۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 20, 2024
صفوۃ العلماء مولانا سید کلب عابد نقوی رحمت مآب

حوزہ/ صفوۃ العلماء مولانا سید کلب عابد نقوی رحمت مآب کی ایک خوبصورت تحریر "بعنوان کیا نمازِ شاؑہ تھی ارکانِ ایمانی کے ساتھ" قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی | اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ کربلا کے چٹیل میدان میں امام حسین علیہ السلام ان کے اعزہ اور اصحاب نے جیسی بے مثال قربانیاں پیش کی ہیں ابتدائے آفرینش سے آج تک کسی قوم وملت میں کسی بھی مقصد کے لئے اتنی عظیم قربانیاں نہ پیش کی گئیں اور نہ قیامت تک پیش کی جاسکتی ہیں ۔ اس واقعہ میں جذبۂ قربانی ، صبروتحمل اور راہ خدا میں خندہ پیشانی سے ہر مصیبت کو برداشت کرنے کے جتنے پہلو پائے جاتے ہیں نہ ان کی مثال مل سکتی ہے اور نہ اس کے نتیجے میں جیسے گو ناگوں اور مختلف النوع آثار مرتب ہوئے اورہوتے رہتے ہیں اور جس جس طرح سے انسان اپنی زندگی کے مختلف ادوار میں مختلف موڑوں پر اس سے روشنی حاصل کرسکتاہے اس کی کوئی حد ہے ۔ یقینا یہ واقعہ بتاتا ہے کہ ایک رہبر کامل میں رہبری کے کیسے جوہر ہونا چاہئے۔ دقت نظر سے صحیح رہبر کے انتخاب کے بعد آنکھ بند کرکے اس کی کیوں کر اطاعت کرنا چاہئے ۔ یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ منزل مقصود حاصل کرنے کے لئے اہل کارواں میں کیسی ہم آہنگی ہونا چاہئے ۔ واقعہ کربلا رنگ ونسل و قومیت کی بنا پر تفوق و برتری کے جذبے کو پامال کرتے ہوئے اسلامی مساوات کی تعلیم بھی دیتا ہے کہ جس زانو پر جناب عباسؑ وعلیؑ اکبر کا سر ہے اسی پر جونؑ غلام ابوذؑر کا بھی سر نظر آتاہے ۔ چھوٹوں بڑوں میں حفظ مراتب کی تعلیم بھی مل جاتی ہے، غرض کہاں تک فہرست گنوائی جائے، سرکار رسالتؐ نے اپنی سیرت سے جن باتوں کی تعلیم ۲۳؍ برس پر پھیلی ہوئی مدت میں دی امام حسین ؑ نے ان باتوں کو ایک رات اور ایک دن میں اجاگر کردیا ۔ واقعہ کربلا کوئی پھول نہیں، کوئی گلدستہ نہیں، بلکہ وہ اخلاق و کردار اسلامی کا ایک سدابہار چمن ہے جس سے ہرہر شخص اپنے ذوق کے مطابق پھول چن سکتاہے ۔ لیکن اس ہمہ رنگی میں یک رنگی بھی ہے روشنیاں تو ہر رنگ کی ہیں لیکن وہ برقی رو جس نے دنیا کو چمکا اور جگمگا رکھا ہے وہ دو مثبت اور منفی طاقتوں لاالہ الا اللہ کی رہین منت ہے ۔ واقعۂ کربلا کی اصل روح قُلْ ھُوَاللّٰہُ اَحَدْ اَللّٰہُ الصَّمَدْ ہے یعنی قابل پرستش، لائق اطاعت، سرجھکانے کے قابل ایک ہی یکتا اور بے نیاز ذات ہے جس کے مقابل سب کو اظہار نیاز مندی کرنا چاہئے ۔ اسی کو ہر ایک کا مقصد نگاہ وملجا و ماویٰ ہونا چاہئے اس کے علاوہ دنیا کی کوئی بڑی سے بڑی طاقت جو ذات احدیت سے ٹکرائے وہ طاغوت ہے ایمان باللہ کے لئے طاغوتی طاقتوں سے کفران کے سامنے سر جھکانے سے انکار ضروری ہے یہی وہ حقیقت ہے جس کا اظہار کبھی  ؎
نقش الااللہ بر صحرا نوشت 
سے اور کبھی   ؎
حقّا کہ بنائے لاالہ است حسینؑ 
سے کیا جارہاہے ۔ اسی عقیدے کا عملی مظاہرہ ایک مسلمان نماز کی صورت میں کرتاہے ۔ 
نمازتو توحید فی الذات ، توحید فی الصفات اور توحید فی العبادت صرف اللہ کے سامنے سرجھکانے ہر طاقت سے سربلندی، اللہ کے سامنے انتہائی خضوع و خشوع کے مظاہرہ کے لئے اسلام نے منتخب کیا ہے ۔ قبلہ کی طرف رخ کرنے کی شرط اشارہ ہے کہ ہر طرف سے رخ موڑ کر پوری توجہ اللہ کی طرف ہونا چاہئے ۔ قیام رکوع و سجود علامتیں ہیں مقصد الٰہی کے لئے قیام کرنے، صرف اسی کے سامنے جھکنے، اور بس اسی کے لئے مظاہرہ خضوع وخشوع کرنے کی ۔ 

چونکہ نماز کو اسلام کے بنیادی مقاصد کے اقرار و اظہار کا ذریعہ قرار دیاگیا ہے اسی لئے اس کو تمام عبادتوں پر تفوق و برتری حاصل ہے ۔ رسالت مآبؐ نے اس کو اپنی خنکی چشم فرمایا ۔ ارشاد ہوا کہ اگر نماز قبول ہوئی توتمام اعمال قابلِ قبول ہوں گے اور اگر نماز رد ہوگئی تو ہر عمل رد ہوجائے گا ۔ رسولؐ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ نماز دین کا ستون ہے ۔ یعنی جس طرح عمارت ستونوں پر قائم ہوتی ہے ستون گرجائیں تو عمارت ڈھاجاتی ہے ۔ وسطی عماد  نہ رہے تو خیمہ برقرار نہیں رہ سکتا ۔ اسی طرح اگر نماز نہ رہی تو گویا دین ہی ختم ہوگیا ۔ یہاں تک ارشاد فرمایا کہ شرک واسلام میں مابہ الامتیاز نماز ہے۔ تارک الصلوٰۃ کو انبیاؑء کا قاتل بتایا گیا ہے کیونکہ مقصد نبوت فرامین الہٰی کے سامنے سراطاعت جھکانا ہے ۔ تارک الصلوٰۃ اس مقصد کا قاتل ہوتاہے ۔ 

نماز کے یہی خصوصیات اور یہی امتیازات تھے جن کی بنا پر امام حسین علیہ السلام نے نماز کو معرکۂ کربلا میں جو اسلامی حقائق کا آئینہ ہے خاص درجہ عنایت فرمایا ۔ جس سے بہتر طریقہ پر اہمیت نماز کا مظاہرہ حدود امکانی سے باہر ہے شب عاشور وہ رات ہے جس کو امام حسینؑ نے دل بھر کے نماز ادا کرنے کے لئے دشمنوں سے مانگ کر حاصل کیا ۔ روز عاشور امام حسین علیہ السلام کی نماز ظہر مسلمانوں کے لئے اس بات کا عظیم درس ہے کہ کسی حالت میں بھی نماز ترک نہ ہونے پائے ۔ مجھے یقین ہے کہ امام حسینؑ اول وقت نماز سے معاذ اللہ غافل نہ تھے ۔ لیکن خود خاموش تھے ۔ شاید اس لئے کہ دنیا دیکھ لے امام معصوم ہی نہیں حسینؑ کے اصحاب کو بھی کتنی فکر تھی کہ اس وقت جب جنگ مغلوبہ ہورہی تھی بیس ہزار کا لشکر حسینؑ کے چند ساتھیوں کو ہر طرف سے گھیرے ہوئے تھا ۔ نیزہ و سنان وشمشیر کے ہر طرف سے وار ہورہے تھے ۔ ظاہر ہے اصحاب امام علیہ السلام جوش جہاد میں مدہوش ہوں گے۔ان کی توجہ اس طرف بھی ہوگی کہ امام حسینؑ اور آپ کے اعزا پر کوئی زخم نہ آنے پائے ۔ خیام حسینی کی حفاظت کی فکر بھی ہوگی مگر اس حالت میں بھی اصحاب کو نماز ہی یاد نہ تھی یہ بھی خیال لگا ہوا تھا کہ کب اول وقت ہوتاہے ۔ ابو ثمامہ نے بڑھ کر کہا آقا! نماز کا وقت آگیاہے ۔ چاہتاہوں کہ آپ کے ساتھ نماز پڑھ لوں یا حسینؑ اسی کے منتظر تھے، خوش ہوگئے اور دعا بھی دی تو ایسی جس سے نماز کی عظمت اور نمایاں ہوجائے ارشادفرمایا۔

ذکرت الصلوٰۃ جعلک اللہ من المصلین۔ اے ابو ثمامہ! تم نے نماز یاد رکھی اللہ تم کو نماز گزاروں میں شمار کرے ! اس موقع پر یہ بھی ممکن تھا کہ امامؑ اپنے اصحاب سے فرماتے کہ جاؤ دو دو ایک ایک کرکے خیمے میں نماز ادا کرلو، مگر اس طرح نماز کی اہمیت تو ظاہر ہوجاتی، نماز جماعت کی فضیلت معلوم نہ ہوتی ۔ امام ؑ نے اس عالم میں جبکہ مصائب کا انبوہ تھا ، دشمنوں کا ہجوم تھا، نماز جماعت پڑھ کر اپنے دوستوں بتایا کہ میں نے اس حالت میں نماز جماعت ادا کی ہے تم کم از کم پرسکون حالات میں تو نماز جماعت سے غفلت نہ برتو ۔ 

نماز ظہر سے زیادہ پرہیبت منظر وہ تھا جب امام یکہ وتنہا دشمنوں کے مجمع میں گھرے ہوئے تھے۔ نہ لشکرے ، نہ سپاہے ، نہ کثرت الناسے، نہ قاسمیؑ، نہ علی اکبریؑ نہ عباسیؑ
مگر اس حالت میں بھی حسینؑ پشت زین پر نماز عصر ادا فرمارہے تھے ۔ اور پھر اس سجدۂ آخر کے لئے کیا کہا جائے جس سے حسینؑ نے خود سے سر نہیں اٹھایا سجدے سے سر اٹھا تو نوک نیزہ پر سربلند ہوا ۔ امام نے بتایا کہ یہ حقیقت نماز ہے ۔ یہ روح نماز ہے ۔ یہ شان نماز ہے ، جو میں نے ادا کی یہ ہیں وہ ارکان ایمانی جن کا مظہر نماز ہوتی ہے ۔ 

یقینا نماز شاہ ارکان ایمانی کے ساتھ تھی ۔ اس نماز سے بہتر ارکان ایمان کا نمایاں ہونا اب قیامت تک ممکن نہ ہوگا ۔ لیکن بزرگ مرتبہ شاعر سے اپنی گستاخی کی معافی مانگتے ہوئے یہ عرض کرنے کی جرأت کررہاہوں کہ دوسرے مصرعے سے مجھے اتفاق نہیں میرے خیال میں یہ کہنا مناسب نہیں کہ  ؎
دل بھی جھک جاتاتھا  ہر سجدے میں پیشانی کے ساتھ
 میرے خیال میں پیشانی جھکنے کی قید سر جھکنے کے لئے درست نہیں بلکہ وہ سر جو ہر لمحے اور ہر آن بارگاہ احدیت میں جھکا ہوا تھا اس کا اظہار تھا سجدے میں خون آلود پیشانی کا جھکا دینا ۔ بارگاہ الٰہی میں دل کا جھکنا کوئی آنی اور لمحاتی واقعہ نہیں ۔ اس کو تو ہرآن و ہرلمحے اللہ کے سامنے خم رہنا چاہئے ۔ 

تحریر: صفوۃ العلماء مولانا سید کلب عابد نقوی رحمت مآب

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .

تبصرے

  • https://www.youtube.com/watch?v=cdgPLMN45jQ IN 12:12 - 2023/07/06
    0 0
    https://www.youtube.com/watch?v=cdgPLMN45jQ مولانا کلب عابد صاحب کی ڈاکومنٹری دیکھنے کے لئے اوپر دیے گئے لنک پر کلک کیجیے