۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
News ID: 362275
26 اگست 2020 - 17:52
مولانا سید محمد حسنین باقری

حوزه/ چودہ سو سال گزرنے کے بعد تمام مخالفتوں کے باوجود آج سب سے زیادہ تذکرہ کربلا کا ہوتا ہے ۔ سب سے زیادہ نام امام حسینؑ کا لیاجاتا ہے۔ جیسے بھی حالات ہوں، یہ ذکر ہوتا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی | 

کیا صرف مُسلمان کے پیارے ہیں حُسینؑ

چرخِ نوعِ بَشَر کے تارے ہیں حُسینؑ

انسان کو بیدار تو ہو لینے دو

ہر قوم پکارے گی، ہمارے ہیں حُسینؑ

(جوشؔ ملیح آبادی)

نواسۂ نبیؐ حضرت امام حسین علیہ السلام کی عظیم الشان قربانی یقیناً انتہائی عظیم مقصد کےلئے تھی جہاں ایک طرف قربانی کا مقصد بقائے لا الہ الااللہ تھا،دشمنان خدا و دشمنان دین خدا کو ان کے مقاصد میں ناکام کرنا تھا، یزید جیسے نام نہاد مسلمانوں کے چہروں سے نقاب پلٹنا تھی، عظمت توحید کی حفاظت تھی ، دین الٰہی پر آنچ نہ آنے دینا تھا ، پیغمبر عظیم الشان صلعم کی زحمتوں کو بچانا تھا، کلمۂ شہادتین کی لاج رکھنا تھی ، ولایت خدا اور ولی خدا سے لوگوں کو روشناس کرانا تھا، امت مسلمہ کی اصلاح تھی، فریضۂ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی ادائیگی تھی، نبیؐ و جانشین نبی کی صحیح و حقیقی سیرت کو عملی طور پر دنیا کے سامنے پیش کرنا تھا، بندگان خدا کو جہالت و گمراہی سے نجات دینا تھا؛وہیں در حقیقت انسانیت کو بچانا اور انسانی اقدار کی پاسبانی بھی تھی، امام حسینؑ نے اتنی بڑی قربانی کسی معمولی چیز کےلئے نہیں دی۔ آپ نے انسانی اقدار کو بچایا ہے، انسانی اصولوں کی حفاظت کی ہے۔ کربلا میں قربانی دے کر بتایا ہے کہ انسانیت کسے کہتے ہیں۔ 

اس سے یہ بھی ثابت ہے کہ یزید اور اس کا گروہ صرف حسینؑ ابن علیؑ ہی کا دشمن نہیں تھا بلکہ وہ انسانیت کا دشمن تھا انسانی اصولوں اور انسانی اقدار کو پامال کرنا چاہتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ تنہا کربلا وہ جگہ ہے، تنہا یاد حسینؑ و تذکرہ حسینؑ ایسی یاد و تذکرہ ہے کہ جسے ہر انسان مناتا ہے۔ دنیا میں تنہا کربلا و نام حسینؑ وہ چیز ہے جہاں کسی بھی طرح کی کوئی تفریق نہیں ہے بلکہ ہر انسان چاہے اس کا تعلق کسی بھی مذہب و ملت اور فرقہ سے ہو، ذکر حسینؑ کرتا ہوا نظر آتا ہے ۔ (جہاں انسانیت ہی نہ ہو وہاں بات الگ ہے )

کیا یہ قابل غور نہیں ہے کہ چودہ سو سال گزرنے کے بعد تمام مخالفتوں کے باوجود آج سب سے زیادہ تذکرہ کربلا کا ہوتا ہے ۔ سب سے زیادہ نام امام حسینؑ کا لیاجاتا ہے۔ جیسے بھی حالات ہوں، یہ ذکر ہوتا ہے۔دنیا کا کوئی خطہ کوئی علاقہ اس ذکر و یاد سے خالی نہیں ہے۔ دنیا کے ہر مذہب و مسلک سے تعلق رکھنے والا انسان نام حسینؑ لیتا ہے ۔ حسینؑ ابن علیؑ کو خراج عقیدت پیش کرتا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ دنیا کا ہر انسان واقعہ کربلا کے بارےمیں غور کرے۔ حسینؑ ابن علیؑ کی قربانی کو نگاہوں میں رکھے اور اس قربانی سے انسانیت کا درس حاصل کرے، اس کربلا سے انسانی اقدار کو پہچانے، اس عزاداری سے حق کی معرفت حاصل کرے۔

تحریر: مولانا سید محمد حسنین باقری، لکھنؤ

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مفہومِ عزا جاننے والے کم ہیں

احسان کو گرداننے والے کم ہیں

شبیرؑ تِرے چاہنے والے ہیں بہت

لیکن تِرے پہچاننے والے کم ہیں

(علامہ نجمؔ آفندی)

کربلا نے انسانیت کو بہت سے دروس دیئے ہیں جن کی فہرست طویل ہے صرف بعض کو اجمالاً پیش کیا جارہا ہے :

(۱) اپنے خالق و پروردگار کو پہچاننا:

نبی و آل نبی علیہم السلام کا اصل مشن پرچم توحیدکو بلند کرنا، دنیا کو اس کے خالق سے آشنا کرنا، عبد و معبود کے رشتے کو پہچنوانا اور انسانوں کو اس سے کمتر کی بندگی سے نجات دلاکر صرف خالق یکتا و خدائے بزرگ و برتر کی بندگی میں لانا تھا۔صادق آل محمدؐ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

 إِنَّ أَفْضَلَ اَلْفَرَائِضِ وَ أَوْجَبَهَا عَلَى اَلْإِنْسَانِ مَعْرِفَةُ اَلرَّبِّ وَ اَلْإِقْرَارُ لَهُ بِالْعُبُودِيَّةِ،

(إثبات الہداۃ بالنصوص و المعجزات، جلد۲ ، صفحہ۱۸۲)

 ’’انسان پر سب سے ضروری اور سب سے اہم و برتر ذمہ داری، اپنے رب کا پہچاننا اور اس کی بندگی کا اقرار کرنا ہے‘‘؛

اسی مشن کوکربلا میں حسین ابن علی علیہما السلام نے عملی شکل میں پیش کیا۔ اپنے خطبات، خطوط اور اپنی دعاؤںمیں توحید کا تذکرہ و عبد و معبود کا بیان ، قدم قدم پر ذکر خدا، مختلف مواقع پر خدا کی جانب توجہ دلانا، میدان جنگ میں اقامۂ نماز، آخری لمحات میں سجدۂ خالق میں سر رکھنا اس بات کا پیغام تھا کہ یہ قربانی خدا کی راہ میں اس کے مشن کی حفاظت اور توحید کی لاج رکھنے کے لیے ہے۔اتنی بڑی قربانی پیش کرکے دنیا کو بتا دیا کہ آؤ میرے ذریعہ اس جہان کے خالق اور اپنے حقیقی معبود کو پہچانو کہ وہ کتنی عظمتوں کا حامل ہے۔ میری قربانی کے ذریعہ توحید کی اہمیت کا اندازہ کرو، میرے اقدام کے ذریعہ خدائی احکام اور الہی شریعت کے مرتبے کو سمجھو، خدا و دین خدا کو حسین ابن علی ؑ کی نگاہ سے دیکھنے کی کوشش کرو۔ میں نبی اکرمﷺ کا نواسہ ، علی ؑ کا نور نظر اور فاطمہؑ کا لخت جگر ہوکر اگر کربلا میں جام شہادت پی رہاہوں تو میرے سامنے جو مقصد ہے وہ اتنا زیادہ اہمیت و عظمت کا حامل ہے کہ اس کے لیے میں ہر طرح کی قربانی کے لیے تیار ہوں حتی میں تو دشمن کی تین دن کی پیاس اور ششماہہ علی اصغرؑ کی قربانی بھی دے رہا ہوں تاکہ اگر میری شہادت کے بعد کربلا کی طرف نگاہ اٹھاکر دیکھو، حسینؑ کا نام سنو،  حسین ابن علی ؑ کا تذکرہ کرو تو تمہاری نگاہوں میں حسینؑ کا مقصد اور مشن بھی ہو۔تم اپنے خالق و معبود کو پہچان رہے ہو، تم ذکر حسینؑ و یاد حسینؑ کے ذریعہ خدا والے بن رہے ہو۔ عزائے حسینؑ تم کو خدا سے نزدیک کرنے کا ذریعہ ہو۔ 

قربانی کربلا کو نگاہوں میں رکھ کر خالق و معبود کو پہچان کر اس سے اتنا قریب ہوجاؤ کہ دنیا کی سختیاں، مشکلات، دشواریاں، پریشانیاں، آفتیں، مصیبتیں تم کو کسی بھی قدم پر مایوس نہ ہونے دیں۔ تم عزائے حسینؑ کے ذریعہ یہ جذبہ بھی حاصل کرو کہ چاہے پوری دنیا میں کرونا وبا اپنا قہر برپا کرہی ہو، اس وبا کی آڑ میں لوگ سیاست کر رہے ہوں ، انسان کو کوئی راہ چارہ دکھائی نہ دے رہا ہو ایسے میں تم اپنے خالق سے لو لگاؤ، خدا پر بھروسہ کرو، ہوسکتا ہے تمہیں امتحانات، دشواریوں و سختیوں سے گزرنا پڑے لیکن تمہاری کامیابی یقینی ہوگی۔ حسین ابن علی جب سخت سے سخت امتحان سے گزر گئے تو کربلاوالے ہوکر سختیاں و دشواریاں تو تمہارے لیے کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ جب امام حسینؑ اپنے بچوں و عورتوں کے ساتھ اُن مصائب و مشکلات کو شکست دے گئے تو تم بھی نام حسینؑ کے ذریعہ ہر سختی، ہر امتحان، ہر مصیبت سے گزر جاؤاور شہید کربلا سے درس لیکر کسی بھی موقع پر کسی بھی مرحلے میں اپنے پروردگار سے مایوس نہ ہو۔ ہر وقت اپنے معبود کی اپنی نگاہوں میں رکھو۔ 

 (۲) اپنے اندر علم و شعور و آگہی پیدا کرنا :

انسانیت کی پہچان علم و شعور ہے اس نعمت سے محروم انسان بظاہر تو انسان ہوتا ہے لیکن انسانی کمالات اس کے اندر نہیں آیا کرتے وہ خود اپنے فائدے و نقصان کو بھی پہچاننے کی صلاحیت نہیں رکھتا جو بھی چاہتا ہے اسے اپنے مقصد کے لئے استعمال کرلیتا ہے۔ علم و شعور تو اسلام کے آفاقی پیغام کی بنیاد ہے اسلام نے حق کی طرف دعوت دینے میں مجبور نہیں کیا بلکہ عقل و فکر و شعور کو بیدار کرنا چاہا ہے۔ جب تک انسان کے اندر عقل و فکر اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت نہ ہو وہ اسلام کو نہیں سمجھ سکتا۔ اس لئے اسلام زور دیتا ہے کہ علم حاصل کرو جہالت کی تاریکیوں سے باہر نکلو اور علم کی روشنی میں عقل کو بروئے کار لاکر حقائق کو درک کرو۔ جہالت صرف فرد کی موت نہیں ہے بلکہ سماج و معاشرہ کی موت کا سبب بن جاتی ہے لہٰذا ضروری ہے کہ کربلا کے اس پیغام کو سامنے رکھا جائے کہ عقل و فکر اور شعور و بصیرت نہ ہونے کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ فرزند رسولؐ کے قتل کے درپے ہوئے اور جہالت و بے بصیرتی کے نتیجے میں یزید جیسے فاسق و فاجر اور دشمن خدا و رسول کے ہاتھوں استعمال ہوگئے۔ لشکر یزید کی جہالت و لاعلمی اور عدم شعور و بے بصیرتی ہی کا نتیجہ تھا کہ بظاہر تو آل نبیؐ کا گھراجڑ گیا، فرزند نبیؐ کو قتل کردیا لیکن ان کے ہاتھ نہ دنیا آئی اور نہ آخرت خسر الدنیا والآخرۃ کا مکمل نمونہ بن کر سامنے آئے۔

 کربلا آج بھی تمام انسانوں کو پیغام دیتی ہے کہ جب حسین ابن علی علیہماالسلام نے اپنی عظیم قربانی زیارت اربعین کے اس جملہ ’’بَذَلَ مُهْجَتَهُ فِیک لِیسْتَنْقِذَ عِبَادَک مِنَ الْجَهَالَةِ وَ حَیرَةِ الضَّلالَةِ‘‘(التہذیب، شیخ طوسیؒ، ج۶،ص۱۱۳؛ بحار ۹۸؍۳۳۱))؛[’خدایا! حسین ابن علیؑ نے تیری راہ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا تاکہ تیرے بندوں کو جہالت اور گمراہی سے نجات دیں‘] کی روشنی میں بندگان خدا سے جہالت و گمراہی کو دور کرنے کے لیے دی۔ اور کربلا میں غازی عباسؑ جیسی ایک ذات کو رہتی دنیا تک بطور آئیڈیل و نمونہ پیش کیا جنھوں نے اپنے علم و شعور و بصیرت کی وجہ سے اپنے کو اس درجہ تک پہنچایا کہ آج کربلا ہی نہیں بلکہ تاریخ عصمت میں چہاردہ معصومین علیہم السلام کے بعد سرفہرست نظر آتے ہیں۔جن کے لیے امام معصوم حضرت جعفر صادق علیہ السلام نے گواہی دی: ’’کانَ عَمُّنَا العَبَاسُ بنُ عَلِیٍ نَافِذَ البَصِیرَةِ صُلبَ الاِیمَانِ جَاهَدَ مَعَ أَبِی عَبدِاللهِ وَ أَبلَی بلاءً حَسَناً وَ مَضَی شَهِیداً.( عمدۃالطالب،ص۳۵۶؛ تنقیح المقال، ج۲،ص۱۲۸)[میرے چچا عباس ابن علیؑ با بصیرت، دور اندیش، مضبوط ایمان کے حامل تھے، امام حسینؑ کی رکاب میں جہاد کیا، بہترین آزمایش کے مرحلے سے گزرے اور شہادت کے درجے پر فائز ہوئے]۔ تو تم بھی اپنے کو علم کی دولت سے مالا مال کرو اپنی عقل و فکر کو بروئے کار لاؤ اپنے شعور و بصیرت کو پختہ کرو تاکہ اولاً تم خود اپنے کو پہچان سکو اور حق و باطل میں تمیز دے سکو، ساتھ ہی ساتھ دوسرے کو موقع نہ دو کہ تم کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کرسکے ۔ کم از کم تمہارے اندر اتنی صلاحیت ہو کہ تم پہچان سکو سامنے والا تم کو کدھر لے جانا چاہتا ہے تم سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے۔ تمہارے ذریعہ اپنے کس مفاد کو حاصل کرنا چاہتا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ دنیاوی مفاد کےلئے تم کو دوزخ کا ایندھن بنارہا ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ انسانیت کا گلا گھوٹنے کے لئے تمہارا سہارا لے رہا ہے۔ کمزوروں کو دبانے، لوگوں پرظلم کرنے کے لئے تم کو سپر بنایا ہے، کہیں ایسا تو نہیں کہ دشمن تم کو مقدسات کے بہانے اسلام کے خلاف لا کھڑا کرنا چاہتا ہے۔ دین کے نام پر تم کو محافظ دین سے برسر پیکار کر رہا ہے۔

لہٰذا آؤ کربلا سے یہ پیغام لو کہ اپنے اور سماج کے درمیان سے جہالت و لاعلمی کی لعنت کو ختم کرو علم کی شمع روشن کرو اور علم و آگہی کی روشنی میں اپنی عقل و فکر اور شعور کو پختہ کرو تاکہ تم بھی محفوظ رہو اور تمہارا سماج بھی محفوظ رہے اور باطل طاقتیں اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ 

(۳) عزت و سربلندی کے ساتھ زندگی گزارنا:

 انسانی کمالات میں سے ایک کمال عزت نفس ہے، عزت و سربلندی انسانیت کی پہچان ہے کربلا میں سید الشہداءؑ کا ایک اہم پیغام تھا ’’ ھیھات منا الذلۃ‘‘ ہم ہر گز ہرگز ذلت کو گوارا نہیں کرسکتے۔ فرمایا: ’’موتٌ فى عزٍّ خیرٌ مِن حیاةٍ فى ذُلّ‘‘(بحار، ج۴۴، ص۱۹۲)[ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بہتر ہے] ۔ اور شہید کربلا ؑ نے تو یہاں تک فرمادیا کہ اس راہ میں اگر موت بھی آجائے تو وہ سعادت و خوشبختی ہے اورذلت و رسوائی کے سائے میں ظالمین کے ساتھ زندگی گزارنا نا قابل قبول ہے:  ’’«انّى لا ارى الموتَ الا سعادةً وَ الحیاةَ مَعَ الظَّالمینَ الّابَرما»‘‘(بحار، ج۴۴، ص۱۹۲)۔

کیا پاس تھا قولِ حق کا، اللہ اللہ

تنہا تھے، پہ اعدا سے یہ فرماتے تھے شاہ

میں اور اطاعتِ یزیدِ گمراہ

لا حَولَ و لا قُوّۃَ الّا باللہ

(مولانا الطاف حسین حالیؔ)

لہذا  اگر تم انسان ہو ، اپنے کو اشرف المخلوقات کہتے ہو تو اپنی عزت نفس کا پاس و لحاظ کرو۔ اپنی عزت کا سودا نہ کرو۔ خدا نے تم کو عزیز بنایا ہے لہٰذا ہر قدم پر اس عزت کی حفاظت کرو۔ چاہے گلا کٹ جائے، بچے قربان ہوجائیں، بھرا گھر اجڑ جائے، خواتین اسیر و قیدی بنالی جائیں لیکن عزت نفس اور عزت انسانی پر آنچ نہ آنے دو۔ کسی ظالم کے آگے گھٹنے ٹیکنا ذلت کو گوارا کرنا ہے، فاسق و فاجر کی منشاء و خوشنودی کا خیال کرنا عزت نفس کا سودا کرنا ہے، باطل سے مرعوب ہوجانا اپنے کو نہ پہچاننا ہے ، شرک و الحاد سے راضی رہنا ذلت گوارا کرنا ہے، دنیاوی مفاد کے لئے باطل کی خوشنودی حاصل کرنا اپنے کو ذلیل کرنا ہے، ظلم و نا انصافی ، فسق و فجور، قتل و غارت گری، فتنہ و فساد ، بے دینی و بے حیائی کو دیکھ کر خاموشی اختیار کرنا عزت انسانی کا سودا کرنا ہے۔ چند روزہ زندگی کے لئے باطل آقاؤں کی جی حضور ی کرنا عزت نفس کو پامال کرنا ہے، خدا کو چھوڑ کر باطل سے کسی طرح کی امید وابستہ کرنا ذلت کے آگے سرجھکانا ہے، جھوٹی شہرت کےلئے دینی اصولوں کو پامال کردینا عزت کا گلا گھونٹنا ہے، کسی مخلوق کے آگے ہاتھ پھیلانا عزت نفس کو پامال کرنا ہے۔

عزت نفس اور سر بلندی کے ساتھ زندگی گزارنے کا مطلب ہےکہ صرف خدا کی طاقت پر بھروسہ کرو، کسی باطل طاقت سے نہ ڈرو، کسی ظالم و جابر سے مرعوب نہ ہو، اپنی قلت پر کسی طرح کا خوف نہ ہو، عزت نفس اور سر بلندی کے لئے ہوسکتا ہے قربانی دینا پڑے ہر طرح کی قربانی کے لئے تیار رہو۔ ہوسکتا ہے جان و مال سے گزرنا پڑے اپنی عزت و سربلندی کے لئے اپنی جان و مال سے گزرجاؤ، کربلا کا نمونہ سامنے ہے حسینؑ گلا کٹوا کر آج بھی عزیز ہیں اور یزید ظلم کرکے بھی ذلیل و رسوا ہے۔ کربلا کا یہ درس انتہائی اہم ہے کہ کسی بھی قدم پر کسی بھی مرحلے میں اپنی عزت نفس کو فراموش نہ کرو۔ ھیھات منا الذلہ کو عملی جامہ پہناؤ ، باطل کے آگے کسی بھی حالت میں سر نہ جھکاؤ چاہے سر کٹا نا ہی کیوں نہ پڑے۔

(۴) ظلم و نا انصافی کے خلاف آواز بلند کرنا:

 فطرت انسانی والے دین اسلام کا پیغام ہے نہ ظلم کرو نہ ظلم سہو، دین اسلام کی اساس و بنیاد عدل و انصاف پر ہے اس دین میں ظلم کا تصور ہی نہیں ہے قیام حسینؑ کا کربلا میں مقصد نیز منتقم خون حسینؑ امام مہدی عج کے قیام کا مقصد ظلم و ستم کا خاتمہ اور عدل و انصاف و امن و امان کا قیام ہے۔ خود امام حسینؑ نے اپنے بھائی محمد حنفیہ کے نام خط میں اپنے قیام کے مقصد کو بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا:

 ’’إِنّی لَمْ أَخرُجْ أَشِراً و لا بَطِراً و لا مُفْسِداً و لا ظالِماً، إِنَّما خَرجْتُ لِطَلَبِ إلاصلاحِ فی أُمَّهِ جَدّی۔’’میں ہرگز شر و برائی یا ظلم و ستم اور فتنہ و فساد کے لیے نہیں نکلا ہوں بلکہ میں تو اپنے نانا کی امت کی اصلاح کے لیے قربانی دینے جارہا ہوں‘‘۔امام مہدی عج کے لیے پیغمبر اکرمﷺ و دیگر ائمہ معصومین علیہم السلام سے متعدد و متفق علیہ حدیثوں میں یہ جملہ ملتا ہے: ’’’’فَيَمْلَأُ الْأَرْضَ قِسْطاً وَ عَدْلًا كَمَا مُلِئَتْ جَوْراً وَ ظُلْماً‘‘۔

(سنن ابی داؤد، ج۴، ص۱۰۷ ؛ کنز العمال، ج۱۴، ص۲۶۴؛کمال الدین و تمام النعمۃ ج۱، ص۲۸۰)۔

’’وہ اسی طرح زمین کو عدل و انصاف سے پُر کریں گے جس طرح وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی۔‘‘

یعنی اسلام چاہتا ہی ہے کہ امن و امان اور عدل وانصاف قائم رہے ظلم و ستم کا نام و نشان بھی باقی نہ رہے۔ حسین ابن علی علیہما السلام نے اپنے قیام کے ذریعہ پیغام دیا کہ اگر ظلم آشکار ہورہا ہو، ظالم ، انسانیت کا خون چوس رہا ہو، لوگوں کے حقوق پامال ہورہے ہوں، کمزوروں کو دبایاجارہا ہو، زمام حکومت ایسے ہاتھوں میں ہو جہاں انسانیت پامال ہورہی ہو، اقتدار ان لوگوں کے ہاتھوں میں آجائے جو انسانیت کی خو بو بھی نہ رکھتے ہوں، کسی بھی انسان کی جان و مال ، عزت و آبرو محفوظ نہ ہو تو ایسی صورت میں ہرحق پسند انسان کا فریضہ ہے کہ ظلم کے خلاف اقدام کرے، ایسے مواقع پر خاموش رہ جانا اور کوئی بھی اقدام نہ کرنا ظالم کے ظلم میں شرکت کے مترادف ہے۔ لہٰذا حسین ابن علی علیہ السلام نے قیام کربلا کے ذریعہ یہ پیغام بھی دیا کہ ظلم کے خاتمے کے لئے جو کرسکتے ہو کرو ، ظلم پر خاموشی و سکوت اختیار کرکے ظالم کو سہارا نہ دو اس لئے کہ اگر ایک طرف ظلم کرنا برا ہے تو دوسری طرف ظلم ہوتے دیکھ کر کوئی اقدام نہ کرنا بھی برا ہے۔ امام حسینؑ نے فرمایا: اَیُّهَا النّاسُ اِنَّ رَسولَ الله صَلَّی اللهُ عَلَیهِ وَ آلِهِ قالَ مَن رَأَى سُلطاناً جائِراً مُستَحِلّاً لِحُرُمِاتِ الله ناکِثاً لِعَهدِ الله ... یَعمَلُ فی عِبادِ الله بِالجَورِ وَ العُدوانِ و لَم یُغیِّرُ عَلَیهِ بِقَولٍ وَ لا فِعلٍ کانَ حَقّاً عَلَى الله اَن یُدخِلَهُ مَدخَلَه۔(وقعۃالطّف، ص ۱۷۲)

’’اے لوگو! رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: جو بھی کسی ظالم حاکم کو دیکھے جو محرمات الٰہی کو پامال کررہا ہو، عہد خدا کو توڑ رہا ہو۔۔۔ لوگوں کے ساتھ ظلم و جور سے پیش آرہا ہو۔ اگر کوئی یہ سب دیکھ کر خاموش رہے اور اس کے خلاف قول و فعل سے مخالفت نہ کرے تو خدا پر حق ہے کہ اسے آتش دوزخ کے حوالے کرے۔ ‘‘

چونکہ یزید ظالم تھا اپنے آباؤ اجداد کی روش پر چلتے ہوئے بلکہ ظلم و نا انصافی کے راستے میں ان سے قدم آگے بڑھاتے ہوئے کمزوروں کو دبانا چاہتا تھا حق کو مٹانے کے درپے تھا، ظلم کی بنیادوں کو مضبوط کرکے انسانیت کوشرمسار کررہا تھا، انسانوں کو علی الاعلان انسانی حقوق سے محروم کرنا چاہ رہا تھا۔ حتیٰ محترم رشتوں کے تقدس کو بھی تار تار کررہا تھا ایسے میں امام حسینؑ نے اس کے خلاف قیام کرکے اسلامی مزاج کو پہچنوا دیا:’’عَلَی الْإِسْلَامِ السَّلَامُ إِذْ قَدْ بُلِیتِ الْأُمَّةُ بِرَاعٍ مِثْلِ یزِیدَ (لہوف،ص۲۴؛ مقتل مقرم،ص۱۳۳ )؛ اگر یزید جیسے ظالم و جابر اور فاسق و فاجر حاکم اسلامی کے عنوان سے سامنے آئیں تو ایسے اسلام ہی کا فاتحہ پڑھ دینا چاہیے۔ یعنی نبیؐ کے لائے ہوئے دین اسلام میں یزید جیسوں کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔

لہذا تمہاری انسانیت کا تقاضا ہے کہ نہ ظلم کرو نہ ظالم کو ظلم کرنے دو۔ جس حد تک ظلم کے خلاف آواز بلند کرسکتے ہو آواز بلند کرو۔ ظلم و نا انصافی کے خلاف آواز اٹھا کر اپنی حد تک کوششیں کرکے اپنے انسان ہونے کا ثبوت دو۔

(۵) حریت و آزادی:

انسان کو اللہ نے آزاد پیدا کیا ہے حتیٰ کہ اسے مخلوق کی حاکمیت سے بھی آزاد رکھتے ہوئے نظام حکومت و حاکمیت اپنے ہاتھ میں رکھا ہے کہ حاکم بنانا اس کا کام ہے تاکہ انسانی عزت و وقار باقی رہے اور انسان کسی اپنے جیسے کا محکوم نہ بنے۔اسی لیے اگر اس نے نبی و رسول اپنی جانب سے معین کیے تو آخری رسول کے بعد جانشین رسول و خلیفۂ رسول کو بھی اپنی ہی جانب سے معین کیا جس کا سلسلہ قیام تک جاری و ساری رہے گا۔

 امام حسینؑ کےقیام کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ عزت انسانی کا تقاضا حریت و آزادی ہے۔ یہ انسان کی انسانیت کے خلاف ہے کہ وہ غلامی والی زندگی گزارے اور باطل کا غلام رہے۔ یہ عظمت انسانی سے سازگاری نہیں رکھتا کہ انسان اپنے خالق حقیقی کے علاوہ کسی اور کی عبادت و پرستش کرے۔ شرافت انسانی کا تقاضا ہے کہ وہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑا نہ جائے۔ چاہے وہ جسمانی غلامی ہو یا فکری غلامی ۔ امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا: لاَ تَكُنْ عَبْدَ غَيْرِكَ .وَقَدْ جَعَلَكَ اللهُ حُرّا (نہج البلاغہ)، کسی غیر کے غلام نہ بنو اللہ نے تو تم کو آزاد پیدا کیا ہے۔

 لہٰذا امام حسینؑ نے قیام کرکے تمام آزاد پسند انسانوں کو پیغام دیا کہ اپنی انسانی عزت و شرافت کا خیال کرتےہوئے اپنے کو غلامی سے آزاد رکھو۔ حریت و آزادی تو تمہارا سرمایہ ہے کسی باطل کی غلامی سے بہتر ہے جام شہادت نوش کرلینا: مَوْتٌ فی عِزٍّ خیرٌ مِنْ حَیاةٍ فی ذلّ۔ (بلاغۃ الحسین، ص 141)، ’’ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بہتر ہے‘‘۔ لَیْسَ المَوْتُ فی سبیلِ العِزِّ الاّ حیاةٌ خالِدَةً و لیستِ الحیاةُ معَ الذُّلِّ الاّ الموت الذی لاحیاةَ مَعَهُ.(احقاق الحق، ج 11، ص 60)، عزت کے لیے موت کو گلے لگاناتو حیات جاوید حاصل کرنا ہے اور ذلت کے ساتھ زندگی ایسی موت ہے جس کے ساتھ حیات کا تصور نہیں‘‘۔ اگر اسی حریت و آزادی کےلئے سخت سے سخت امتحان سے بھی گزرنا پڑے تو گزر جاؤ تاکہ اپنی شناخت باقی رکھ سکو۔اس لیے کہ: ما اَهوَنَ الموتُ علی سبیل نَیل العزّ و احیاءِ الحقِّ.(امام حسینؑ۔احقاق الحق، ج 11، ص 60)بقائے عزت اور احیائے حق کی راہ میں موت تو انتہائی آسان ہے۔

 اگر کربلا کے حریت و آزادی کے پیغام کے اثرات کا مشاہدہ کرنا ہے تو دور حاضر میں ہمارے سامنے دو واضح اور بہت ہی روشن نمونے موجود ہیں ایک طرف ایران کااسلامی انقلاب جہاں بقول بانی انقلاب ’’ ماہرچہ داریم از محرم و صفر است‘‘ آج ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ عزاداری اور پیغام کربلا کا نتیجہ ہے اسی پیغام کربلا کو سامنے رکھ کر ڈھائی ہزار سالہ شہنشاہیت کے چنگل سے نجات حاصل کرنے کےلئے اسلامی انقلاب ایران کی شکل میں حریت و آزادی کا تحفہ پیش کیا ہے تو دوسری طرف وطن عزیز ہندوستان کی آزادی ہے جہاں بقول مہاتما گاندھی: ہم نے کربلا کو سامنے رکھ کر ہندوستان کو آزاد کرایا ہے۔ یعنی ہندوستان نے بھی اگر انگریزوں کی غلامی سے نجات حاصل کی ہے تو یہ بھی کربلا سے درس لینے کا نتیجہ ہے۔ کربلا آج بھی ہر انسان کو آواز دے رہی ہے کہ کسی کے غلام نہ رہو۔ غلامی تمہاری انسانی شرافت کے خلاف ہے حتیٰ کہ تم کو کسی باطل کی فکری غلامی سے بھی اپنے کو نجات دلانا ہے، کلچر و ثقافت، راہ و روش، طور طریقہ بھی ایسا ہی اپناؤ جو خدائی اور خدا والوں کا ہو اگر اس کو چھوڑ کر کوئی اور کلچر اور طریقہ اختیار کرو تو یہ بھی غلامی ہے لہذا اس سے بچو۔

اور اگر آزادی والی زندگی چاہتے ہو ، اگر عز ت و شرافت والی زندگی چاہتے ہو، اگر غلامی والی زندگی سے بچنا چاہتے ہو تو کربلا کو سامنے رکھو۔ جہاں بہتر نے ہزاروں کے مقابلے گلے تو کٹادیئے لیکن اپنے کو غلامی سے آزاد رکھا۔ اور دنیا میں پیغام حریت دیکر زندۂ جاوید بن گئے۔

(۶) اتحاد و یکجہتی:

درِ حسینؑ پہ ملتے ہیں ہر خیال کے لوگ

یہ اتحاد کا مرکز ہے آدمی کے لیے

’’انسان‘‘ کا ایک مطلب ’’انس رکھنے والا‘‘ بھی ہوسکتا ہے۔ اپنے جیسوں سے لگاؤ، آپس میں ایک دوسرے سے مانوس ہونا، ایک دوسرے کی فکر کرنا جس کا لازمہ ہے آپسی اختلافات سے دوری۔ انسانیت کا مطلب یہی ہوگا کہ آپس میں اتحاد و یکجہتی رکھنے والا۔ قرآن کریم ’’ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّـهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا‘‘ (سورہ آل عمران، آیت۱۰۳) ’’اور اللہ کی ر سّی کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور آپس میں تفرقہ نہ پیدا کرو‘‘،کہہ کر اتحاد کا پیغام دے رہا ہے۔ پیغمبر اسلامﷺ نے ’’المسلم اخو المسلم‘‘(فتح الباری شرح بخاری، کتاب المظالم، باب لایظلم المسلم المسلم، ح۲۳۱۰)کہہ کر تمام مسلمانوں کو آپس میں متحد رہنے اور اختلافات سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے۔ 

دنیا کے تمام مذاہب اختلاف و جھگڑے کو اچھا نہیں سمجھتے۔ کربلا میں حسین ابن علی علیہماالسلام نے بھی امت کو اتحاد و یکجہتی کا پیغام دیا۔ یہ امت میں اتحاد و یکجہتی کا نہ ہونا ہی تھا کہ یزید جیسا فاسق و فاجر نواسۂ رسول ﷺ کے قتل کا درپے ہوگیا اور دوسری طرف ۷۲ افراد اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہزاروں کے مقابلے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے اسلام و انسانیت کی حفاظت کو یقینی بناگئےاور یزید کو اس کے مشن میں کامیاب نہیں ہونے دیا۔ کربلا میں یہ حسین ابن علی علیہماالسلام کا ایک کارنامہ ہی تو تھا کہ ۱۰ محرم الحرام ۶۱ ہجری سے پہلے تک مختلف نظریات ، مختلف افکار، مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو کربلا میں لاکر ایک بنا دیا، اب کربلا میں دیکھنے میں تو بہتر تھے لیکن سب کا مشن ایک، سب کا مقصد ایک، سب کا نظریہ ایک، بلکہ سب ایک تھے۔

عزاداریٔ امام حسین علیہ السلام کابہت بڑا پیغام اتحاد و یکجہتی ہے، اور کربلا کی قربانی کی یاد منانے کا مقصد بھی امام حسین علیہ السلام کی اس سیرت اتحاد کو نگاہوں میں رکھنا اور اس پر عمل پیرا ہونا ہے۔ گویا عزاداری، مجالس، جلوس، فرش عزا، امام باڑے، انجمنیں؛ غرض امام حسینؑ سے متعلق تمام چیزیں آپسی اتحاد کا ذریعہ ہیں۔ اس سے ہٹ کر کہیں اور اختلاف و دوریاں ہوسکتی ہیں لیکن نام حسینؑ، فرش عزا پر، انجمن و جلوس عزا میں ہرگز اختلاف و دوری نہیں ہوسکتی۔ عزاداری اس لیے بھی کرنا ہے کہ امام حسینؑ کے تمام ماننے والوں کے درمیان اتحاد قائم و ہمدلی قائم رہے، فرش عزا پر اس لیے بھی بیٹھنا ہے کہ یہاں بیٹھ کر نام حسینؑ پر دلوں سے کدورتیں و نفرتیں، کینہ و بغض کو نکال سکیں۔

 حسین بن علیؑ کا پیغام یہ بھی تو ہوگا کہ میں نے کربلا میں علوی و غیر علوی، عیسائی و عثمانی، صغیر و کبیر، آقا و غلام ؛ سب کو ایک مرکز پر جمع کرکے سب کو ایک بناکر دنیا کے سامنے عملی سیرت پیش کردی۔ یہاں دیکھنے میں تو ۷۲ ہیں لیکن سب ایک ہیں۔ یہاں کسی طرح کا اختلاف نہیں ہے ۔ لہذا اگر کسی نام پر تمام لوگ اکٹھا ہوسکتے ہیں تو وہ نام حسینؑ ہے اور اگر کسی جگہ پر آکر سارے اختلافات ختم کیے جاسکتے ہیں تو وہ کربلا ہے۔ اتحاد ہر دور کی ضرورت ہے۔ دشمن سب سے زیادہ اختلاف سے فائدہ اٹھاتا ہے، انسانیت کے دشمنوں کو ناکام کرنے کے لیے تمام انسانوں کے درمیان اتحاد ضروری ہے، اسلام دشمن طاقتوں کو مایوس کرنے کے لیے مسلمانوں میں اتحاد لازم ہے اور دشمنان اہل بیتؑ و دشمنان ولایت کو انکے مقاصد میں ناکام کرنے کے لیے مومنین کے درمیان اتحاد و اتفاق ضروری ہے ۔ ہم نام حسینؑ پر، فرش عزا پر، جلوس عزا و انجمنوں میں متحد ہوکر، اپنے تمام اختلافات ختم کرکے ثابت کریں کہ ہم واقعی حسینی اور حقیقی عزادار ہیںاور ہم دشمنان عزا و دشمنان اہل بیتؑ کو ان کے مقاصد میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔  ہم آپس میں تمام اختلافات کو مٹاکر، اپنے دلوں سے کینہ و نفرت نکال کر، ہر حسینی و ہر علوی کو اپنا سمجھ کر دشمن عزا کو بھی مایوس کریں گے، دشمن ولایت کو بھی اس کے مقصد میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔

شہید ظلم کلیجے ہلا دیئے تونے

حسینؑ درد کے دریا بہا دئیے تونے 

ہر ایک ذرّۂ بے حس میں اِک تڑپ بھردی

دماغ وضع کیے دل بنا دئیے تونے

(علامہ نجمؔ آفندی)

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .