کی ترویج،عدل کےاجراء،فسق وفجور اور ظلم وبربریت کے خلاف جنگ اور مستضعفین جہاں کی حمایت اور مدد کے لئے آئے روز ھل من ناصر کی صدا بلند ہو رہی ہے۔ دوسری طرف یزید اور یزیدی لشکر گاہ سےیزیدی فکر پروان چڑھ رہی ہےاور یزیدیت سراٹھارہی ہے۔یہی وجہ تھی کہ حسین ابن علی علیہما السلام نے مثلی لا یبائع مثلہ کہہ کر صرف ایک یزید نہیں بلکہ قیامت تک آنے والےتمام یزیدوں ،یزیدیوں اور یزیدی افکار کی مخالفت کی تاکہ ہماری ذمہ داری بھی مشخص ہوجائے اور ہرزمانے میں آنے والے حسینی اسی فکر کومشعل راہ قرار دیتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں پر عمل پیراہوجائیں ۔

یہی وجہ ہے کہ ائمہ معصومین ؑ نے امام حسینؑ کی زیارت کی خصوصی تاکید کی ہے جسے محدثین نقل کیاہے،بالخصوص صاحب وسائل کی تعبیرات تو بہت ہی اہم اور عجیب ہیں۔آپ زیارات کے ابواب کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

بابُ تاکداستحباب زیارت حسین ابن علیؑ ووجوبھاکفایة

یعنی موصوف ان روایات سے زیارت امام حسین کے سنت مؤکدہ ہونے بلکہ واجب کفائی ہونے کا بھی استنباط کرتے ہیں۔اسی الوسائل کے 37 ویں باب میں ایک عجیب روایت بیان ہوئی ہے ۔ معاویہ بن وہب کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق سےآپ کی خدمت میں اذن دخول چاہا۔ آپ ؑنے اجازت مرحمت فرمائی۔میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔دیکھاکہ آپ نماز کی حالت میں ہیں۔نماز کے بعد آپ نے کچھ دعائیں کیں اور آخر میں فرمایا: اے اللہ! مجھے اور میرے بھائیوں کو قبر حسین کی زیارت نصیب فرما ۔پھر آپؑ نے زوار امام حسین کی کچھ خاص خصوصیات بیان کیں اور فرمایا :

جولوگ امام حسینؑ کی زیارت کے لئے مال خرچ کرتے ہیں اور زحمتیں برداشت کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس زیارت کے ذریعے رسول خداﷺکے قلب مطہر کو راضی کریں یہ لوگ اپنے اس عمل کےذریعے ہمارے دستور کی پیروی کرتے ہیں اور ہمارے دشمن کو غضبناک بھی کرتے ہیں۔

گویا امام حسینؑ کی زیارت میں تولی اور تبری دونوں موجود ہیں۔اس میں حق کی حمایت کا اعلان بھی ہےنیز باطل سے نفرت اور دوری کا پہلو بھی ۔ اس میں ظالموں ،جابروں اور مستکبرینِ جہان کے خلاف صدائے احتجاج بھی ہے جبکہ اسلام اور مستضعفین کی حمایت اور ان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار بھی ۔

یہ تمام چیزیں حقیقت میں امامؑ کے قیام کے اہداف میں شامل ہیں۔ایک زائر بھی امام ؑ کی خدمت میں پہنچ کر آپ کی زیارت سے شرف یاب ہوتے ہوئے انہی اہداف کو اپنی زندگی میں عملی جامہ پہنانے کا عہد کرکے امام کی صدا پر لبیک کہتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ روایات میں امام حسین علیہ السلام کی زیارت کی اس قدر تاکید ہوئی ہے۔خواتین کو ہمیشہ گھروں میں رہنے کی سفارش کی جاتی ہے لیکن زیارت امام حسین کے لئے ان کو استثنا حاصل نہیں بلکہ انہیں بھی سفارش کی گئی ہے کہ وہ زیارت امام حسین کے لئےجائیں تاکہ خواتین بھی جا کر کردارِ زینبی کا مطالعہ کریں ۔اسلام کی حفاظت کے لیے زینب کبری اور دیگر خواتین کی قربانیاں دیکھیں اور واپس آکر ایسی اولاد کی تربیت کریں جو حسینی مشن کو معاشروں میں فروغ دے سکیں اور اہداف حسینی کی بقا اور ترویج کے لئے قربانیاں پیش کریں ۔

زیارت کے لئے مشی کرکے پیدل جانے کا بھی بےحد ثواب نقل ہواہے۔ امام صادق علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے :

من خرج من منزلہ یرید زیارۃ قبرالحسین ابن علی ان کان ماشیا کتب اللہ لہ بکل خطوة حسنة ومحي عنه سيئة۔۔۔

جو کوئی حسین ابن علی کی قبر کی زیارت کے لئے اپنی منزل سے پیدل نکلتاہے خداوند اس کے ہر قدم کے بدلے ایک حسنہ لکھ دیتاہے اور ایک گناہ محو کردیتاہے۔

یہ سب ایک حقیقت کی طرف اشارہ ہے ۔ وہ حقیقت امام ؑکے قیام کے اہداف سے عبارت ہے جس کی تکمیل کے لئے امامؑ نے اتنی بڑی قربانی دی۔

لہذا ا زائر ین پر لازم ہے کہ آج اس عظیم اجتماعی عبادت میں حصہ لے کر اپنے آپ کو کربلا تک پہنچائیں اور حسین ابن علی ؑ اور آپ کے باوفا اصحاب وانصار کے ساتھ تجدید عہد کریں کہ وہ اپنی روزمرہ زندگی میں انہی کا مطیع رہتے ہوئے تمام اطراف واقشار عالم میں ان کا پیغام پہنچائیں گے ۔زائروں کو چاہیے کہ ہرظالم و جابرحکمران کے خلاف برسرپیکار رہتے ہوئے حق کی بالادستی کے لئے جدوجہد کرنے کاعہد کریں۔

خداوند متعال ہم سب کو راہ حسینی پر چلتے ہوئے آپ کے قیام کے اہداف کی راہ میں جدوجہد کرنے اور ہر دور میں حسین ابن علیؑ کی صدائے ہل من ناصر پر لبیک کہنے کی توفیق عطا کرے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .