۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 20, 2024
حجت الاسلام والمسلمین سید حسین مؤمنی

حوزہ/استاد حوزہ علمیہ نے مباہلہ کے دن رونما ہونے والے امیر المؤمنین(ع)کی ولایت پر مبنی واقعات کے پیش نظر مباہلہ کو غدیر ثانی قرار دیا اور کہا کہ خدا نے آیۃ مباہلہ میں علی(ع)کو نفس رسول(ص) قرار دیا ہے اور اس دن سورۂ مبارکہ "ھل اتی" اہل بیت(ع)کی شان میں نازل ہوا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،حجۃ الاسلام و المسلمین سید حسین مؤمنی نے،کریمۂ اہل بیت حضرت فاطمہ معصومہ(س) قم کے حرم مطہر میں عشرۂ ولایت کی مناسبت سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ روز مباہلہ غدیر سے کم نہیں ہے اور امام رضا علیہ السلام نے مأمون کے ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ اس نے پوچھا تھا کہ کیا قرآن میں کوئی ایسی آیۃ موجود ہے جو امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی برتری پر دلالت کرتی ہو ؟آپ علیہ السلام نے فرمایا:بہترین آیتیں جو میرے جد امجد علی ابن ابی طالب علیہم السلام کی امامت پر دلالت کرتی ہیں ان میں سے ایک سورۂ آل عمران کی آیۃ 61 ہے اور وہی آیۂ مباہلہ ہے۔

انہوں نے مباہلہ کے عظیم واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ نجران کے عیسائیوں نے پیغمبر اکرم (ص) کے ساتھ گفتگو کی اور پیغمبر (ص) نے دلیل و برہان سے بحث کی لیکن انہوں نے پیغمبر(ص)کی بات نہیں مانی،یہاں پر خدا نے رسول(ص)سے فرمایا"کہ ان سے کہہ دیجئے کہ میں اپنے بچوں کو لاتا ہوں اور تم اپنے بچوں کو لاؤ ، میں اپنی خواتین کو لے آؤں گا اور تم اپنی خواتین کو لے آؤ، میں اپنی روح و جان(نفس) لاؤں گا اور تم اپنی روحیں لے آؤ پھر اس کے بعد ہم مباہلہ کریں گے تاکہ خدا جھوٹوں پر لعنت نازل کرے۔

استاد حوزہ علمیہ نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ مباہلہ اصطلاح میں ایک دوسرے پر مذہب کی راہ میں لعنت بھیجنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے،مزید کہا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ مباہلہ کرنے کے لئے،نجران کے عیسائیوں نے اپنے خاندان کے تمام افراد کو لایا اور بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوئے ، لیکن جب دیکھا کہ پیغمبر (ص) نے امام حسن اور امام حسین (ع) کا ہاتھ تھامے ہوئے ہیں، ان کے پیچھے حضرت زہرا (س) ہیں اور ان کے پیچھے امیر المؤمنین  (ع) تھے،لہذا انہوں نے مباہلہ کرنے سے انکار کردیا اور دین اسلام کی حقانیت کو قبول کر لیا۔

انہوں نے روز مباہلہ کو غدیر ثانی سے تعبیر کیا اور کہا کہ مفسرین نے،چونکہ پیغمبر اسلام(ص) کے ہمراہ امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کے علاوہ کوئی بھی نہیں تھا، "أبنائنا"سے خدا کا مطلب ان دونوں بزرگوں کو قرار دیا ہے، اور چونکہ حضرت زہرا (س) کے علاوہ کوئی خاتون نہیں تھی،لہذا "نسائنا"سے مراد حضرت زہرا(س)کو لیا ہے اور امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے علاوہ کوئی مرد پیغمبر اسلام (ص) کے ہمراہ نہیں تھا لہذا "أنفسنا"سے مراد علی علیہ السلام کی ذات اقدس کو لیا ہے اور آپ علیہ السلام خاتم الانبیاء کے نفس و جان ہیں۔

حجۃ الاسلام والمسلمین مؤمنی نے اس دن رونما ہونے والے دوسرے واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مزید کہا کہ ایک فقیر 24 ذی الحجہ کو مسجد میں داخل ہوا اور کہا کہ میں محتاج ہوں،لیکن کسی نے اس کی طرف توجہ نہیں دی فقیر نے آسمان کی طرف دیکھا اور کہا: اے خدا،گواہ رہنا کہ میں مسجد نبوی میں آیا اور پیغمبر(ص) کی امت سے مدد مانگی اور کسی نے میری مدد نہیں کی، دریں اثنا،امیر المؤمنین(ع) نے نماز کی حالت میں اس فقیر کی طرف ہاتھ بڑھایا اور اس فقیر نے امیر المؤمنین (ع) کے ہاتھ سے انگوٹھی نکالی اور چلا گیا۔

انہوں نے امیر المؤمنین(ع) کی انگوٹھی کا ذکر کرتے ہوئے،مزید کہا کہ پیغمبر (ص) نے یہ منظر دیکھا اور خدا سے اپنے لئے ایک وزیر مقرر کرنے کی درخواست کی،جس طرح آپ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لئے ایک وزیر مقرر کیا،میرے لئے بھی ایک ایسا وزیر مقرر کرے جو امور دین میں میری مدد کرے اور اس وقت،سورۂ مبارکۂ مائدہ کی آیت 55 نازل ہوئی کہ مومنین کا ولی صرف خدا اور خدا کے رسول(ص) ہیں اور ان کے بعد وہ شخص ہے جس نے ایمان لایا ہے اور نماز پڑھتا ہے اور نماز کے دوران زکوٰۃ ادا کرتا ہے اور یہ آیۃ پیغمبر (ص) کے بعد ولایت کو امیر المؤمنین علی علیہ السلام سے مختص کرتی ہے اور پیغمبر (ص) نے فرمایا کہ خدا کی قسم یہ آیۃ علی (ع) کی شان میں نازل ہوئی ہے۔

حوزہ علمیہ کے استاد نے مباہلہ کی رات کو پیش آنے والے ایک اور واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امام حسن اور امام حسین علیہ السلام بیمار ہوئے اور حضرت زہرا (س) اور امیر المؤمنین (ع) پیغمبر (ص) کی خدمت میں گئےاور علاج کے علاوہ آپ(ص) نے تجویز پیش کی کہ آپ حسنین (ع) کی شفا کے لئے روزہ رکھنے کی نذر کریں اور جناب زہرا اور علی(ع) نے تین دن تک روزے رکھنے کی نذر کی اور حسنین (ع) شفا یاب ہو گئے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جب حضرت زہرا سلام اللہ علیہا اور امیر المؤمنین(ع) نے اپنی نذریں پوری کرنا چاہیں تو ان کے پاس گھر میں افطار کے لئے کھانا نہیں تھا،امیر المؤمنین نے تین کلو جو قرض لیا اور حضرت زہرا(س)کے حوالے کردیا انہوں نے اس کا آٹا بنایا اور افطار کے لئے 5 روٹیاں بنائی۔

حجۃ الاسلام والمسلمین مؤمنی نے اشارہ کیا کہ جیسے ہی وہ افطار کرنا چاہتے تھے،ایک غریب  نے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا اور پانچوں افراد نے اپنی اپنی روٹی غریب کو دی دی اور پانی سے افطار کیا ؛ اگلے دن پھر وہی ہوا اور جب انہوں نے افطار کرنا چاہا تو گھر کے باہر سے آواز آئی کہ میں یتیم ہوں اور میرے پاس کھانے کے لیے روٹی نہیں ہے اور پھر پانچوں ہستیوں نے اسے اپنی روٹی دی اور پانی سے افطار کیا اور تیسرے دن،قرائن اور شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ 24 ذی الحجہ کا دن تھا کہ جب ان ہستیوں نے افطار کا قصد کیا تو گھر کے باہر سے آواز آئی کہ میں اسیر ہوں اور وہ مسلمان بھی نہیں تھا پھر سے پانچوں ہستیوں نے اپنی روٹی اسے دی اور پانی سے افطار کیا۔

انہوں نے کہا کہ اگلے دن،امیر المؤمنین(ع) نے امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کے ہاتھوں کو تھامے انہیں مسجد میں لے آئے اور روایت ہے کہ وہ کمزوری اور بھوک کی وجہ سے کانپ رہے تھے؛ پیغمبر (ص) نے یہ منظر دیکھا اور اس کی وجہ پوچھی اور حالات کو سمجھنے کے بعد آنحضرت(ص) نے امام حسن اور امام حسین (ع) کا ہاتھ تھام لیا اور امیر المؤمنین (ع) کے گھر گئے اور دیکھا کہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا محراب عبادت میں تھی اور کمزوری کی وجہ سے ان کی آنکھوں کے اردگرد سیاہ لکیریں بنی تھیں۔

استاد حوزہ علمیہ نے کہا کہ یہ سب ملاحظہ کرنے کے بعد پیغمبر(ص) بہت پریشان ہوئے اور اس دوران جبرئیل نازل ہوئے اور انہوں نے امیر المؤمنین اور ان کے اہل خانہ کی شان میں سورۂ مبارکۂ "ھل اتی" پیغمبر (ص) پر نازل کیا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .