۶ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۶ شوال ۱۴۴۵ | Apr 25, 2024
مولانا شیخ ابن حسن املوی واعظ

حوزہ/ عیسائیوں کے سب سے بڑے روحانی پیشوا پوپ  فرانسیس نجف اشرف عراق میں مقیم مرجع تقلید عالیقدر آیۃ اللہ سیستانی مد ظلہ العالی سے ملاقات کی تھی۔اس ملاقات سے ہمارے ذہن میں واقعہ ٔ مباھلہ کی کامیابی کا ایک خوشنما پہلو ابھر کر سامنے آیا وہ یہ کہ پیاسا کنویں کے پاس جاتا ہے، کنواں پیاسے کے پاس نہیں جاتا ۔

حجۃ الاسلام مولانا شیخ ابن حسن واعظ املوی،بانی و سرپرست حسن ؔ اسلامک ریسرچ سنیٹر املو،مبارکپور،ضلع اعظم گڑھ اتر پردیش انڈیا نے عید مباہلہ کی مناسبت سے کہا کہ تاریخ گواہ ہے کہ حق اور باطل ،سچ اور جھوٹ،انصاف اور ظلم،ھدایت اور ضلالت ،انسانیت اور شیطنت ،عزت اور ذلت ،شرافت اور رذالت کا ٹکراؤ بہت پرانا ہے۔جب سے اس دھرتی پر انسانوں کی بستی آباد ہوئی تب سے ان کے درمیان فتنہ و فساد،اختلاف و انتشار ،قتل و غارت گری،خوں ریزی اور دھشت گردی کے معاملے بھی رونما ہوتے رہے۔سب سے پہلے ہابیل اور قابیل دو بھائیوں کے درمیان اختلاف پیدا ہوا اور آپسی رنجش کا معاملہ سامنے آیا اور نوبت قتل و خونریزی تک پہونچ گئی۔کبھی حضر ت موسیٰ ؑ اور فرعون کے بیچ خدا پرستی اور خود پرستی کا نظریہ اتنی شدت اختیار کر گیا کہ کھلم کھلا دھشت گردی کی پہلی اور بڑی وحشتناک مثال بن گیا۔پھر حضرت عیسیٰ ؑ کا زمانہ آیا اور یہودیوں نے مسیحیوں پر ظلم کرنے میں کوئی کور کسر باقی نہیں چھوڑی۔حتیٰ کہ اللہ کے رسول حضرت عیسی ؑ کو ہی جان سے مارڈالنے کا پلان بنا لیا ۔مگر جس کو اللہ رکھے اس کو کون چکھے۔ اللہ نے عیسیٰ ؑ کو چوتھے آسمان پر اٹھا لیا اور وہ بچ گئے اور ابھی بھی عیسیٰ ؑ زندہ و سلامت ہیں۔اور پھر یہان تک کہ آخری نبی تاجدار ِ بشریت،سرکار رسالت حضرت محمد مصطفےٰ ؐ اس دنیا میں تشریف لائے۔ اور کار رسالت کا آغاز فرمایا تو دوستوں اور دشمنوں کے دو گروہ بننا شروع ہو گئے ۔اکثریت مخالفین و معاندین کی تھی ۔مسلمان اقلیت میں تھے مگر اپنی طاقت کا لوہا منوا چکے تھے ۔خدا ئے وحدہ لاشریک پر ایمان و عقیدہ کی پختگی کی وجہ سے ان کی نظر میں دنیا کی کوئی طاقت اور حکومت قابل اعتنا نہیں رہ گئی تھی۔ چھوٹی بڑی جنگیں اور لڑائیاں ہوئیں مگر ہر محاز پر اسلام اور مسلمانوں کی شاندار اور پر افتخار فتح ہوتی رہی۔تمام باطل طاقتیں مل کر صاحب خلق عظیم پیغمبر اسلام پر حملہ آور ہوتی رہیں ۔مگر ہر معرکہ میں اہل باطل کو شدید ناکامی اوربڑی رسوائی اٹھانی پڑی۔

جب کفار و مشرکین میدان جنگ میں منھ کی کھا چکے اور کسی طرح  اہل اسلام پر فتحیا ب نہ ہو سکے تو قوم نصاریٰ کے لوگوں نے ایک نیا محاز کھولا ۔بحث  و مباحثہ اور مناظرہ و مجادلہ کا ۔  ان کو اپنی مادی دولت پر گھمنڈ تو تھاہی تعلیم یافتہ اور مہذب بننے کا بھی بھوت سوار ہوگیا۔علمی میدان میں اپنی برتری اور سچائی کی دھونس جمانے کے لئے رسول اسلام سے مباحثہ و مناظرہ کرنے لگے۔موضوع مناظرہ یہ تھا کہ حضرت عیسیٰ ابن مریم ابن اللہ ہیں یا روح اللہ ہیں۔نصاریٰ کہتے تھے کہ عیسیٰ ؑ ابن اللہ ہیں اور پیغمبر اسلام کہتے تھے کہ عیسیٰ ؑ روح اللہ ہیں۔ 

اصل میں واقعہ یوں ہوا کہ سنہ ۷ ؍ھجری میں جنگ خیبر کی شاندار تاریخی فتح کے بعد اسی سال حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے  ایک مہر بنوائی جس پر محمد رسول اللہ کندہ کرایا ۔اس کے بعد شاہان عالم کو دعوت اسلام کے لئے تبلیغی خطو ط ارسال فرمائے۔ان تبلیغی خطوط کے اثرات مختلف بادشاہوں پر مختلف نوعیت کے مرتب ہوئے۔
یمن میں نجران ایک بہت بڑا شہر تھا جو تہتر گاؤں پر مشتمل تھا ۔( فتح الباری علامہ ابن حجر عسقلانی صفحہ ۱۵۷ جلد ۹) نجران کا نظم و نسق چلانے کے لئے حکمران بھی تھے اور علماء و مشائخ بھی یہ مذہباً عیسائی تھے۔ اور وہاں ایک بڑا کلیسا تھا ۔آنحضرت صلعم نے انھیں بھی دعوتِ اسلام بھیجی تھی انھوں نے تحقیق حالا ت کے لئے ایک وفد زیر قیادت عبد المسیح عاقب مدینہ بھیجا ۔وہ وفد مسجد نبوی کے صحن میں آکر ٹھہرا ۔حضر ت سے مباحثہ ہوا مگر وہ قائل نہ ہوئے۔رسول خدا ؐ نے علمی دلیلیں پیش کیں مگر وہ ضد ہٹ دھرمی اور کٹھ حجتی پر تل گئے۔ یہ واقعہ ۲۴؍ ذی الحجہ سنہ ۹؍ھجری کا ہے۔

حضرت رسول خدا ؐ نے لاکھ سمجھایا کہ عیسیٰ ؑ کو خدا کا بیٹا نہ کہو ۔حضرت آدم ؑ کی مثال بھی دی مگر ان لوگوں نے ایک نہ سنی۔آخر آیت نازل ہوئی : فمن حاجّک فیہ من بعد ما جاءک من العلم فقل تعالوا ندع ابناء نا و ابناءکم ونساءنا و نساءکم و انفسنا و انفسکم ثم نبتھل فنجعل لعنت اللہ علی الکاذبین۔( سور ہ آل عمران ۔آیت ۶۱ ) یعنی اے پیغمبر کہہ دو کہ دونوں اپنے بیٹوں اپنی عورتوں اور اپنے نفسوں کو لا کر مباھلہ کریں‘‘ آپؐ نے حکم خدا سے قسما قسمی کی ٹھہرائی جسے مبا ھلہ کہتے ہیں۔اور یہ قول و قرار ہوا کہ فلاں جگہ فلاں وقت ہم اور تم دونوں اپنے اپنے بیٹے ،عورتوں،اور جانوں کو لے کر جمع ہوں اور ہرایک دوسرت پر لعنت کرے۔اور خدا سے عذاب کا خواستگار ہو۔جس دن یہ مباھلہ ہونے والا تھا اصحاب  بن سنور کے در دولت پر اس امید میں جمع ہوئے کہ شاید آپ ہمراہ لے جائیں مگر آپ نے تڑکے حضرت سلمان ؒ کو ایک سرخ کمبل اور چار لکڑیاں دے کر اس میدان میں ایک چھوٹا سا شامیانہ کھڑا کرنے کو روانہ کیا اور خود اس شان سے برآمد ہوئے کہ بغل میں امام حسین ؑ کو اٹھایا اور امام حسن ؑکا ہاتھ تھاما اور جناب سیدہؑ کو اپنے پیچھے اور حضرت علی ؑ کو ان کے پیچھے کیا ۔گویا اپنے بیٹوں کی جگہ نواسوں کو اور عورتوں کی جگہ جناب فاطمہ ؑ کو اور اپنی جان کی جگہ حضرت علی ؑ کو لیا۔اور دعا کی خداوندا ! ہر نبی کے اہل بیت ہوتے ہیں یہ میرے اہل بیت ہیں۔ان کو ہر برائی سے دور اور پاک و پاکیزہ رکھ۔الغرض جب آپ اس شان سے میدان میں پہونچے تو نصاریٰ کا سردار عاقب ؔ دیکھ کر کہنے لگا کہ خدا کی قسم میں ایسے نورانی چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر یہ پہاڑ کو اپنی جگہ سے ہٹ جانے کو کہیں گے تو یقیناً ہٹ جائے گا۔اسی میں خیریت ہے کہ مباھلہ سے ہاتھ اٹھا لو ورنہ قیامت تک نسل نصاریٰ میں سے ایک نہ بچے گا۔ بالآخر ان لوگوں نے جزیہ دینا قبول کیا ۔تب آپ نے فرمایا واللہ اگر یہ مباھلہ کرتے تو خدا ان کو بندر ،سور کی صورت میں مسخ کر دیتا اور یہ میدان آگ بن جاتا اور نجران کا ایک متنفس حتیٰ کہ چڑیاں تک نہ بچتیں۔یہ حضرت علی ؑ کی اعلیٰ فضیلت ہے کہ نفس رسول خدا کے حکم سے قرار پائے ۔اور تمام انبیاء سے افضل ٹھہرے‘‘۔( تفسیر جلالین بیضاوی ،جلد اول صفحہ ۱۱۸ مطبوعہ مصر۔معارج العرفان صفحہ ۱۳۵) 

اس طرح دنیا پر واضح ہو گیا کہ حق و باطل اور سچوں و جھوٹوں کے درمیان فیصلہ کن تاریخ ساز معرکہ کا نام ’’واقعہ مباھلہ‘‘ ہے،اور سچے اور جھوٹے کے پرکھنے کی کسوٹی کا نام ’’ عید مباھلہ ‘‘ ہے ۔جس میں اقلیت والے جیت گئے اور اکثریت والے ہار گئے۔اور واقعہ ٔ مباھلہ تاریخ آدم و عالم کا پہلا اور آخری واقعہ ہے جس کے بعد اسلام اور مسلمانوں پر مختلف ملکوں میں مختلف انداز سے مظالم تو ڈھائے گئے ،اور مظالم کا سلسلہ برابر جاری ہے مگر مباھلہ کرنے کی کسی نے ہمت و جرأت نہیں کی۔اور اصل اسلام کی صداقت و حقانیت پر انگشت نمائی کی غلطی نہیں کی۔

اسی مکتب اہل بیت کے پیروکار موجودہ دور میں ایران کے رھبر معظم آیۃ اللہ خامنہ ای مدظلہ العالی اور دیگر شیعہ علماء و مرجع عظام ہیں جن کی تسبیح کے دانوں سے دنیا حیرت زدہ اور مبہوت ہے۔ ابھی چند ماہ قبل عیسائیوں کے سب سے بڑے روحانی پیشوا پوپ  فرانسیس نجف اشرف عراق میں مقیم مرجع تقلید عالیقدر آیۃ اللہ سیستانی مد ظلہ العالی سے ملاقات کی تھی۔اس ملاقات سے ہمارے ذہن میں واقعہ ٔ مباھلہ کی کامیابی کا ایک خوشنما پہلو ابھر کر سامنے آیا وہ یہ کہ پیاسا کنویں کے پاس جاتا ہے، کنواں پیاسے کے پاس نہیں جاتا ۔شاید یہ ثمرہ ہے بانی انقلاب اسلامی  ایران حضر ت آیۃ اللہ خمینی رضوان اللہ تعالی کی انقلابی جد و جہد اور تبلیغی کاوشوں کا کیونکہ آیۃ اللہ خمینی ؒ ہی وہ واحد مذہبی و سیاسی رہنما ہیںجنھوں نے دنیا کی سب سے بڑی دوسری طاقت روس کے سابق صدر گورباچوف کو  اس مفہوم و مطلب پر مبنی خط لکھا تھا کہ وہ اپنے قابل پڑھے لکھے کچھ وزیروں کو تحقیق اسلام کے لئے ایران بھیجیں یہاں وہ ایران کےعوام اور حکومت کے مہمان  رہ کر تعلیم حاصل کریں اور تحقیق کریں۔اور پھر اسلام کے بارے میں اپنی تحقیقی رپورٹ آپ کو پیش کریں ۔تا کہ آپ اسلام قبول کر لیں۔اگر آپ نے ایسا نہیں کیا تو روس ٹکڑوں ٹکڑوں میں تقسیم ہوجائے گا ایسی آگاہی بھی کردی تھی۔متنبہ بھی کردیا تھا۔گوربا چوف نے آیۃ اللہ خمینی ؒ کے خط کا بہت احترام کیا اور اپنے لئے باعث افتخار قرار دیا ۔اور جواب بھی مودبانہ انداز میں دیا مگر نہ خود اسلام لایا نہ اپنے وزیروں کو ایران تحقیق مذہب کے لئے بھیجا ۔البتہ روس کئی ٹکڑوں میں تقسیم ضرور ہوگیا۔ 
 

تبصرہ ارسال

You are replying to: .