۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
News ID: 371386
15 اگست 2021 - 20:53
آج کی کربلا 

حوزہ/ آج کی سسکتی اور دم توڑتی دنیا کا علاج صرف سید الشہداء حسین ابن علی ہیں۔ 

تحریر: شاہد عباس ہادی 

حوزہ نیوز ایجنسیدنیا کا کوئی بھی مفکر واقعہ کربلا پر پہنچ کر سرتسلیم خم کردیتا ہے۔ چاہے وہ اسلامی مفکر ہو یا غیر اسلامی، یونانی ہو یا جرمن سب کی نظر میں حسین انسانیت کی معراج کا نام ہے۔ انسانی اقدار زندہ کرنے کا نام ہے۔ انسانیت مٹ جاتی اگر امام حسین علیہ السلام قیام نہ کرتے۔ اسلام کا چہرہ یزید و بنوامیہ کے ہاتھوں سیاہ ہوجاتا اگر امام حسین(ع) قربانی نہ دیتے۔ ماں، باپ، بہن، بھائی کے درمیان فرق نہ رہتا اگر امام ع اپنے خون سے انسانیت کو بیدار نہ کرتے۔

امام حسین علیہ السلام کے قیام کا مقصد حکومت نہیں تھا، اگر امام علیہ السلام کا مقصد حکومت علوی کا قیام ہوتا تو بچوں، عورتوں اور چند ساتھیوں کے ساتھ کبھی قیام نہ کرتے اور نہ ہی قیام کا مقصد شہادت تھا کیونکہ اسلام اجازت نہیں دیتا کہ خود کو ہلاکت میں ڈالو اور قتل کردئیے جاؤ، شریعت اور دین نے جس شہادت کی بات کی ہے اس شہادت کا مطلب یہ ہے کہ انسان ایک عظیم مقصد کی خاطر قیام کرے اور اس راہ میں اپنی جان دیدے۔ 
شہادت اور حکومت علوی قائم کرنا نتیجہ تھا، آرزو تھی مگر ہدف و مقصد نہیں تھا۔ 

قیامِ امام حسین علیہ السلام کا مقصد دین اسلام تھا، الہی نظام کا قیام تھا، اسلامی اقدار کا احیاء تھا۔ جب بھی اسلامی نظام اور اسلامی معاشرے کی گاڑی پٹری سے نیچے اتر جائے اور اس کا نظام بالکل الٹ جائے، حلالِ خدا کو حرام اور حرامِ خدا کو حلال کردیا جائے، معاشرے کی باگ ڈور ایسے شخص کے ہاتھوں میں آجائے جو لوگوں پر ظلم و ستم کرتا ہو، خدا کے عہد کو پامال کررہا ہو تو جو بھی ایسے شخص کو برسر حکومت دیکھے اور اس کے خلاف قیام نہ کرے بلکہ بت بنا رہے تو خدا تعالی کو حق حاصل ہے کہ قیامت کے دن اس سے بھی وہی سزا دے جو اس ظالم کی ہوگی۔ یہی وہ انجن تھا جس نے انقلاب حسینی کو آگے بڑھایا۔

آج کی سسکتی اور دم توڑتی دنیا کا علاج صرف سید الشہداء حسین ابن علی ہیں۔ روز عاشورہ انسان لاکھوں میل کا سفر طے کرسکتا ہے۔ کربلا کی زمین انسان کو معرفت کی بلندیوں تک لے جاتی ہے۔ کربلا اور عاشورہ عجیب درس ہے۔ کربلا کی جنگ جسموں اور ظاہری انسانوں کے درمیان نہیں تھی بلکہ یہ جنگ اہداف و نظریات کی جنگ تھی اور نظریات و اہداف جیت گئے جس کے باعث کربلا نے اسلامی معاشرے میں بیداری کی لہر پیدا کر دی، اسلامی رگوں میں تازہ خون گردش کرنے لگا، مظلوموں اور ستمدیدہ لوگوں پر چھایا ہوا سکوت ٹوٹ گیا، ظالموں اور جابروں کے خلاف آوازیں بلند کرنے کی ہمت ملی، لوگوں کے ذہنوں کو بدل ڈالا اور ان کے سامنے حقیقی و خالص اسلام کا تصور آیا، مرتی ہوئی انسانی اقدار دوبارہ زندہ ہوئیں۔

کربلا حریت پسندی، جوانمردی، شجاعت اور حق کی نصرت کا درس دیتی ہے۔ کربلائی فکر ظلم و استبداد کے نظام کو گرا سکتی ہے، استعمار کا قلع قمع کرسکتی ہے اسی لئے استکباری طاقتیں آج کربلا سے خوفزدہ ہیں۔ آج کی کربلا کو سمجھیں! ڈاکٹر علی شریعتی کی نظر میں کربلائی یعنی خون میں تیرنا تاکہ ظلم کچلا جائے جبکہ کوفی یعنی خطبے سن کر سر ہلانا اور جب شجاعت و غیرت کا موقع آئے تو بھاگ جانا۔

کربلا آج بھی بپا ہے، یزید آج بھی ہے، شمر و سنان آج بھی ہیں، بنو امیہ کے نظریات پر لشکروں کے لشکر تشکیل پاچکے ہیں، کہیں پر داعش کے سیاہ جھنڈے تو کہیں پر طالبان کے سفید پرچم دکھائی دے رہے ہیں۔ اسرائیل اپنا پورا سرمایہ خرچ کررہا ہے۔ ابن زیاد سونے کے سکوں پر عرب حکومتوں کو خرید رہا ہے۔یزیدی لشکر خیمہ حسینی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ یمن و فلسطین کے مظلوم "ھل من ناصر" کی صدا بلند کررہے ہیں۔ اب وقت ہے کہ ہم سب "کلنا عباسك يا زينب" کا نعرہ بلند کرتے ہوئے ظالمین کا مقابلہ کریں، اب وقت ہے کہ حبیب ابن مظاہر بنیں، وہب کلبی بنیں، زہیر ابن قین بنیں اور سب سے بڑھ کر اپنے زمانے کے حسین کو تنہا نہ چھوڑیں۔ جب حضرت مسلم نے کوفہ میں قیام کیا تو سلیمان ابن صرد خزاعی نے مخالفت کی اور کہا: میں حسین کے کوفہ آنے سے پہلے جنگ کو مکروہ سمجھتا ہوں، میں یوسف کے انتظار میں بیٹھوں گا اور العجل کی تسبیح کا ورد کروں گا۔" ایسا نہ ہو کہ ہمارے اندر سلیمان ابن صرد خزاعی کے نظریات رائج ہوجائیں، ایسا نہ ہو کہ ہم مسجد و منبر تک محدود رہ جائیں، ایسا نہ ہو کہ ہم صرف نماز و روزہ و عزاداری کرتے رہ جائیں اور وقت کے حسین کو تنہا چھوڑ دیں۔ امام زمانہ عج تشریف لا رہے ہیں، سفیرِ امام انقلاب اسلامی ایران کے تحت زمینہ سازی کررہے ہیں، وہ مظلومین جہاں کے حامی ہیں، وہ اسرائیل و امریکہ جیسی یزیدی طاقتوں کے خلاف کھڑے ہیں۔ آئیں کربلائی بن کر آج کے سفیر حسینی کا ساتھ دیتے ہیں، چاہے ہمارے سر تن سے جدا ہوجائیں ہم سفیر امام کو تنہا نہیں ہونے دیں گے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .